فکشن کی تنقید کا المیہ


ڈاکٹر وارث علوی کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔وہ ایک منجھے ہوئے اور نڈر نقاد سمجھے جاتے ہیں۔ وہ تنقید برائے تنقید نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد اصلاح اور حقائق پر مبنی بات کرنا ہوتا ہے۔اردو ادب کا خاصا رہا ہے کہ اس میں ہر دور میں ایسے لوگ سامنے آئے جن کی چپقلشیں بڑی دل آویز رہی ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی ” افسانے کی حمایت میں ” اور وارث علوی کی ” فکشن کی تنقید کا المیہ ” کتابیں جہاں اپنے اندر چپقلش کا شبہ رکھتی ہیں ، وہیں عصر حاضر کے قاری کے لیے ایک سنجیدہ ادبی بحث اور عالمانہ و فاضلانہ تاثیر بھی رکھتی ہیں۔
وارث علوی کی ایک خوبی سے راقم بے حد متاثر ہے۔ وہ یہ ہے کہ بات کرتے ہوئے وارث علوی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی توپوں کا رخ کس شخصیت کی طرف ہے اور اس کا ادبی قد کاٹھ کیا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ صنف یعنی ” افسانہ ” پر کوئی اندرونی اور بیرونی حملہ برداشت نہیں کر سکتے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے افسانے پر مختلف الزامات عائد کیے تھے کہ ابھی ناول کے عروج کا زمانہ تھا ،پھر اچانک افسانے کی ضرورت کیوں پڑی ؟ وہ پریم چند کے علاوہ کسی کو افسانہ نگار بھی نہیں مانتے۔ پریم چند کی کردار سازی کو پسند کرتے ہیں۔  فاروقی صاحب نے شاعری کو افسانے پر فوقیت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کہانی کے بغیر افسانہ نہیں لکھا جا سکتا لیکن شاعری اس سے مبرا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعری اصولوں کی غلام نہیں ہونی چاہیے۔ رباعی کو بھی 24 اوزان سے آزادی دلوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔  وہ اظہار ، ترسیل اور ابلاغ کو اہمیت دیتے ہیں۔
وارث علوی کو شمس الرحمٰن فاروقی سے کیا اختلافات ہیں ؟
وہ کہتے ہیں کہ اگر شاعری میں نت نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں ، تو فکشن میں ( افسانہ ) کیوں جگہ نہیں بنا سکتا ؟ شاعری اصولوں کی پابند نہیں ہو سکتی تو افسانہ کیوں پابند ہو ؟ وہ کہتے ہیں ہر نئی صنف پچھلی صنف کے دور عروج میں ہی معرض وجود میں آتی ہے ، افسانے کا  ناول کے دور عروج میں سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ افسانے کو گلی ڈنڈہ کہہ کر مخاطب کرنے پر بھی وارث علوی ، شمس الرحمٰن فاروقی پر اچھے خاصے تپے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہاتھ میں تیز دھار تلوار لیے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی کو فکشن پڑھنا بھی نہیں آتا تو وہ فکشن پر تنقید کس حق سے کر رہے ہیں۔
وارث علوی کے نزدیک عصر حاضر کا تقاضا تھا کہ افسانہ وجود میں آئے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ افسانہ نگار کو مکمل آزادی ہونی چاہیے کہ وہ من مرضی سے کہانی تشکیل دے۔ جدید اور معاصر افسانہ نگاروں نے افسانے کو موضوعات سے نوازا ہے۔ علامتی افسانہ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہر افسانہ نگار علامت مشہور ہونے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ بہت سارے ایسے افسانہ نگار موجود ہیں جو علامت نگاری پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو اچھے علامتی افسانہ لکھنے والے نظر کیوں نہیں آتے۔ وارث علوی فکشن کے بہت اچھے نقاد ہیں۔ وہ نظریاتی اور عملی تنقید کو خوب جانتے ہیں۔ وہ افسانے کے مغربی اور مشرقی اصولوں سے واقف ہیں۔ وہ خود جدید افسانے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جدید افسانہ نگار نے تجریدی افسانہ لکھ کے کہانی پن کو معدوم کر دیا ہے۔ اس کے برعکس وہ احمد ہمیش اور سریندر پرکاش کے فن کے معترف بھی ہیں۔ راقم کی نظر میں وہ فکشن کے بہت بڑے نقاد ہیں اور ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ فکشن پر وہی بندہ بات کرے جس نے فکشن کو کافی زیادہ پڑھ بھی رکھا ہو اور اس کے تنقیدی اصولوں سے بھی واقف ہو۔ منٹو اور بیدی کے فن پر جتنی نفاست سے انہوں نے بات کی اور منٹو کا دفاع کیا وہ کسی اور کے بس کی بات نہ تھی۔ منٹو پر جنس نگاری کے الزامات عائد ہوئے تو وارث علوی نے ان کے فن کو لوگوں کے سامنے رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقت نگاری اور تخیل دونوں چیزیں باہم مل جائیں تو کوئی چیز فحش نہیں ہوتی۔ وارث علوی فکشن اور تنقید سے محبت کرتے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments