پختونخواہ کا اگلا الیکشن کون جیتے گا؟


انیس دسمبر کو خیر پختونخواہ کے سترہ اضلاع میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں بونیر واحد ضلع ہے جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اکثریت ملی اور پانچ میں سے چار تحصیلوں میں کامیابی حاصل کر کے ضلع کی سطح پر اکثریتی پارٹی بن کر ابھری جبکہ باقی اضلاع میں عموما جے یو آئی ف کو کامیابی ملی
 یہ الیکشن بظاہر تو پی ٹی آئی کےلئے دھچکا ثابت ہوا لیکن در اصل اے این پی کا سیاسی نقصان پی ٹی آئی سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ وسطی پختونخواہ کے جن اضلاع میں پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی کے سبب جے یو آئی نے ناراض ووٹر کو اپنی طرف کھینچا وہ اضلاع (پشاور مردان چارسدہ صوابی بونیر اور نوشہرہ ) درحقیقت اے این پی کے گڑھ سمجہے جاتے تھے ( دو ھزار اٹھارہ کے فتنہ انگیز انتخابات صرف, نظر کرتے ہوئے)
لیکن نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ اے این پی کے لئے اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال سولہ جنوری کو اس وقت پیدا ہوگی جب باقی ماندہ سترہ اضلاع میں انتخابات ہوں گے کیونکہ ھزارہ اضلاع( ایبٹ آباد مانسہرہ میں کلی طور پر ) جبکہ بٹگرام اور کوہستان میں جزوی طور پر مسلم لیگ کا پلڑا بھاری ہے البتہ ضلع تور غر میں اکثریتی پشتون آبادی اور پشتو زبان کے سبب اے این پی کا موثر ووٹ بینک موجود ہے اور وہ یہاں سےایک یا دو سیٹ لے سکتے ہیں تا ھم اس پورے بیلٹ(ھزارہ ) میں پی ٹی آئی کا اثر و رسوخ بھی ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں ہرگز نہیں کہ مسلم لیگ کو ہرا سکے کیونکہ یہ علاقہ(خصوصا ایبٹ آباد مانسہرہ ) عمومی طور پر نواز شریف اور مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے .
البتہ کوہستان اور بٹ گرام میں کثرت سے دینی مدارس کی موجودگی اور مولانا فضل الرحمن کا گہرا اثر و رسوخ ان دونوں اضلاع میں جے یو آئی ف کو بڑی کامیابی دلا سکتے ہیں.
گویا ھزارہ اضلاع میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی لیڈ لینے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ اے این پی کو صرف ایک ضلع (تور غر ) میں جزوی کامیابی مل سکتی ہے لیکن یاد رہے کہ تور غر ضلع سے ہمیشہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے زرین گل خان اے این پی چھوڑ کر جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اس لئے اس ضلع میں بھی جے یو آئی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ مجموعی حوالے سے پورے ھزارہ میں تحریک انصاف پارٹی ووٹ کی بجائے طاقتور امیدواروں اور صوبائی حکومت کے اثر و رسوخ پر ہی انحصار کرے گی.
شمالی پختونخواہ کے چھ اضلاع (ملاکنڈ ڈویژن ) میں شانگلہ سوات ملاکنڈ لوئر دیر اپر دیر اور چترال کے اضلاع شامل ہیں
یہاں تقریبا تمام جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے لیکن اپر دیر اور چترال میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا اثر و رسوخ دوسری جماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور یہ حلقے ہمیشہ انہی دو پارٹیوں کو انتخابات میں کامیابی دلاتے رہے ہیں جبکہ ملاکنڈ (خاص ) میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک دوسری جماعتوں سے بڑھ کر ہے.
لوئر دیر میں تمام جماعتوں بشمول مسلم لیگ اے این پی پی ٹی آئی اور مولانا کا اثر و رسوخ بھی تقریبا اتنا ہی ہے جتنا پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا گویا پی ٹی آئی اور اے این پی اگر یہاں سے انفرادی حیثیت سے الیکشن لڑیں تو کسی بڑی کامیابی کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی اور ان پارٹیوں کے حوالے سے وھی صورتحال بنے گی جو دوسرے اضلاع میں انیس دسمبر کے انتخابات میں بنی تھی.
سوات اور شانگلہ کے اضلاع میں پی ٹی آئی مسلم لیگ اے این پی اور جے یو آئی کا تقریبا یکساں ووٹ بینک موجود ہے لیکن خراب کارکردگی اور مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کو حسب سابق مشکل صورتحال کا سامنا بھی ہے تا ہم ان دو اضلاع میں پی ٹی آئی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ کے امیر مقام اور با اثر وفاقی وزیر مراد سعید کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی محمود خان کا تعلق بھی سوات سے ہے اور وہ ایک دوسرے کے سیاسی حریف بھی ہیں اس لئے یہاں سخت رن پڑنے کا امکان ہے.
لیکن یاد رہے کہ سوات سے ملحقہ ضلع بونیر وہ واحد ضلع ہے جہاں انتخابات کے پہلے مرحلے یعنی انیس دسمبر کو انتہائی غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا تھا اور تحریک انصاف نے پانچ میں سے چار تحصیلوں پر کامیابی حاصل کی ہے. اس لئے کوئی “سرپرائز ” بھی خارج از امکان نہیں.
 باقی ماندہ چار اضلاع جن میں سولہ جنوری کو انتخابات ہونے ہیں ان میں شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان کرم(پارہ چنار ) اور اورکزئی اضلاع شامل ہیں
یہ چاروں اضلاع صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی جنوب یا جنوب مغرب میں واقع ہیں یہ پہلے فاٹا کا حصہ تھے اور ایجنسیز کہلائے جاتے تھے جنہیں فاٹا انضمام کے بعد ضلعوں کا درجہ دیا گیا.
یہ علاقے خصوصا (شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع ) دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ ضلع کرم(پارہ چنار ) طویل عرصے تک فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں بھی رہا کیونکہ یہاں سنی آبادی کے ساتھ ساتھ اھل تشیع کی بھی کثیر آبادی ہے
کرم میں انیس سو ستر سے پیپلزپارٹی کا موثر ووٹ بینک موجود ہے لیکن یہاں سنی اکثریتی علاقوں میں مذھبی ووٹ بھی کافی موثر ہے جس کا زیادہ تر جھکاؤ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی کی جانب ہے البتہ پیپلزپارٹی کو شیعہ اکثریتی آبادیوں میں زیادہ پذیرائی حاصل ہے.
امکان ہے کہ اس ضلع سے پیپلزپارٹی کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا.
کرم سے ملحقہ ضلع ھنگو میں حال ہی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کو کامیابی بھی مل چکی ہے اور دو میں سے ایک تحصیل جیت گئے ہیں.
اس لئے اس ضلع (کرم ) میں صرف پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ووٹ کے حوالے سے قابل ذکر پوزیشن میں ہیں جبکہ باقی پارٹیوں کا اثر و رسوخ بہت کم ہے.
اگر یہاں اھل تشیع نے انفرادی طور پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تو مقامی سطح پر انتخابی نتائج قدرے تبدیل ہو سکتے ہیں البتہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا ووٹ اس سے متاثر نہیں ہوگا لیکن پیپلز پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے.
ضلع اورکزئی میں جے یو آئی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اثر نہیں یہ ضلع چونکہ دور افتادہ بھی ہے اور قدرے خاموش بھی اس لئے یہاں تجارت اور سیاست کی چہل پہل نہیں
تا ہم مذھبی رجحانات اور مدارس کی موجودگی فطری طور پر یہاں کے لوگوں کو جے یو آئی کے قریب لے گیا ہے.
اس لئے امکان ہے کہ یہاں کا انتخابی نتیجہ زیادہ تر جے یو آئی کے حق میں ہی ہوگا.
شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع صوبے کے انتہائی جنوب میں واقع ہیں .
یہ دونوں اضلاع وھی ہیں جو دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں. ان دونوں اضلاع میں مذھبی اثرات انتہائی گہرے ہیں اور قدم قدم پر مذہبی مدارس بھی موجود ہیں.
گو کہ یہاں ردعمل کے طور پر متنازعہ جماعت پی ٹی ایم کو مبالغہ آمیز پذیرائی حاصل ہے لیکن مذھبی حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا اثر و رسوخ بھی کافی گہرا ہے.
آگر چہ نوجوان طبقے میں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ اے این پی کے لئے بھی پسندیدگی کا عنصر موجود ہے لیکن معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے موثر ووٹ بینک نہیں کہا جاسکتا
اس لئے آخری تجزیہ یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان اضلاع میں پی ٹی ایم اور جے یو آئی ہی سیاسی طاقت کی حامل پارٹیاں ہیں.

سو جنوری میں خیبر پختونخواہ کے باقی ماندہ اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے پی ٹی آئی اور اے این پی کے لئے کسی بڑی خوشخبری کا امکان فی الحال بہت کم ہے کیونکہ جن تین چار اضلاع میں پی ٹی آئی اور اے این پی کا اوسط درجے کا ووٹ بینک موجود ہے اس سے کہیں زیادہ ووٹ بینک تو ان اضلاع میں موجود تھا جہاں ان دونوں پارٹیوں (پی ٹی آئی اور اے این پی ) کو خوفناک شکست کا سامنا کرنا پڑا.

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments