جادو، جنّات، لاشعور کی طاقت، ہومیوپیتھی


کھڑکی سے آنے والی روشنی بتا رہی تھی صبح ہو چکی ہے۔ کچھ دیر بعد ڈور بیل بجنے کی آواز آئی۔سردی کے موسم میں بستر چھوڑنا بھی ہمت کا کام ہے۔
ما سی آئی کھڑی تھی۔ “اکبر بیٹا! آپ کے کپڑے استری کردوں۔ ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ تین چار دن نہیں آ پاؤں گی۔” وہ گئی تو دوبارہ بیل بجی۔ چاچا مُنّامٹھائی کا ڈبہّ لے کے کھڑا تھا۔ “سر! میں نانا بن گیا ہوں”، یہ کہتے ہوئے چاچا کے چہرے پہ عجیب سی بے ساختہ خوشی تھی۔ میں مٹھائی کم کھاتا ہوں۔ باجی اور ان کے بچے بھی مٹھائی کے شوقین نہیں۔ میں نے مٹھائی کا ڈبّہ میزپہ رکھ دیا۔ جس کے نصیب میں ہو گا وہ کھائے گا۔ دھوپ سینکنے چھت پہ چلا گیا۔ وہاں تو مکوڑوں کی فوجیں آئی ہوئی تھیں۔ ایسا لگا وہ مجھے کہہ رہے ہوں، “دوست! ہمیں مٹھائی نہیں کھلاؤ گے؟”۔۔۔ میں چھت سے نیچے آیا۔ مٹھائی کا ڈبہ کھولا۔ ایک برفی اور گلاب جامن خود کھائے۔ برفی کا ایک بڑا ٹکڑا اور گلاب جامن اُٹھائے اور اوپر مکوڑوں کی قطار میں رکھ دیے۔۔۔”مٹھائی کھاؤاور میرے لیے دعا بھی کرو۔”، میں نے مکوڑوں سے کہا۔
سہ پہر کے قریب واک کے لیے باہر نکلا۔ ایک بوڑھا آدمی جس کے ٹھیلے سے میں نے فروٹ لیا تھا مجھے دیکھ کے آیا اور میرے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہا۔ میں نے کہا، “بابا جی! وبا آئی ہوئی ہے۔ آپ بوڑھے ہو۔ کسی سے ہاتھ نہ ملایا کرو۔”۔ بابا جی نے جواب دیا۔ “انسان کاایمان مضبوط ہوتو یہ وبا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔”۔ میں نے کہا، “بابا جی! اللہ کے نبّی حضرت ایوب (ع) بیمار ہو ئے تھے۔ اللہ کے آخری نبّی حضرت محمّد (ص) بھی بیمار ہوئے۔ وبا میں محتاط رہنا بھی دینِ اسلام کا حکم ہے”۔ مذہبی علماء سے میں یہ کہوں گا کہ اگر آپ وبا کے حوالے سے لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور نہیں کرتے تو پھر آپ عالمِ اسلام کے مجرم ہو۔یاد آیا، ہومیو پیتھک ڈاکٹرو ں کے لیے مشورہ، اگر حالیہ وبا کا کوئی مریض آپ کے پاس علاج کے لیے آئے تو بیسلینم بہت اچھے نتائج دے گی۔ اگر حالیہ وبا کا شکار ہونے والا پہلے سے دل کا مریض تھا تو آپ پہلے اُسے ایکونائٹ کی ایک ڈوز دیں۔ اگر وہ پہلے سے ذیابیطس کا مریض تھا تو کارسنوسن کو بھی نظر میں رکھیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں لبلبہ کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے کارسنوسن اور آئرس ورسیکلر سے نتائج لیے جا چکے ہیں۔ اگرچہ ان سے لبلبہ سو فیصد یا مکمل طورپہ متحرک نہیں ہوتا لیکن کچھ نہ کچھ انسولین بنانے لگ جاتا ہے۔ باقی کی کمی مریض واک اور ورزش سے پوری کر کے بتدریج انسولین انجکشن سے جان چھڑا لیتا ہے۔
اسی طرح کارسنوسن سے قوتِ حیات کو متحرک کر کے کینسر کے خلاف بھی قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے حوصلہ افزا نتائج حاصل کیے جا چکے ہیں۔ ہومیوپیتھس ذہن میں رکھیں کہ حالیہ وبا کا شکار ہونے والے ہر مریض کو سب سے پہلے آپ نے خوف کو دور کرنے والی دوا کی ایک ڈوز دینی ہے پھر اس کی جملہ علامات جس دوا کی مانگ کر رہی ہوں وہ استعمال کرانا ہے۔ ایلوپیتھ ڈاکٹرز سے بھی اکبر شیخ اکبر یہ کہے گا کہ حالیہ وبا کا شکار ہونے والے مریضوں میں موت کا خوف پیدا ہو رہا ہے۔آپ سائیکاٹرسٹ سے پوچھ لیں ان کے پاس موت کا خوف دور کرنے والی دوا کونسی ہے پہلے وہ استعمال کرا کے پھر قوتِ مدافعت پیدا کرانے والی دوائیں استعمال کرائیں تو آپ کو بہت اچھے نتائج ملیں گے۔ یاد رکھیں جب تک آپ مریض کے اندر سے مو ت کا خوف نکال کے حوصلہ پیدا نہیں کرتے،اُس پہ مدافعت بڑھانے والی دوائیا ں اثر نہیں کرتیں۔ مریض کی تیماداری کے وقت آئے رشتہ دار جب اپنی باتوں سے تاثر دیتے ہیں کہ اس نے نہیں بچنا تو مریض بھی اپنے ذہن میں یقین بٹھا لیتا ہے کہ میں نے نہیں بچنا۔ بس پھر اُس کی قوتِ مدافعت یا تو کام کرنا چھوڑ دیتی ہے یا کمزور ہو جاتی ہے۔
تھوڑی پرانی بات ہے،ایک جگہ میری رہائش تھی۔ گلی میں بہت چھوٹے بچے کھیلنے آتے تھے۔ مجھے پیارے لگتے تھے۔ چھوٹے بچے مجھے ویسے بھی بہت پیارے لگتے ہیں۔ میری جیب میں ٹافی، چاکلیٹ ہوتے تو ان کو دے دیتا۔ ا ب ایسا ہوتا کہ میں جاب سے گھر واپس آتا تو اچانک وہ بچے گلی کے کسی کونے سے برآمد ہو کے میرے سامنے آ جاتے اور ٹافیوں کی ڈیمانڈ کرتے۔ ایک بار میں اپنے لیے کھانے کی کچھ چیزیں لایا۔ وہ ڈبّوں میں پیک تھیں اور پیکٹس رنگین شاپر میں رکھے ہوئے۔ جب میں آیاتو گلی میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اگلے دن بچے آئے۔ میں نے ٹافیا ں دیں۔ انھوں نے کہا، انکل! وہ جو تم نے کھانے کی فلاں چیز الماری میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ ہمارے لیے لاؤ۔ میں حیران کھڑا کہ اس چیز کا علم تو میرے علاوہ کسی کو بھی نہیں۔ ان بچوں کو کیسے پتہ چل گیا؟۔۔۔میں نے خاموشی سے چند پیکٹس اٹھا کے ان کو دے دیے۔ بچے اتنے چھوٹے تھے جیسے دو سال کے بچے ہوں۔ گھر کی ڈور بیل پہ ان کا ہاتھ نہیں جا سکتا تھا لیکن بیل بجتی اور میں باہر نکلتا تو وہ کھڑے ہوتے اور کھانے کی چیزوں کی ڈیمانڈ کرتے۔۔۔ بہرحال۔ مجھے آپ سے کوئی داد نہیں سمیٹنا نہ آپ کو مرعوب کرنا ہے۔ اگر آپ کا موقف ہے کہ وہ بچے جنّات نہیں انسان تھے تو بھی میں آپ کے موقف کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں واعظ بن کے آپ کے سامنے دلائل یا تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا۔ ذاتی طور پہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ جنّات کا وجود ہے۔ مجھے خود اس موضوع پہ زیادہ لکھنا پسند نہیں لیکن دوستوں کے اصرار کی وجہ سے کبھی تھوڑا بہت لکھ جاتا ہوں۔علمِ نفسیات یہ کہتا ہے کہ انسانی لاشعور کے کچھ خفیہ گوشے ایسے ہیں جب وہ ایکٹو ہوتے ہیں تو انسان سے کرامتیں اور عقل کو حیران کر د ینے وا الے کام ظاہر ہو جاتے ہیں۔مشرق میں کسی سے عجیب کام ظاہر ہوں تو لوگ اس کو ولی، سادھو، مجذوب اور پتہ نہیں کیا کچھ سمجھ کے اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ مغرب نے سائنس اور علمِ نفیسات کے اصولوں کی روشنی میں انسانی لاشعورپہ بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔
کارل ژونگ کہتا ہے کہ پوری کائنات ایک بڑا دماغ ہے اور تمام انسانوں کے دماغ اس بڑے دماغ کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ خیال ہے انسان کا ذہن اور جنّات کا ذہن دو مختلف فریکوینسیوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں جیسے ریڈیو ہائی فریکونسی اور لو فریکونسی میں کام کر رہا ہوتا ہے یا جیسے انٹر نیٹ پہلے تھری جی اور فور جی میں چل رہا تھا اب فائیو جی آ رہی ہے۔ یہ بھی خیال ہے کہ جیسے جدید معاشرے میں لوگ بہاول پور میں بیٹھے بیٹھے موبائل فون، واٹس اپ یا کسی بھی ویڈیو کالنگ پروگرام سے کینیڈا میں بیٹھے اپنے کسی رشتہ دار سے باتیں کر لیتے ہیں ایسے وہ بغیر کسی موبائل فون، وائرلیس یا کسی بھی قسم کے الیکٹرانک ڈیوائس کے بغیرصرف اپنے لاشعور کی انرجی کو استعمال کرتے ہوئے ساؤتھ افریقہ، جاپان، آسٹریلیا یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے کسی ایسے شخص سے حال احوال کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی ہو۔دیکھیں، موبائل فون تو اب آیا ہے۔ پہلے کسی بھی ماں کا کوئی بچہ تعلیم یا روزگار کے لیے سینکڑوں کلومیٹر دور رہ رہا ہوتا تھا اور وہ بیمار ہوتا یا کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا تو ماں کو پتہ نہ بھی ہوتا تو بھی وہ بے چین ہو جاتی اور اپنے شوہر سے کہتی، ہمارے بچے کا پتہ کرو۔ ایسے ہی خاندان میں کسی پیارے کی فوتگی ہونے والی ہو
بظاہر وہ ٹھیک ٹھاک ہو تو بھی خونی رشتہ داروں کے اندر ایک عجیب سی بے چینی اور اداسی پیدا ہو جاتی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ میری پوسٹنگ ایک پہاڑی شہر میں تھی جہاں میں نے زندگی کے کئی سال گزارے۔اچانک مجھے اپنے والد صاحب کے لیے بے چینی اور اداسی سی مسلسل محسوس ہونے لگی۔ پھر حیرت انگیز طور پہ میری بہاول پور واپسی کے خود بخود حالات بن گئے۔ میرے والد صاحب نے ناشتہ کیا۔ اپنی فصلیں دیکھنے کھیتوں میں گئے۔ لوگوں سے گپ شپ کی۔ قدرت نے ان کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے ہی مجھے چندی پور پہنچا دیا۔ میں پہنچا تو چھوٹی بہن نے بتایا ابّو آپ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ گپ شپ کی اور پھر اس دنیا سے چلے گئے۔اسی طرح یہ جو کشف ہوتا ہے یا ماضی کو کوئی بات کسی کو بتا کے اسے حیران کر دینا ہوتا ہے تو یہ کوئی ولایت یا فقیری وغیر ہ نہیں بلکہ یہ بھی لاشعور کے کسی پورشن کا ایکٹو ہو جانا ہے۔
انسانی ذہن جب لاشعور کی بجائے شعور کے زیر اثر ہوتا ہے تو جنّات اس انسان کے ساتھ کبھی بھی رابطے میں نہیں آتے کیونکہ وہ بہت زیادہ ہائی فریکونسی میں ہوتے ہیں اور انسانی شعور لو فریکونسی میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ جب انسان کا لاشعور ایکٹو ہو کے کچھ لمحوں کے لیے شعور کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے تو اس وقت انسان کا ذہن لو فریکونسی سے ہائی فریکونسی میں چلا جاتا ہے۔۔۔یوگا اور مراقبہ بھی دراصل ذہن کو لو فریکونسی سے ہائی فریکونسی میں لے جانا ہوتا ہے۔ اگر ذہن مستقل ہائی فریکونسی میں چلا جائے تو شعور کریش ہو جاتا اور انسان نارمل انسان سے مجذوب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب مجذوب سے کرامتیں تو ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وہ خود ہوش کی حالت میں نہیں ہوتا۔ اس لیے بہتر ہے ہر وقت ہائی فریکونسی میں رہنے کی بجائے شعور کی حالت میں رہا جائے۔ ہا ں ایک اور بات ہائی فریکونسی کبھی کبھی شدید ڈپریشن کا سبب بھی بن جاتی ہے اور کبھی کبھی ڈپریشن سے باہر نکال لیتی ہے۔ اصل میں ذہن سے خارج ہونے والی لہریں جب کسی وجہ سے بلاک ہو رہی ہوتیں ہیں تو ڈپریشن ہو جاتی ہے۔ جادوٹونا کا توڑ بہت آسان ہے۔ لاشعور بیک وقت مثبت اور منفی انرجی رکھتا ہے۔ جادوٹونا اور نظرِ بد دراصل لاشعور کی منفی انرجی کا استعمال ہے۔ آپ اپنے اندر بلا تخصیص مذہب، نسل، رنگ اور کلاس سب لوگوں کے لے محبت بھر لیں۔ مثبت سوچ اور مثبت خیالات بھر لیں۔ جادو ٹونا یا نظر بد کی جو منفی انرجی آپ کی طرف آئے گی تو آپ کی اپنی مثبت انرجی نہ صرف اُسے روکے گی بلکہ واپس بھی بھیج دے گی۔
اچھا چھوڑیں، جدید معاشرے میں بہت سارے لوگ نہ روحانیت کو مانتے ہیں اور نہ جنّات کو۔۔۔ فی الحال ہم ان نہ ماننے والے دوستوں کے احترام میں اپنا یہ چورن بیچنا کچھ وقت کے لیے روکتے ہیں۔مجھے ایک بات یاد آگئی۔ گذشتہ موسم سرما میں ہم ایک دیہاتی علاقے میں بابوں کی ایک محفل میں بیٹھے تھے وہاں ایک بابے نے بڑی عجیب بات کی۔ کہنے لگا،”سمندر کے اندر ایک جزیرے میں بڑے بڑے بیورو کریٹس، جج، پولیس افسران اور ایک آدھ بڑا فوجی افسر کئی کئی ایکڑوں پہ پھیلے شاندار سرکاری بنگلوں میں رہتے تھے جن کے گرد مسلح سرکاری محافظوں کا پہرہ ہوتا تھا۔ر ات کو جب وہ سوتے تو سمجھتے ان کے گھر کی طرح باہر کی دنیا میں بھی سب امن ہی امن ہے۔ سب کی بیٹیاں محفوظ ہیں۔ ان افسران اور ججوں کے سامنے جب کوئی ایسا مجرم پیش ہوتا جس نے اسلحہ کے زور پہ کسی بیوہ کی بیٹی کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہوتا تو وہ سمجھتے کہ اس ڈاکو اور مجرم کے بھی انسانی حقوق ہیں اور پھر اُسے ریلیف دے دیتے۔ پھر اُس جزیرے میں ایک تبدیلی آئی۔ ان بڑے لوگوں کے گھروں سے سرکاری گارڈز ہٹا لیے گئے۔ یہ لوگ رات کو سونے کی بجائے ساری رات ہاتھ میں پستول پکڑ کے بیٹھے رہتے کہ گھر میں جوان بیٹیاں ہیں۔ کوئی مجرم، ڈاکو، غنڈہ دیوار پھلانگ کے ہمارے گھر میں داخل نہ ہو جائے۔ پھر ان بڑے لوگوں نے معاشرے میں پائے جانے والے مجرموں کو خود ہی گولیاں مار مارکے ختم کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ خود چین کی نیند سو سکیں۔”
بابا جی! کن جزیروں اور کن لوگوں کی بات کرتے ہو؟۔ آج کے دور میں ایسے کسی جزیرے کا وجودنہیں۔گُڑ والی چائے بنواؤ۔اُس میں سونف، دار چینی اور الائچی ڈلواؤ اور پی کے سو جاؤ۔
حسین خواب کے فریب میں سُلا دیے گئے ہیں اکبر میاں
اُٹھ گئے تو صبح ہے نہ اُٹھے تو جاری ہے رات

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments