خونی سرمایہ دارانہ نظام، لبرل ازم اور کرنسی


”بینک دولت پاکستان ایک سو روپیہ، حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا“ اگر اپ کرنسی نوٹوں پر موجود ان عبارات کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت یا اسٹیٹ بینک اپ کو کرنسی نوٹوں کے عوض سونا یا چاندی دینے کا پابند ہے تو اپ غلط ہیں، نوٹوں پر لکھے گئے ان جملوں کا مطلب صرف اتنا سا ہے کہ اپ اپنا کرنسی نوٹ حکومت یا اسٹیٹ بینک کے پاس لے کر جائیں گے تو اس پرانے نوٹ کے عوض اپ کو کڑکتا ہوا نیا نوٹ تھما دیا جائے گا، ایسا کیوں، اس کی بہت لمبی تاریخ ہے اور اس سب کے پیچھے انسانی حقوق کی علمبردار عالمی طاقتوں کی دوسری قوموں کے استحصال کی کئی داستانیں ہیں جو دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج خون آشام سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کے لبرل ازم کے نظریات سے جڑی ہیں، یہ سب کیسے ہوا اور کیوں ہوا، کیا اس سے معیشت پر یا عام آدمی پر کوئی فرق پڑتا ہے، کیا، کیوں اور کیسے کے جوابات ہمیں کرنسی کی ماضی کی تاریخ تک لے جاتے ہیں۔

پیسہ ہمیشہ سے تصوراتی چیز رہا ہے، کوئی بھی چیز جس کی حیثیت اور قیمت پر سب اتفاق کر لیں، اگر ساری دنیا یہ تسلیم کر لے کہ سونے کا ایک گرام اور ایک بھیڑ برابر ہیں تو یہ برابر ہوجائیں گے، اگر دنیا میں موجود سب لوگ یہ طے کر لیں کہ کسی مخصوص کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعے لین دین ہو سکتا ہے اور انھیں جمع کر لینے سے اپ امیر ہوجائیں گے تو حقیقت میں ایسا ہی ہو گا اور آج دنیا میں یہی رائج ہے۔

ایک عام اور غلط تاثر یہ ہے کہ ابتدائی طور پر گفٹ اکانومی یا بارٹر سسٹم رائج تھا مگر یہ حقیقت نہیں ہے، چاول کے کتنے کلو گرام کے عوض اپ جوتے خرید سکیں گے یا کتنی اون کے عوض حجام اپ کے بال کاٹ دے گا یا پھر ایک گھوڑے کے بدلے میں کتنی گندم حاصل ہو سکتی ہے، نہیں، یہ ممکن نہیں اور اس صورت میں تو بالکل نہیں جب حجام کو اون کی یا کسان کو گھوڑے کی ضرورت ناں ہو، یہ انفرادی اور محدود طور پر تو ممکن ہے مگر اجتماعی معاشروں میں بڑے پیمانے پر ناقابل عمل ہے کہ ہزاروں لاکھوں چیزوں کے تبادلے کو طے کیا جا سکے اور ایسا ہو بھی جاتا تو بھی اگر مجھے چاول کی ضرورت نہیں ہے تو میں اپنے بنائے ہوئے جوتے اپ کو نہیں دوں گا اور یہ لین دین نہیں ہو سکے گا۔

پیسہ صرف قیمت یا ویلیو کے ذخیرے کا حساب کتاب ہے اور اس بات پر اتفاق کہ اس کا تبادلہ کیسے کیا جائے، پیسے کی ابتدائی شکل کموڈٹی کرنسی تھی جیسے سونا، چاندی یا اجناس مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ انھیں بنانا پڑتا تھا، زیادہ کرنسی سنبھالنا اور بلا خوف و خطر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا مشکل تھا اس کے لئے کمیونٹی عمارتیں یا عبادت گاہیں استعمال کی گئیں، اپنی کرنسی وہاں رکھوا کر رسید حاصل کی جا سکتی تھی اور انھی رسیدوں کے عوض کاروبار اور لین دین کیا جاتا تھا یہ بینک کی ابتدائی شکل تھی۔

چین کے علاقے سیچوان میں نویں سے گیارہویں صدی کے درمیان جب سونے چاندی کی ترسیل اور نقل و حرکت حملہ اوروں کی زد میں تھی تو مشہور تاجر اس کے عوض ایک وعدہ لکھ کر دے دیتے تھے کہ وہ ادائیگی کریں گے یہ جیاوزی تھا مگر بہت جلد غیر متوقع طور پر جیاوزی بذات خود تبادلے کا طریقہ بن گئے، چینی حکومت نے جیاوزی کو سرکاری تحویل میں لیا اور اس کے لئے قوانین بنائے جلد ہی سرکاری جیاوزی تجارت اور لین دین میں استعمال ہونے لگے ابتداء میں جیاوزی کے عوض حکومت سے سکے لئے جا سکتے تھے مگر کچھ عرصے میں جیاوزی کو فئیٹ سسٹم پر منتقل کر دیا گیا اور پرانے جیاوزی کی جگہ صرف نیا نکور جیاوزی مل سکتا تھا یہ فئیٹ کرنسی کی ابتداء تھی۔

کاغذی کرنسی کو فیئٹ کرنسی بھی کہا جاتا ہے مارکوپولو جب قبلائی خان کے دور میں چین پہنچا تو اس کے لئے سب سے حیرت انگیز چیز شہتوت کی سیاہ شیٹ اور اس پر موجود سرکاری اہلکاروں کے دستخط کے ساتھ سرخ سرکاری مہر تھی، فئیٹ کے لاطینی زبان میں معنی ”ہوجا“ کے ہیں، چینی فرمانروا قبلائی خان نے اعلان کیا تھا کہ شہتوت کی چھال جس پر سرکاری دستخط اور مہر موجود ہوگی کرنسی کا کام کرے گی اور قبلائی خان کے اس اعلان سے یہ ”ہوگیا“ تھا مگر جدید دنیا میں ان بے وقعت کاغذی نوٹوں کو قابل قبول بنانے اور سرمایہ دارانہ نظام کے پیچھے ترقی یافتہ ممالک کی دوسری قوموں کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کی بہت لمبی تاریخ ہے۔

چونکہ لبرل ازم کی بنیاد بظاہر شخصی آزادی، جمہوریت، انصاف و مساوات اور آزادی پر ہے لیکن اس نے شخصی آزادی کی بجائے غلامی، جمہوریت کی بجائے بدترین آمریتوں اور انصاف و مساوات کے بجائے ظلم و جبر، نا انصافی اور عدم مساوات کے چلن کو جنم دیا، اسی سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ازم نے ذاتی ملکیت کے تقدس کو برقرار رکھنے اور سرمائے کے بے رحم ارتکاز کے لیے دنیا بھر پر جنگیں مسلط کیں، عورت کو بطور ”جنس“ استعمال کیا، عالمی اداروں کی اڑ میں ترقی پذیر ممالک کے وسائل لوٹے اور انھیں قرضوں کی دلدل میں جکڑ دیا، آزادی کے نام پر اخلاقیات اور معاشرت کی دھجیاں بکھیر دیں اور جہالت، بے روزگاری، غربت، جسم فروشی عام کی، چونکہ لبرل ازم موجودہ خونی سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ ہے اس لیے لبرل دانشور ناں صرف اس کے موجودہ چلن سے مطمئن ہیں بلکہ اس کی ترویج کے لئے بھی ہمیشہ کوشاں نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments