غاروں میں بسیرا کرنے والا الو


علامہ اقبال نے تخیل کی پرواز میں محو ہوتے ہوئے نوجوان ( یاد رہے یہ نوجوان اس وقت کا نوجوان ہے جس وقت موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا سے خاکی دنیا بے خبر تھی) کو شاہین کا تمغہ عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ
” نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔”
اقبال نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ اسے نوجوان میں وہ خصوصیات نظر آئیں جو کہ شاہین نام کے پرندے کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔ اگر ان تمام خصوصیات کو قلم کی نوک سے گزار کر زبان دینے کی کوشش کی گئی تو اصل مضمون پایہ تکمیل تک پہنچنے کی سعی میں ہی دم توڑ کر بھٹک جانے والے گمنام مسافر کی طرح بے منزل رہ جائے گا۔ اسی لیے یہاں صرف دو تین خصوصیات، جو ہمارے موضوع سے براہ راست رشتہ قائم کرتی ہیں، کو احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے اصل موضوع کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ شاہین رات کو آرام اور دن کے وقت طعام اور باقی معاملات سرانجام دیتا ہے، دوسری صفت جو باقی پرندوں سے اسے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنا رزق، جو خدا کی طرف سے اس کے نصیب میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے، خود تلاش کرتا ہے اور کسی دوسرے پرندے کا سہارا نہیں لیتا بلکہ اپنی قوت اور طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے راستہ اکیلا ہی طے کرتا ہے۔ جس وقت اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کہا اس وقت نوجوان میں کچھ کر جانے کی تڑپ اور کچھ پالینے کا حوصلہ موجود تھا۔ اقبال کے الفاظ ان نوجوانوں پر ایسے منطبق ہوتے تھے جیسے دیودار کی لکڑی میں کیل۔
اقبال سے معذرت کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ موجودہ تناظر میں جب دنیا کا تصور انٹر نیٹ کی دنیا کے بغیر تقریبا ناممکن ہوتا جا رہا ہے درج بالا شعر نوجوانوں کے کردار کو پرکھتے ہوئے ان کے کردار پر پورا نہیں اترتا۔ اور میں غالب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج اقبال اس عالم فانی میں موجود ہوتے تو وہ
” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں” کی بجائے کہتے کہ   تو الو ہے بسیرا کر پہاڑوں کی غاروں میں۔  آپ کو میرا یہ تخیل پر مبنی جملہ گراں گزرا ہوگا، کوئی بات نہیں گراں گزرنا بھی ضروری تھا۔ ایسا اقبال کیوں کہتے؟، اس سوال نے آپ کے ذہن کی کسی گمنام خالی جگہ میں سر اٹھانے کی کوشش ضرور کی ہوگی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل، جواب تلاش کرنے ہی کے لیے، الو کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
الو صبح کو سوتا ہے اور رات کو جاگتا ہے، کسی دوسرے پرندے، سوائے اپنی برادری کے چند پرندوں کے، کے ساتھ کچھ واسطہ نہیں رکھتا۔ ان دو خصوصیات کو ہی بنیاد بنائے اگر موجودہ نوجوان کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پہلا ثبوت ہمیں یہی ملے گا کہ دور جدید کا نوجوان دن کو سوتا ہے اور رات کو جاگتا ہے۔ شام پڑتے ہی ان کی آنکھیں ایسے کھل جاتی ہیں جیسے روٹی کو دیکھ کر بھوکے غریب کا منہ۔ کوئی فلم دیکھنے میں محو ہے ، تو کوئی گیم کی تخیلاتی دنیا میں کھویا دشمن کو ختم کرنے میں سرگرداں۔ ان کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ساتھ والے کمرے، بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ساتھ والے بستر پر پڑے ہوئے انسان کے کیا مزاج اور حالات ہیں۔ یعنی سیدھے الفاظ میں الوؤں کی طرح انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ والا ان کی برادری کا نہیں اور اگر انہوں نے اس سے کلام کر لیا تو برادری سے نکال کر دربدر کر دیا جائے گا۔ اس لیے ایک دوسرے سے گفتگو ہرگز نہیں ہو پاتی اور دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن صبح کی پو پھوٹنے کے ساتھ ہی سو جاتے ہیں۔
اپنی بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قبل میں الوؤں سے اس گستاخی کی معافی طلب کرنا چاہتا ہوں جو میں نے الوؤں کو الوؤں سے تشبیہ دیتے ہوئے کی ہے۔ امید کرتا ہوں مجھے بیوقوف انسان گردانتے ہوئے معاف ضرور کریں گے۔
علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments