دسمبر سے آگے ، دسمبر کے پیچھے


ایک سوال اور اسی سوال سے جڑے اور سوالات :

کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیں صرف وہی دکھائی دے، جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔

اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جو ( موجود) ہے وہ ہمیں اس لۓ دکھائی نہ دے کہ ہم اسے نہیں دیکھنا چاہتے۔

بلفرض، اگر یہ ممکن ہو بھی جاۓ کہ صرف من چاہا ( اور من مانا ) ہی دکھائی دے، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا، وہ جو ( موجود ) ہے، وہ کیا نظر نہ آنے کے سبب، اپنے وجود سے بھی، محروم ہو جاتا ہے۔

اس سے قبل کہ اس چھپن چھپائی اور آنکھ مچولی کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کی جاۓ، یہاں اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ جاننے کی جستجو کی جاۓ کہ یہ خواہش جنم ہی کیوں لیتی ہے کہ، دکھائی دینے والا ( منظر )، دکھائی نہ دے !

اس سوال کا جواب یقینا” منطقی اور عقلی استدلال کا متلاشی ہوگا، ( کہ یہ خواہش کیوں جنم لیتی ہے ) مگر حالات حاضرہ اور حالات سابقہ، بہر حال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ خواہش، بہ وجوہ، افراد، گروہ اور اقوام کی زندگی میں، جگہ جگہ اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے۔

بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ موجود کو نہ دیکھنے کی خواہش، درحقیقت خود کو جواب دہی سے بچانے کی وہ سعی لاحاصل ہے جس کا ادراک رکھتے ہوۓ بھی، اس سے دامن چھڑانا، عام طور پر مشکل دکھائی دیتا ہے، اس لۓ، فیصلہ ساز، اسے جاۓ پناہ سمجھتے ہوۓ اس کے عقب میں، پڑاؤ ڈالنے میں عافیت جانتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ جتانے ( اور منوانے ) کے لۓ کہ جو ہے، وہ نہیں ہے، یا جو تھا، وہ نہیں تھا، اُنھیں دینا بھر کی تاویلیں تراشنے اور عذر گھڑنے کا نہ ختم ہونے والا انتھک ( اور کٹھن )فریضہ بھی مسلسل انجام دینا پڑتا ہے۔

دلیل سازی اور بہانہ بازی کا یہ طرز عمل، حقیقت ( اور واقعیت) کی حیثیت پر، اثرانداز ہو نہ ہو، اس خواہش کے علم بردار خواہش مندوں کی ( باطنی ) نیت اور (پوشیدہ ) مطمع نظر کو بتدریج ہر سطح پر نمایاں کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر اور مگر کے دھاگے سے سلی ہوئی کہانی میں، پایئداری اور سمجھ داری، کوئی کیوں کر ٹانکے۔

پس معاملہ فہمی (اور دانش مندی) یہی کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی حوالے سے، کسی بھی تناظر میں، جو دکھتا ہے ( اور جو جیسا ہے ) اسے من و عن دیکھنے کے لۓ دل بڑا کیا جاۓ اور ذہن کو اسی وسعت کے ساتھ، اسے ویسا ہی قبول کرنے ہر آمادہ کیا جاۓ۔ دل اور ذہن کی اس شعوری رفاقت کے ساتھ، شائد اس طرح، اُن غلطیوں اور کوتاہیوں کے اعادے سے گریز ممکن ہو سکے جس سے نظریں چرانے ( اور جسے دکھائی نہ دینے ) کی تڑپ میں، غبار سے الجھنے اور الجھانے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔ چشم پوشی سے نہ تلافی کا امکان اجاگر ہو سکتا ہے اور نہ تصحیح کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔ ملمع کاری ذاتی اور گروہی تسکین کا سطحی سہارا تو ہو سکتی ہے، زمینی حقائق سے نمودار ہونے والے برص کا مداوا نہیں۔

آنے والے کل کی بہتر اور توانا تشکیل کے لۓ گزرے ہوۓ کل کی واقعتا” اور حقیقت پسندانہ تشخیص ہی غالبا” وہ راستہ ہے جس سے منزل کی نشاندہی ممکن اور قابل عمل بنائی جا سکتی ہے۔

تاریخ کی چشم دید گواہی ہمیشہ، افراد، گروہ اور اقوام کا تعاقب کرتی ہے اور اس احتساب سے سرخرو ہو کر گزرنے کا مرحلہ تب ہی طے ہوتا ہے جب جرات مندی اور اعلی ظرفی کے ساتھ، سیاہ اور سفید کو سیاہ اور سفید کہنے میں قطعا”تامل نہ ہو۔ شاید یہی وہ واحد صورت ہے جب کیلنڈر پر ابھرنے والے مہینے اور ان سے وابستہ یادیں، آئندہ کے فیصلوں میں عرق ریزی کے ساتھ، سوچ بچار کے لۓ اکسانے کا سبب بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments