آپ اتنی پرانی ہیں ؟


یہ صرف دودن پرانی بات ہے جب مالک دکان نے بات کرتے کرتے کہا “ آپ اتنی پرانی ہیں ؟”
کیا مطلب؟ میں نے چشمہُ صاف کرتے ہوۓ سامنے کھڑے تیس پینتیس سال لڑکے سے پوچھا
میرے کھردرے انداز گفتگو سے جز بجز ہوتے ہوۓ فرمانے لگے اب ہر کوئیی آپ کی طرح نہیں سوچتا سب اپنا اپنا سوچتے ہیں۔
جملوں کا یہ تبادلہ گزری میں واقع ایک گیزر اور اسی نوعیت کے دیگر اپلاینسیس کی ایک دکان پر میرے اور دکان دار کے درمیان ہورہا تھا۔
میں الیکٹریک گیزر کی تلاش میں وہاں تک پہنچی تھی اور گیزر کے مختلف ماڈل دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اسُ نے کوئی چھ انچ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ایک سیاہ رنگ کی ڈبہ نما چیز میری طرف بڑھاتے ہوۓ کہا “ اگر آپ کے ہاں گیس نہیں آرہی تو یہ بہت کام کی چیز ہے “۔ میرے استفار پے اس نے بتایا کہ اسے چولہے میں لگوائیں یہ گیس کا پریشر بڑھا دے گا۔
میں نے ڈبہ نما چیز کو الٹتے پلٹتے ہوۓ پوچھا اسیُ قسم کی چیز ہے جیسی لائن سے پانی کھینچنے کی ایک مشین ہوتی ہے جو اپنے گھر کا پیٹ بھرنے کے لئے دوسروں کے حصے کا پانی کھینچ لیتی ہے۔
جی- جی آپ نے صحیح پہچانا انجانی خوشی سے نہال اس نےداڑہی کھجاتے ہوۓ کہا۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر میں گیس کھینچ لوں گی تو دوسروں کا کیا ہوگا؟ جس کے جواب میں مجھے سننے کو ملا “ آپ اتنی پرانی ہیں”۔
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے وہ مستقل دلائل دیتا رہا۔ کبھی کہتا “ میں نے اپنے گھر میں لگائی ہے آخر کب تک بچوں کو باہر کا کھانا کھلاؤں؟ آپ کو تو باہر کے کھانوں کے نقصانات پتہ ہوں گے؟ کبھی کہتا کہاں سے اتنے پیسے لاؤں کہ تین وقت باہر سے کھانا لاؤں؟ سب کو اپنا پیٹ پیارا ہوتا ہے آنٹی۔
میری خاموشی سے اکتا کر کہنے لگا “ وقت بدل گیا ہے اب سب اپنا اپنا سوچتے ہیں۔ آپ کے سوچنے کا انداز بہت پرانا ہے”
اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے اس کی زبان مستقل چل رہی تھی اور میرا دماغ مستقل سوچ رہا تھا کبھی پیچھے کی طرف کبھی آگے کی طرف— کبھی بچپن کی سنی امی اور نانی کی گفتگو یاد آتی جس میں دونوں پیچھے چھوڑے محلوں ، گھروں کو یاد کرتے ہوۓ بتاتی تھیں کہ کس طرح صبح سویرے چمارنیں، کمہارنیں اور ایسے ہی دوسرے طبقات کی عورتیں ان کے گھروں سے آگ مانگنے آتی تھیں۔ مانگی ہوئ آگ ایک دہکتے کوئیلے یا لکڑی کے ٹکڑے کا نام ہوتا تھا۔
نانی بتاتی تھیں کہ ان کی اماں یعنی ہماری پر نانی نے اس مقصد کے لئے مٹی کے کوزے رکھے ہوۓ تھے جن میں وہ صبح سویرے راکھ ڈال کے ایک ایک دہکتا ہوا کوئیلہ رکھ دیتی تھیں اور ہر آنے والی کو پکڑا دیتی تھیں۔ آگ لینے دینے کا یہ کاروبار اس وقت کا رواج تھا جو سب کے پھرکوںُ کے زمانے سے بنا کسی ردوکد کے چل رہا تھا۔
بتانے کو تو وہ یہ بھی بتاتی تھیں کیونکہ ان کے گھر میں بھینسیں تھیں اور روزانہ صبح دس گیارہ بجے دودھ سے مکھن نکلتا تھا اور مکھن نکلا دودھ جسے ان کی زبان میں “مٹھا” کہا جاتا تھا اسے لینے کے لئے بھی کمہارنیں اور چمارنیں بچوں سمیت لائن لگاۓ کھڑی ہوتی تھیں اور گھر والے بنا ابرو اٹھاۓ دئیے جاتے تھے۔
اور وہ دکان دار مجھے یہ کہنے پر کہ دوسروں کا کیا ہوگا؟ کہہ رہا تھا آپ بہت پرانی ہیں۔
دکاُن میں مختلف اشیا دیکھتے ہوۓ یہ خیال بھی مستقل کلبلا رہا تھا کہ سوچ کی اس تبدیلی کا نام ہی کیا جنریشن گیپ ہے؟ یا تو اپنی نبیڑ تجھے پرائ کیا پڑی ہے والا وقت آگیا ہے؟
گھر آئ چولہے اسی طرح خاموش تھے اور خاموش ہیں۔ چولہوں کی خاموشی کا یہ دوسرا ہفتہ ہے۔ وہ جو ناخن برابر آگ کی چمک نظر آتی تھی اب وہ بھی نہیں ہے۔ چولہوں کی مسلسل خاموشی پکار پکار کے بتا رہی ہے کہ وہ کھینچا تانی کا شکار ہے۔ گزرے سالوںکے موسم سرما میں کئ بار ایسا ہوا ہے کہ صبح دوپہر کے کچھ مخصوص اوقات میں گیس کا پریشر کم ہو جاتا تھا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد ٹھیک ہو جاتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چولہوں کی سانس مکمل بند ہو گئ ہو یہ تو صاف پتہ چل رہا ہے کہ کچھ گھروں کے چولہے “ وینٹ” پر سانس لے رہے ہیں اور جن گھروں میں وینٹ( میرا مطلب اس جادو ئ ڈبےسے ہے) نہیں لگا ہوا وہاں سانس کی آمد رفعت مکمل طور پر بند ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نہ صرف دکان دار گھر میں آنے والے پلمبر ، الیکٹریشن سب اس جادوئ ڈبے کی کرامات سے نہ صرف آگاہ ہیں مشاورت کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں کہ ڈبہ لگوا لیجیے سب مسلۂ حل ہو جاۓ گا۔
اس سب میں کوئی کوئی میرا جیسا پاگل نہیں لگواۓ گا لیکن اگر ایک بلاک کے آٹھ گھروں میں سے دو چار بھی لگوا لیں گے تو باقی کے چار گھروں کو بھلا سانس کہاں سے ملےگی۔
میں نے دیکھا ٹی وی کے پرائم ٹائم میں اس جادوئ ڈبے کی کرامات کے اشتہار چل رہے ہیں۔ ڈبہ معمول کی دیگر اشیا کی طرح چائنا ہی کا بنا ہوا ہے۔
یہاں میرا ایک سوال ان تمام متعلقہ اداروں سے ہے جو ابھی آنکھیں بند کئے، کانوں میں انگلی دئیے، سانس روکے بیٹھے ہیں کہ وہ اس غیر قانونی فعل پر کوئی قدم کیوں نہیں اٹھا رہے؟
یہ بلکل ایسا ہی ہورہا ہے جب لوگوں نے پانی کے حصول کے لئے لائینوں میں پریشر پمپ لگانے شروع کئے اور دیکھتے دیکھتے لائینیں سو کھ گئیں لوگ بوند بوند پانی کو ترس گۓ اور پانی کا حصول پیسوں کے عوض ٹینکروں اور گدھا گاڑیوں پے رکھی ٹینکیوں سے ہونے لگا۔ متعلقہ ادارے اس وقت بھی سو رہے تھے اور آج بھی سو رہے ہیں۔
ہماری مملکت خداد کا نظام ایسا ہی ہے کہ جب غیر قانونی کام ہورہا ہوتا ہےتو قانون سمیت سب آنکھیں بند کئے رہتے ہیں جب پانی سروں سے میلوں اوپر نکل جاتا ہے تو آنکھیں ملتے ہوۓ ادارے جاگنا شروع کرتے ہیں پھر الزامات الزامات کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں ہر فرد اور ادارے کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ پتلی گلی سے نکل جاۓ۔ اس بیچ اگر اندھے قانون کی غیرت جاگ جاۓ یا اسُ کے کان پر جوُں رینگ جاۓ تو نیسلا ٹاور جیسے فیصلے سامنے آتے ہیں۔ جس میں کسی ادارے کا کوئی فرد معتوب نہیں ہوا نہ ہی کسی عوامی خدمات کے ادارے کو لگام ڈالنے کی کوئی تجویز سامنے آئ نہ ہی لگام ڈالی گئ۔ برق گری تو بے چارےمکینوں پر جن کی عمر بھر کی کمائیاں اُن آشیانوں میں لگی ہوئ تھیں۔
آخر یہ جادو کا ڈبہ کسی نے تو چائینا کو آڈر کیا ہوگا؟ کسی نے امپورٹ بھی کیا ہوگا؟ کسی نے کسٹم سے کلئیر بھی کیا ہوگا؟ کوئی اس کا ڈسٹری بیوٹر بھی ہوگا ؟ مال خود بخود چل کر تو دکانوں تک نہیں پہنچ جاتا؟ کہاں ہے وہ محکمہ سوئی سدرن گیس ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments