ہینڈسم وزیراعظم اور بھنگ پالیسی


بھنگ پر ملک میں جاری شور شرابے پر یاد ایا کچھ سال قبل جب مشہور مغربی مصنف ولیم شیکسپئیر کے “چرسی” ہونے کا ڈھنڈورا بھی پوری دنیا کے اخبارات و جرائد میں پیٹا گیا تب بھی چنداں حیرت نہیں ہوئی تھی کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں شاید شیکسپئیر اس معرکہ الارا پودے کے فوائد سے واقف ہو, اس بات سے قطع نظر کہ شیکسپئیر کے شاہکار ڈرامے چرس کے نشے میں “ٹن” ہوکر لکھے گئے یا نہیں ہمارا موضوع چند دن قبل مشہور شاعر احمد فراز کے ہونہار فرزند وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز کی قوم کو سرکاری سرپرستی میں بھنگ اگانے اور بیچنے کی “خوش خبری” ہے راقم اگرچہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ محترم وزیر کے قانون اور انٹرنیشنل ریلیشن وغیرہ کے تعلیمی پورٹ فولیو کا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے کیا تعلق ہے اس کے بجائے انھیں متعلقہ محکمہ دے کر ان کی صلاحیتوں سے بہتر فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا کیونکہ شبلی فراز کابینہ میں شامل ان گنتی کے وزیروں میں شامل ہیں جو تعلیمی اور پیشہ ورانہ امور کے لحاظ سے قابل ذکر اور وژنری ہیں.
اگر اس ملین ڈالر سوال کا جواب مل جائے تو شاید محکموں کی زبوں حالی کے اسباب پر بھی کچھ روشنی پڑ سکے مگر پاکستان میں وزارتوں کے لئے اہلیت کا معیار تعلیم اور تجربے کے سوا سب کچھ ہوتا ہے, اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے محترم وزیر کی قابلیت اور اہلیت پر سوال اٹھایا جارہا ہے موصوف الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ “کم فہم اور کم علم” عوام کچھ سیکھ جائیں اور ٹیکنالوجی کا کوئی مثبت استعمال کر لیں خواہ بجلی کے پنکھوں کی مد میں بجلی کی بچت ہو, ای وی ایم کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات ہوں یا بھنگ پالیسی مگر ہماری عوامی ترجیحات ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسی عالمی یہودی اور غیر ملکی سازشوں پر پابندیاں لگوانا اور کھلوانا ہیں ایسے میں طوطی کی اواز نقار خانے میں کون سنے, ہمارے ہاں مسئلہ صرف درست لوگوں کے درست جگہ تعیناتی کا ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کا المیہ رہا ہے.
یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم ہر سال اربوں ڈالر دالوں اور کھانے کا تیل امپورٹ کرنے میں کیوں جھونکتے ہیں اور “بھنگ” جیسی قابل احترام فصل کے بجائے غریب عوام کے استعمال میں انے والی اجناس پر کیوں توجہ نہیں دے رہے مگر چونکہ ہمارے ہینڈسم خان صاحب کا ویژن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری ترقی و خوشحالی کا دارومدار بھنگ کو فصل کےطور پر اپنانے میں ہی ہے اور یقینا ہمیشہ کی طرح وہ “ساری قوم سے بہتر سب کچھ جانتے ہیں” تو سر تسلیم خم اخر وہ وزیر اعظم پاکستان ہیں اور ہم سب کا فرض ہے انکھ بند کر کے ان کے فرمودات تسلیم کرلیں.
یہ خبر جیسے ہی عوام الناس تک پہنچی کہ بھنگ اب معزز فصلوں میں شمار ہوگی اور اس سے پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے جارہا ہے کچھ صحافتی طوائفوں اور پینتالیس فیصد دماغی گروتھ والوں نے ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ لئےجن کا خیال تھا کہ بھنگ ماسوائے انسان کو “جہاز” بنانے کے اور کسی کام نہیں اتی شاید احتجاج اسی بات پر تھا کہ ترقی کی شاہراہ پر “بھنگ” پی کر جہاز کی طرح اڑنا انھیں انتہائی غیر معقول بات نظر اتی ہوگی مگر پوری دنیا میں سترھویں نمبر پر اثرانداز ہونے والے لیڈر کی سوچ اور عقل کو “ادرک کے سواد” سے نااشنا کیا جانیں, قوم کو خان صاحب کی مخلصی اور ایمانداری پر کوئی شک نہیں کہ مخالفین بھی اس کی گواہی دیتے ہیں مگر غنڈوں میں پھنسی رضیہ کے مصداق خان صاحب کے ارد گرد اور “سسٹم” میں موجود لوگوں کا کہا اور کیا ہمیشہ حق ٹھہرے گا کہ اکیلا “صادق اور امین” اتنے سارے مشٹنڈوں اور مافیائوں سے کیسے “حکومت” بچائے اور عوام کو ریلیف دے کر ساتھ ترقی کی دوڑ میں بھی شامل کرے۔ اس لئے سائیں تو سائیں, سائیں کے وزیر اور محکمے بھی سائیں, مولا جٹ فلم کا ڈائیلاگ خان صاحب پر فٹ بیٹھتا ہے کہ “خان نوں خان ناں مارے تے خان نئیں مردا” یقینا اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اپوزیشن سے زیادہ خان صاحب کو خطرہ خود اپنے اپ اور اپنے سیاسی فیصلوں سے ہے رہ گئے بیچارے عوام تو ان کا تو مقصد ہی تزئین گلستاں کے لئے خون دے کر اشرافیہ کے چمن گل و گلزار کرنا ہے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ بھنگ استعمال کرنے والوں کو بھنگی کہا جائے یا بھنگئی درحقیقت بھنگ کے استعمال کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے, انسان نے دس سے بارہ ہزار سال قبل کھیتی باڑی اور زراعت شروع کی تھی اور بھنگ کی کاشت اور استعمال کے ابتدائی شواہد جاپان کی ایک ارکیالوجیکل سائٹ پر ملے ہیں جو اٹھ ہزار سال قبل کے ہیں جب اسے کھانے اور دیگر کچھ چیزوں کے استعمال میں لایا گیا حتی کہ چین میں پانچ ہزار سال قبل اس سے کپڑے, رسیاں, جوتے اور کاغذ بنائے جاتے تھے یعنی بھنگ ان ابتدائی فصلوں میں سے تھی جسے انسانوں نے کاشت کیا اور اس سے فوائد حاصل کئے.
ہمارے ہاں بھنگ صرف پی کر “ٹن” ہونے اور اور اکثریت کی مزاروں اور گائوں دیہات میں بڑے بڑے کونڈوں میں بھنگ گھوٹنے اور پی کر نعرہ مستانہ لگانے تک محدود ہے مگر درحقیقت بھنگ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی انڈسٹری ہے جس کی اربوں ڈالر کی مارکیٹ ہے, خان صاحب کے ماضی میں شہد, زیتون وغیرہ کی ترویج و ترقی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں کئے گئے اقدامات قابل قدر ہیں اور اب بھنگ جیسی فصل کے حوالے سے بھی اگر سنجیدہ اقدامات کئے جائیں تو وطن عزیر اس فصل سے کئی ارب ڈالر کا حصہ وصول کر سکتا ہے اس سلسلے میں متعصبانہ عینک اتار کر وزیر اعظم پاکستان اور شبلی فراز صاحب کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہا جانا چاہئے نیز سابقہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی منسٹر فواد چوھدری بھی داد کے مستحق ہیں جن کے دور میں پاکستان میں سرجیکل الات سمیت کئی چیزوں کی مقامی پروڈکشن شروع ہوسکی نیز بھنگ کے حوالے سے ابتدائی کام بھی ان ہی کے دور میں ہوا کہ خان صاحب کی ٹیم میں موجود ان جیسے “چند” ہی لوگ ہیں جو پاکستان کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرنے کے لئے کوشاں ہیں.
بھنگ جسے انگریزی میں “ہیمپ” کہا جاتا ہے ہزاروں سال سے انسانوں کے استعمال میں انے والا جنگلی پودا ہے جسے جدید دور میں مزید ریسرچ کر کے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جارہا ہے, کینیبس یا بھنگ کے پودے کی دو اقسام دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں جن میں سے ایک انڈیکا اور دوسری سٹائیوا ہے, اس پودے کا عرق کتھئی یا کالے رنگ کی کشمش کی طرح ہوتا ہے جسے چرس, گانجا اور حشیش وغیرہ کہا جاتا ہے جب کہ اس کے سوکھے ہوئے پتے گراس, میری جوانا اور ویڈ وغیرہ کہلاتے ہیں, بھنگ سے چرس بننے کا عمل مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے بھنگ کو کاٹنے کے بعد کھلے اسمان تلے رکھا جاتا ہےحتی کہ برف باری وغیرہ کے درمیان بھی اسے نہیں ہٹایا جاتا  اچھی طرح خشک ہونے کے بعد اسے ململ کے کپڑے سے چھان لیا جاتا ہے , چونکہ یہ بہت زیادہ خشک ہوتا ہے اس لئے اسے چکنا کرنے کے لئے بیس سے پچیس دن دنبے یا بھیڑ کی کھال میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے جس سے اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے  یہی خام چرس ہے جسے “گردہ” کہا جاتا ہے, اخر میں اسے پکانےکےلئےاگ پر سے گزارا جاتا ہے جسے پکی ہوئی چرس کہا جاتا ہےمگرخالص چرس کاحصول اتنا ہی مشکل ہےجتنا خالص شہد ڈھونڈنا, جرمن ادارے اے بی سی کی رینکنگ کے مطابق روشنیوں کا شہر کراچی چرس کے استعمال میں دنیا کے دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پہلے نمبر پر نیویارک ہے,چونکہ یہ تحقیق” موئی کافر” عالمی طاقتوں میں سے ایک کے ملک کی تھی اس لئےعوام الناس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ کافروں کا تو مقصد ہی صرف پاکستانیوں کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف سازشیں کرنا ٹھہرا جبکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ قانونی حیثیت میں استعمال کی جاتی ہے.
بھنگ کے پودے میں ساٹھ کے قریب مرکبات اور چار سو کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں جن میں سے دو مرکبات سی بی ڈی اور ٹی ایچ سی قابل ذکر ہیں اور سب سے زیادہ مستعمل بھی۔ ٹی ایچ سی بنیادی طور پر نشے اور سرور کا باعث بنتا ہے جبکہ سی بی ڈی تجارتی اور کمرشل استعمال میں لایا جاتا ہے, اگرچہ اس پودے کی تمام اقسام میں ٹی ایچ سی اور سی بی ڈی نامی مرکبات پائے جاتے ہیں مگر تجارتی استعمال کے لئے اگائی جانے والی فصل میں ٹی ایچ سی کی مقدار 0.3 فیصد ہوتی ہے جو کہ عام پودے میں 3 فیصد سے پچیس فیصد تک ہوتی ہے اور حکومت پاکستان نے اسی سی بی ڈی کی فصل ہی کی اجازت دی ہے جس میں ٹی ایچ سی کی مقدار ناں ہونے کے برابر ہوتی ہے.
اس سلسلے میں پاکستان میں ابتدائی طور پر 100 کمپنیوں کی بھنگ کی کاشت کا لائسنس جاری کیا جارہا ہے اور بھنگ کی کاشت کی جگہ پر بائونڈری وال ضروری ہوگی جب کہ وڈیو کیمروں کے ذریعے اس کی مانیٹرنگ کا انتظام بھی کیا جائے گا اس کے علاوہ بھنگ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے, پالیسیز کا تسلسل برقرار رہا تو انے والے برسوں میں امید ہے کہ باقی دنیا کی طرح وطن عزیز بھی سی بی ڈی ائل,ادویات, کپڑوں,جوتوں, کھانے پینے کی اشیاء, رسیاں, پلاسٹک حتی کہ بلڈنگ میٹیریل  وغیرہ کی ویلیو ایڈ مصنوعات سے بھاری زر مبادلہ کمانے کے قابل ہوجائے گا.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments