کیا علما نے ممتاز قادری کی جان بخشی کیلئے صدر ممنون سے ملاقات کی؟ (مکمل کالم)


کیا صدر ممنون حسین نے وزیر مملکت پیر امین الحسنات کے درمیان ممتاز قادری کے سلسلے میں کوئی گٹھ جوڑ تھا؟ کیا صدر مملکت نے پیر صاحب سے کہا تھا کہ وہ اس ملک کے آئین کو مانتے ہیں نہ عدالت کو؟ ذرا ٹھہریے، یہ بیان ذرا سخت ہو جائے گا۔ یوں کہہ لیجئے کہ وہ عدالت کے کسی سزا یافتہ مجرم کو بچانے پر کمر بستہ تھے۔ اس راز و نیاز کے لیے انھیں پیر امین الحسنات ہی دست یاب تھے۔ ایسی کوئی سرگرمی ایوان صدر میں ہوئی تو ضرور تھی لیکن یہ سرگرمی کیا تھی؟ اب وقت آ گیا ہے کہ اس کی تفصیل بھی قوم کے سامنے آجائے۔۔۔۔۔۔

وہ فروری 2016 کا کوئی دن تھا جب کام نمٹا کر میں اٹھا اور اور گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ راستہ سپریم کورٹ کے ایک کونے کو چھوتا ہوا ہیلی پیڈ تک پہنچتا ہے پھر وہاں سے رہائشی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔  ابھی اوسان بحال نہیں ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میرے دوست اور رفیق کار نوید الٰہی تھے۔

ایوان صدر میں کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ حکومت کی تمام وزارتیں ڈائیریکٹر جنرلز میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ دیگر وزارتوں کے علاوہ وزارت مذہبی امور بھی ان ہی کے پاس تھی۔ انھوں نے چھوٹتے ہی بتایا کہ ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔ ’کیسی گڑبڑ نوید بھائی؟‘۔ میں نے کسی قدر پریشانی سے سوال کیا۔ نوید الٰہی ایوان صدر کے نہایت متحرک اور ذمے دار افسروں میں سے ایک تھے۔ وہ کسی معاملے میں پریشان تھے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ واقعی کوئی بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ کہنے لگے کہ فون پر نہیں بتائی جا سکتی۔ میں خود آ رہا ہوں۔

پتہ یہ چلا کہ اگلی صبح وزیر مملکت برائے مذہبی امور سید امین الحسنات آنے والے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ علما اور مشائخ بھی لا رہے ہیں۔’ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟’۔ میں نے نوید صاحب سے کہا۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ملاقات میں یوں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کیوں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ صبح و شام صدر مملکت سے ملتے رہتے ہیں۔ یہ ملاقات تو ویسے بھی معمول کا حصہ تھی۔ کیوں کہ وفد کی قیادت کابینہ کے ایک رکن کر رہے تھے۔’ یہی تو گڑ بڑ ہے۔ نوید صاحب نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد نوید الٰہی نے جو بات بتائی، اس کے بعد واقعی پریشانی شروع ہو گئی۔

یہ وفد ملک کے ایک خاص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مشائخ عظام پر مشتمل تھا۔ وفد میں دیگر لوگوں کے علاوہ پیر افضل قادری بھی شامل تھے۔ پیر افضل قادری صاحب کے ساتھ دو مسائل تھے۔ ایک تو وہ تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی قائدین میں سے ایک تھے۔ تحریک لبیک پاکستان وہ جماعت تھی جو ممتاز قادری کی بریت کے لیے تحریک چلا رہی تھی۔

اس پس منظر میں غالب امکان یہی تھا کہ صدر ممنون حسین سے یہ وفد ممتاز قادری کے سلسلے میں ملنا چاہتا ہے۔ ممتاز قادری کے ورثا کچھ عرصہ قبل رحم کی درخواست دائر کر چکے تھے۔وفد امکانی طور پر چاہتا تھا کہ صدر مملکت ممتاز قادری کی جان بچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اگر وہ اس سلسلے میں طاقت کے دیگر مراکز کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو آخری چارہ کار کے طور پر وہ ان کی رحم کی درخواست منظور کر لیں۔

کابینہ کا کوئی رکن یا ویسے ہی کوئی شہری سربراہ ریاست سے ملنا چاہے تو اس میں ایسی کوئی خرابی نہیں لیکن اس پس منظر میں یہ ملاقات کئی مسائل پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وفد کی تشکیل میں ایک تیکنیکی مسئلہ بھی تھا۔ پیر افضل قادری حکومت کو بہت سے مقدمات میں مطلوب تھے۔ ان میں ایک مقدمہ ایسا بھی تھا جس کی وجہ سے پولیس نے ان کا نام شیڈول فور میں شامل رکھا تھا۔ کوئی ایسا شخص جس کا نام اس شیڈول میں ہو، پولیس کو اطلاع دیے بغیر اپنے شہر یا ضلعے سے باہر نہیں جا سکتا۔ اس قانونی رکاوٹ کے باوجود پیر افضل قادری اپنے ضلعے سے نکل کر اسلام آباد کیسے پہنچ گئے؟

معاملے کا یہ ایک ایسا پہلو تھا جو اس ملاقات میں رکاوٹ پیدا کر سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا فرد جو پولیس کو اس درجے مطلوب ہو اوروہ صدر مملکت کو ملنے پہنچ جائے تو ا س میں کئی قسم کی قباحتیں ہو سکتی ہیں۔ سارے معاملے کا جائزہ لینے فیصلہ یہی ہوا کہ صدر مملکت کو اس صورت حال سے آگاہ کیا جائے، اس کے بعد وہ جیسا چاہیں، ویسے ہی کر لیا جائے۔

یہ معاملہ اس لیے زیادہ حساسیت اختیار کر گیا کہ ان دنوں ایوان صدر میں کوئی مستقل سیکریٹری نہیں تھے۔ سیکریٹری کی عدم موجودگی میں جو صاحب قائم مقام سیکریٹری کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے، ان کی ہمدردیاں تحریک لبیک کے ساتھ تھیں۔ لہٰذا ڈائریکٹر جنرل نوید الٰہی نے انھیں پیر افضل قادری کا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہونے کے بارے میں بتایا تو انھوں نے اس پر برا منایا اور ملاقات طے کر دی۔ اس لیے ضروری ہو گیا کہ صدر مملکت کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے۔

صدر ممنون حسین تک جب یہ اطلاع پہنچی تو انھوں نے ہدایت کی کہ کوئی خلاف ضابطہ کام نہ کیا جائے اور قانون کو مطلوب کسی شخص کو وفد کا حصہ نہ بنایا جائے۔صدر مملکت کی اس ہدایت پر پیر افضل قادری کا نام وفد سے نکال کر پیر امین الحسنات صاحب کو مطلع کیا گیا ۔ اس اطلاع پر وہ مایوس ہوئے اور انھو ں نے کہا کہ اُن کے بغیر ملاقات کے سود مند نہیں ہوگی۔ یوں یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی۔

صدر ممنون حسین اور پیر امین الحسنات کے مابین کیا راز و نیاز ہوئے، ان کا نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ ریکارڈ پر کوئی ایسی بات موجود ہے لیکن پیر صاحب ایک خاص سلسلے میں صدر ممنون حسین سے جس وفد کی ملاقات کرانا چاہتے تھے،اُن کی وہ کوشش کس انجام سے دوچار ہوئی، اس کی تفصیل میں نے یہا ں بیان کر دی ہے۔ اس باوجود اگر کوئی بزرگ اس سلسلے میں اپنے دعووں کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments