بے نظیر بھٹو کے قاتل کیوں نہ پکڑے جا سکے


 2007ء میں، میں چار ماہ کے لیے امریکہ سے پاکستان آیا، تاہم کسی وجہ سے یہ  قیام چار ماہ سے ہوتا ہوا اٹھارہ ماہ  طویل ہو گیا. جنرل پرویز مشرف ان دنوں پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے. وہ ایک جانب بے نظیر بھٹو سے ڈیل (این آر او)  کے خواہاں تھے. تو دوسری جانب بے نظیر بھٹو بھی اپنے خلاف مقدمات سمیت وزیراعظم بننے کی تیسری ٹرم کے ساتھ نواز شریف کی پاکستان آمد کی خواہش مند تھیں. ان کا خیال تھا کہ ان سمیت دیگر پارٹیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں.
2007ء کے ابھی ابتدائی ماہ تھے. جب پاکستان الیکشن کمیشن نے اپنے پولنگ سٹاف کی تکنیکی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے “یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمننٹ پروگرام” (یو این ڈی  پی) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا.  یو این ڈی پی کی آب یہ ذمے داری ٹھہری کہ وہ پاکستان بھر میں پاکستان الیکشن کمیشن کے پولنگ سٹاف خصوصاً پرزائیڈنگ آفسرز/اسسٹنٹ پرزائیڈنگ آفسرز کو جدید ٹریننگ فراہم کرے.
پاکستان بھر میں لاکھوں کی تعداد میں یہ عملہ زیادہ مرد و خواتین سرکاری اساتذۂ کرام پر مشتمل تھا. اس سارے پروگرام کی اعانت اور فنڈنگ یو این ڈی پی کے ذمے تھی. جس میں جاپان اور انگلینڈ بڑے ڈونر تھے. کئی ملین ڈالر کے اس منصوبے کا نام “سپورٹ ٹو نیشل الیکشینز ان پاکستان” (SNEP) رکھا گیاتھا.
یو این ڈی پی نے مجوزہ ٹریننگ فراہم کرنے والے عملے کی ریکروٹنگ کےلیے اخبارات میں اشتہار دئیے. ضلعی سطح پر ایک ڈسٹرکٹ ٹریننگ کوآرڈینٹر اور ایک ڈپٹی ڈسٹرکٹ کوآرڈینٹر کے علاوہ پانچ سے سات کے قریب رئٹائرڈ ہیڈ ماسٹرز، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق ریٹائرڈ آفسران سمیت این جی اوز کے تجربہ کا ماسٹر ٹرینرز اور بعض سینئر وکلاء بھی پارٹ ٹائم ہائر کیے گئے. جنہیں معقول معاوضہ دیا جاتا تھا.
جبکہ ہر ڈویژن میں  ان سب کے درمیان کوآرڈینیشن کے لیے ایک ڈویژنل ٹریننگ کوآرڈینٹر کی تعیناتی کی گئی. ڈویژنل کوآرڈینٹر کا صدر مقام متعلقہ ڈویژن میں ڈپٹی ڈائریکٹر  پاکستان الیکشن کمشن  آفس جبکہ ڈسٹرکٹ سطح پر ٹریننگ مہیا کرنے کا صدر مقام متعلقہ ضلع کے کمپری ہئنسو(جامع) اسکول تھے. جبکہ فوکل پرسن متعلقہ ضلع کے اسسٹنٹ الیکشن کمشنر کو بنایا گیا تھا.
اس سارے عمل میں میری ذمے داریاں بطور  ڈویژنل کوآرڈینٹر یو این ڈی پی گوجرانوالہ” تھیں. اور اس ڈویژن کے چھ اضلاع، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، گجرات اور منڈی بہاؤ الدین میں ٹریننگ کے اس عمل کو خوش اسلوبی سے منتقی انجام تک پہنچانا میرے فرائض میں شامل تھا.  ہمیں ابتدائی طور پر اس ٹارگٹ کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا گیا. جو بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور انتخابات آگے چلے جانے کے باعث بڑھ کر ایک سال سے اوپر چلا گیا.
اس اسائنمنٹ کے دوران بہت سے  لوگوں سے رابطہ ہوا. کئی ایک اچھے دوست بھی بنے. ان میں سے ایک دلچسپ شخصیت ڈپٹی ڈائریکٹر پاکستان الیکشن کمیشن گوجرانوالہ چوہدری مسرور احمد بجاڑ تھے. اور دوسرے چوہدری غلام مصطفیٰ ججہ، گوجرانوالہ میں ہمارے ڈسٹرکٹ ٹریننگ کوآرڈینٹر  تھے. دونوں انتہائی مہمان نواز اور قدردان شخصیات تھے.
 گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل بجاڑ صاحب بہت کم عرصے میں دوست بن گئے. وہ قبل ازیں ہماری تقرری کے انٹرویو پینل میں بھی شامل تھے. باقی سوالات تو پینل کے دوسرے اراکین نے کیے تھے. تاہم مسرور بجاڑ صاحب کا جنرل نالج کا پوچھا گیا ایک سوال مجھے یاد رہ گیا. کہنے لگے “سیالکوٹ  سے نارووال کتنے فاصلے پر واقع ہے؟ میں نے اندازے سے کہہ دیا کہ پئنتس سے چالیس میل کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے. تاہم بعد میں انہوں نے صحیح فاصلہ بتایا جو میرے اندازے کے قریب ترین ہی تھا. کہنے لگے کہ” آپ میل کہہ کر بچ گئے ہیں”.
بجاڑ صاحب کھانے میں دیسی مرغ اور آموں کے بڑے شوقین تھے. اکثر ان کا کھانا دفتر میں ہی بنتا تھا. ہمیں بھی وہ اصرار کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیتے.  مختلف علاقوں میں اپنی تعیناتی کے دوران  کے قصے سنتاتے رہتے.
مسرور بجاڑ صاحب بعدازاں ڈویژنل الیکشن کمشنر فیصل آباد اور ملتان بھی رہے. اور پنجاب الیکشن کمیشن سے گریڈ 20 میں بطور جائنٹ سیکرٹری رئٹائرڈ ہوئے. آج کل رئٹائیرمننٹ کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت ضلع گجرات میں واقع اپنے گاؤں میں گزارتے ہیں. جبکہ چوہدری غلام مصطفیٰ ججہ بطور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر رئٹائرڈ ہونے کے بعد گوجرانوالہ میں اپنی اکیڈمی چلاتے ہیں.
اس دن بھی میں پہلے سیالکوٹ گیا اور پھر وہاں سے نارووال، جہاں پرزائیڈنگ آفسران کو دی جانے والی ٹریننگ کےسیشنوں میں کچھ وقت گزارا. اور واپس مجھے گوجرانوالہ میں اپنے ڈسٹرکٹ کوآرڈینٹر غلام مصطفیٰ ججہ کے ہاں جانا تھا. جہاں پر ایک مئٹنگ رکھی ہوئی تھی.
یہ جاتے سال 2007ء کے آخری مہینے دسمبر  27 کی ایک سرد اور خنک شام تھی. جب میں نارووال سے گوجرانوالہ کے لیے محوِ سفر تھا کہ اچانک میرے  فون پر بھائی کے نمبر سے  کال آئی. انہوں نے حسبِ معمول مجھ سے لوکیشن پوچھی. اور ساتھ ہی یہ روح افسا خبر سنائی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ  میں ایک بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا ہے. یہ انتہائی افسردہ کر دینے والی ایک اندوہناک خبر تھی. اس وقت یہی محسوس ہوا گویا سب کچھ ختم ہو گیا ہو.
اب باقی تو سب ہسٹری ہے. ہم نے بی بی کے سوگ میں پاکستان جلتا ہوا بھی دیکھا. اور اس گھیراؤ جلاؤ کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے وارداتیے بھی دیکھے.
رات گئے ہم غلام مصطفیٰ ججہ صاحب کے گھر پہنچ گئے. اور سبھی کی طرح ہم نے باقی سارا احوال ٹی وی پر دیکھا. حالات کی نزاکت کی وجہ سے پورے ملک میں جاری ٹریننگ پروگرام  کو عارضی طور پر روک دیا گیا. جو بعدازاں 18 فروری 2008ء کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ شروع ہوا. ہم نے مقررہ وقت میں مطلوبہ اسٹاف کو ٹریننگ مہیا کر دی.
18 فروری 2008ء کو انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی نے زیادہ نشستیں جیت کر  مرکز میں حکومت بنائی. آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے.
پاکستان کی درخواست پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے چلی کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب اور بین الاقوامی سیاست میں پی. ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ہیرالڈو منیوز کو تحقیقات کرنے والے تین رکنی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا.
 ہیرالڈو کی تحقیقات کی سمری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے. بعدازاں انہوں نے ایک کتاب بعنوان” گئٹنگ اوے ود مرڈر: (قاتل بچ نکلا) بے نظیر بھٹو کی موت اور پاکستان کی سیاست” لکھی.
 ہیرالڈو منیوز اپنی کتاب میں ایک جگہ رقمطراز ہیں کہ”بے نظیر بھٹو کا قتل مجھے ایک ہسپانوی ڈرامے” فیونٹے اوجونا” کی یاد دلاتا ہے جس میں” گاؤں فیونٹے اوجونا” کا سردار قتل ہو جاتا ہے. جب مجسٹریٹ اس کے قتل کی تحقیقات کیلئے جاتا ہے تو سارا گاؤں یک زبان ہو کر مجسٹریٹ سے کہتا ہے کہ فیونٹے اوجونا نے، یعنی سارے گاؤں نے یہ قتل کیا ہے.
ہیرالڈو منیوز لکھتے ہیں کہ”بے نظیر بھٹو کے معاملے میں بھی یہی لگتا ہے کہ سارا گاؤں ہی اس کے قتل میں ملوث ہے.  القاعدہ نے حکم دیا، پاکستانی طالبان نے حملے کو انجام دیا. ممکنہ طور پر حمایت یافتہ یا کم از کم اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر کی جانب سے حوصلہ افزائی کی گئی. مشرف حکومت نے اسے مناسب سیکورٹی فراہم نہ کر کے جرم کو آسان بنا دیا.
مقامی سینئر پولیس اہلکاروں نے اُسے چھپانے کی کوشش کی.
بے نظیر بھٹو کی لیڈ سیکورٹی ٹیم ان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی. اور زیادہ تر پاکستانی سیاسی اداکار قتل کی تحقیقات جاری رکھنے کی بجائے اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے قتل کے پیچھے کون تھا؟  شاید کوئی حکومت اس بات کی تہہ اور سچائی تک پہچ سکے. کہ بے نظیر بھٹو کی موت کے منصوبے میں کون کون شامل تھا؟”

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments