دن کا اندھیرا روشن ہے!


میرے رشک شاہاں کا کیا کہنا، جب ان کا کیا کہنا تو ان کے کہے کا تو کیا ہی کہنا۔ دور کیوں جائیں، ابھی کل کی بات ہے، کسی جنگلے کا فیتہ کاٹنے کراچی تشریف لائے، ارد گرد کے سب روڈ بند تھے، یہ مت سمجھیے گا کہ ان کے پروٹوکول کی وجہ سے بند تھے۔ پروٹوکول تو انہوں نے ابھی لیا ہی نہیں، جس دن لیں گے سب کو معلوم ”پڑ“ جائے گا۔ روڈ خود بخود بند ہو گئے تھے۔ مطلب رک سے گئے تھے اور وہ بھی چلتے چلتے۔ ذرا سوچیں کہ کافی وقت بیت چکا ہو، محبوب کے درشن کی امید بھی نہ ہو، موت سر پر منڈلا رہی ہو، بس آخری ہچکیاں ہوں، یک دم جلوہ محبوب نصیب ہو جائے تو عاشق تو کہے گا : لگتا ہے کائنات رک سی گئی ہے۔ رکتی نہیں لیکن عاشق کو لگتا کہ رک سی گئی ہے۔ ایسے ہی روڈ بند نہیں ہوئے بس رک سے گئے تھے لیکن رقیب نالائق اور کرپٹ تھے، جھٹ سے کہہ دیا: روڈ بند کرائے گئے۔ حالانکہ میرے رشک شاہاں زبردستی کب کرتے ہیں بس ایک نوٹس ہی تو لیتے ہیں۔

بات دور نکل گئی، کہنا یہ تھا کہ کراچی تشریف لائے، کہنے لگے : ”ترقی یافتہ ممالک بھی ہمارے جیسے کام نہیں کرتے“ ۔ کچھ لوگ مذاق اڑانے لگے کہ ملک ترقی یافتہ ہوتا ہے یا ترقی پذیر۔ اگر پاکستان ڈیلیور (Deliver) کرنے میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل گیا ہے تو پھر دنیا ہمیں ترقی پذیر کیوں سمجھتی ہے؟ لوگ مذاق اڑا رہے تھے۔ یہ مذاق بھی ابھی گیلے تیتر کی طرح پوری طرح اڑا بھی نہیں تھا کہ اچانک کسی کونے سے رات باہر نکل آئی اور کہنے لگی :ہے کوئی دن جو میری طرح سفید ہو؟

رات یہ بات کر کے اس یونیورسٹی کی طرف کھسک لی جسے ”ماضیہ“ دنوں میں ہی ایک گورنر ہاؤس گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ گئی تو دوسرے کونے سے دن نکل آیا، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور کہنے لگا: کہاں ہے رات؟ اسے کہو کہ اگر سفیدی میں تمہارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تو ”کالک“ میں میرا مقابلہ بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ ہاشو شکاری ایک طرف کھڑا سب سن رہا تھا، رہا نہ گیا تو مذاق اڑانے والوں کی طرف آیا اور کہنے لگا :میرے بھائیو!

میری بات سنو، میں آج رات سوتے ہوئے کھانا کھانے ایک حجام کی دکان کی طرف چلا گیا۔ وہاں دیکھا تو گاڑیوں کی خوب ڈینٹنگ پینٹنگ ہو رہی تھی، ما شاء اللہ! کنڈکٹر حضرات نے بڑا اچھا کھانا بنایا تھا۔ بات کریں چائے میں مرچوں کی، سالن میں چینی کی یا نمک میں آٹے کی، کڑاہی کا ہر پرزہ لاجواب تھا۔ میں نے خوب گھونٹ گھونٹ کھانا کھایا اور اب تمہیں یہ بات سمجھا رہا ہوں ذرا غور سے سننا۔

جن لوگوں کو ہاشو شکاری کی بات سمجھ آئی انہوں نے ہنستے ہوئے اپنی راہ لی، باقیوں کو سمجھانے کے لیے ہاشو شکاری نے اخبار اٹھایا، شہ سرخی میں موجود کوئی لفظ کاٹ کر اپنی طرف سے کسی لفظ کا اضافہ کیا اور اخبار واپس میز پر رکھ دیا۔ لوگوں نے اخبار اٹھایا تو لفظ ”کرتے“ کی جگہ لفظ ”ڈالتے“ لکھا پایا۔ اب اخبار کی سرخی کچھ اس طرح سرخیاں بکھیر رہی تھی : ”ترقی یافتہ ممالک بھی ہمارے جیسا کام نہیں ڈالتے“ ۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف کی طرف دیکھا اور منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گئے۔

ہاشو شکاری نے اپنی آستین چڑھائی اور پوچھا: اب تو ٹھیک ہو گیا ہے ناں؟ اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک بچے نے اپنا ہاتھ کھڑا کر دیا، لوگ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے، سب کو اپنی طرف متوجہ پا کر اس نے کہا: ٹھیک کہاں ہوا ہے جی؟ اب تو بات پہلے سے بھی زیادہ مزاحیہ ہو چکی ہے۔ ہاشو نے پوچھا : وہ کیسے؟ بچے نے جواب دیا : کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کبھی کام ڈالتے ہی نہیں۔ چائے بنانے والے نے دیگ میں ہلتاتیس بتیس کا پانا ایک طرف رکھا اور چیخ لگائی :اسے کہتے ہیں بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ ہاشو اب کے سوچ میں ”پڑ“ گیا کہ اپنے رشک شاہاں کے اس بیان کی توجیح کیسے کرے کہ اچانک اس کے دماغ کا اوپری خانہ آکسفورڈ منطق کا ایک فارمولا چیخنے لگا:Aبرابر Bکے اور Bبرابر C کے، یعنی A اور Cمیں کوئی فرق نہیں۔ یعنی ترقی یافتہ (A) اور ترقی پذیر ملک (B) میں کوئی فرق نہیں۔

پاس ہی ایک موچی بال کاٹ رہا تھا اس نے ہتھوڑا ایک طرف رکھا اور کہنے لگا: ارے رہنے بھی دے ناں ہاشو! کاہے کو جھوٹ بولتا ایک انسان کی خاطر جسے خود پتا نہیں کہ کیا بولتا؟ پریشان نہیں ہونے کا۔ یہ بیان بھی وہیں گم ہو جائے گا جہاں سپیڈ کی لائٹ گم ہو گئی تھی اور پشاوری کنوؤں کی گیس گم ہو گئی تھی، اتنا کاہے کو پریشانی؟ یہ سننا تھا کہ اس نے موٹر سائیکل نکالا، ایک دو تین، ٹھکا ٹھک پیڈل مارنے لگا، تین کلو میٹر پیچھے آیا تو چوتھے گیئر لگا دیا، پھر ہاتھ سے ایکسیلیٹر دبایا اور یہ جا وہ جا ہو گیا۔ شعر ملاحظہ کریں :

شاہ جی فاقوں لوگ ہیں مرتے
اور نہ ان کو ظلم سے مارو
سن کر بات یہ شاہ جی بولے
گھبرانا نہیں ہے جی نہ ہارو
ہر کوئی کپڑے پہنے پھرتا
پھر کاہے کی غربت یارو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments