کچھ دن قبل سیالکوٹ میں  سری لنکا کا شہری پرینتھا کمار نام و نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کے  ظلم کا نشانہ بنا۔ یہ افسوس ناک حادثہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے ظلم وستم کے مقابلےمیں زیادہ انوکھا نہیں تھا  لیکن حیرت اس بات پہ ہے کہ ان مسلسل ہوتے حاثات کے باوجود ہم نے اپنے بدلتے رویوں اور ان کی وجوہات پہ غور کیوں نہیں کیا۔

  نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔نوجوانوں کے رویے آنے والے دور اور حالات کا تعین کرتے ہیں۔نوجوان پر عزم اور باہمت ہوں تو پستی کی گہرائیوں میں بھی روشن مستقبل کی اُمید کی جاسکتی ہے لیکن اگر نوجوان ہی مایوسی، یاسیت اور بے راہ روی کا شکار ہوں تو پھر قوم اگرچہ ترقی یافتہ ہو تو بھی اس کا مستقبل شبہات کا شکار ہونے لگتا ہے۔

برصغیر کے مسلمانوں کے لیے پاکستان اللہ تعالی کا ایک انعام ہے۔جس کو اللہ رب العزت نے بے شمار وسائل کے ساتھ ساتھ بہترین افرادی قوت سے بھی نوازا ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہےجن کی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ آج کچھ حکمرانوں کی نوازشوں اور کچھ عوام کی بے خبری اور پسماندگی کی بدولت پاکستان اور پاکستان کے نوجوان دونوں پسماندگی کا شکار ہیں۔
اگر ہم بحثیت پاکستانی قوم اپنے رویوں پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آج ہمارے نوجوان بے حد جذباتیت، مایوسی اور یاسیت کا شکار ہیں اور یہ اس قوم کے نوجوان ہیں کہ جب قوم کی کشتی مشکلات کے پہاڑ تلے دبی تھی اور مصائب کے گرداب سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی تو اقبال جیسے دور اندیش نے کہا تھا
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اب وقت ہے اس بات پر غور کرنے کا کہ اس مایوسی، یاسیت اور پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا پاکستان کی کمزور معیشت؟ غربت؟ بےروزگاری؟ حد سے تجاوز کرتی مہنگائی؟ یا غیر محفوظ مستقبل کا خوف؟
پاکستان کے نوجوان بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔جن میں سرفہرست بےروزگاری ہے۔ پڑھے لکھے لیکن بےروزگار نوجوانوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں دہشت گردی اور اسگلنگ کے جرائم میں نوجوانوں کے ملوث ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
اگرمایوسی کی بڑی وجہ غربت ہے تو سوچیں توغربت اُس وقت بھی تھی جب اس ملک کی بنیادوں کو لہو سے سیراب کیا تھا اور پوری دنیا کی مخالفت اور پابندیوں کے باوجود دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن گئے تھے۔اُس وقت تو ہم مایوسی اور یاسیت کاشکار نہیں ہوئے تھے تو آج غربت ہمارے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ کیوں بن گئی۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ پہلے ہم نے غربت کے ساتھ تو سمجھوتہ کیا تھا لیکن اس کو اپنی ناکامی کی وجہ نہیں بننے دیا تھا۔
آج پاکستان میں نوجوانوں کا ایک اور اہم مسئلہ عدم برداشت کی بنا پر خود سوزی اور خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان ہیں۔ جو کہ اسلامی معاشرے کا افسوس ناک پہلو ہے اور اس بات کا عکاس کہ معاشرہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبتا جارہا ہے۔ نوجوان اپنی زندگیوں میں بے ضابطگی کا شکار ہیں وہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ایک کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں نوجوانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں تعلیم اداروں میں اساتذہ کے جانبدارنہ رویے، معاشرے میں پھیلتی جنسی بےراہ روی، اداروں میں سیاستدانوں کا ضرورت سے زیادہ اثر رسوخ وغیرہ اور اسی طرح کے دیگر مسائل شامل ہیں۔
پاکستان کے ذہین جوانوں نے مسائل کا حل یہ نکالا کہ کچھ نے ہتھیار اٹھا لیے اور کچھ نے گٹار اور باقی ہتھیار اور گٹار کے درمیان کشمکش کا شکار ہیں۔ بعض نوجوانوں نے منشیات کا استعمال اور اسمگلنگ کا ذلت و رسوائی سے بھرپور راستہ اختیار کر کے نہ صرف اپنے بلکہ بے شمار گھروں کو آگ لگا کر پیٹ کی آگ بجھانا چاہی اور کچھ نے اپنا ضمیر گروی رکھ کر خودکش بمبار بن کر زندگی کے مسائل سے فرار چاہا ہے۔
کیا ان مسائل کی وجہ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے؟تو یہ دنیا کا قانون ہے کہ جب معاشرے میں سود اور رشوت عام ہوجائے تو امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔جب آپ دوسروں کو اپنا معاشی نظام سونپ دیں گے تو معیشت تو تباہ ہو گی۔آج یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہم جڑوں تک گئے اس نظام سے بغاوت کیسے کریں؟حضور صلی اللہ علیہ الہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا
الراشی والمرتشی کلٙھما فی النار
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔حکومت کو چاہیے کہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم کو بھی فروغ دے۔اس مقصد کے لیے ٹیکنیکل اداروں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ان پڑھے لکھے اور باہنر نوجوانوں کی مدد سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔اپوزیشن اور حکومت سیاسی اختلافات کو ایک طرف کر کے نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جس کی مدد سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ادراک کر کے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔آج نئی نسل کی تربیت کے لیے ایک اور اقبال کی نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو اقبال کے افکار کی حقیقی روح نوجوانوں میں بیدار کر سکیں۔جو ہمیں یہ نہ صرف یہ بتائیں کہ ماضی کے مسلمان کیا تھے اور انہوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے بلکہ یہ بھی سکھاسکیں کہ آج کے نوجوان کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔
پاکستانی قوم کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اپنی پسماندگی کا سارا الزام حکمرانوں کے سر ڈال کر بے بسی کا رونا رونے لگتے ہیں۔ حلانکہ اگر یہی نوجوان چاہیں تو پاکستان کودنیا کی بہترین ویلفیر اسٹیٹ بنا سکتے ہیں۔
اگر یہی نوجوان چاہیں تو ملک میں چھوٹی سطح پر سرمایہ کاری کوفروغ دے سکتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے کوئی ہنر سیکھ کر دولت اور عزت کما سکتے ہیں۔
دہشت گردی، اسمگلنگ، چوری اور قتل و غارت کے گھٹیا اور گھناونے طریقوں کو استعمال کرنے کے بجائے قانونی اور پرامن طریقے سے حکومت سے اپنے جائز مطالبات منوائے جاسکتے ہیں ۔قائد اعظم نے فرمایا:
“پاکستان کو اپنے نوجوانوں پر فخر ہے جو ہمیشہ صفِ اول میں رہے ہیں اور قوم کی امنگوں پر پورے اترے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ تعلیم پر توجہ دیں کیونکہ قوم ان سے نظم و ضبط چاہتی ہے ۔”
نوجوان اگر چاہیں تو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔آن لائن جابز کے ذریعے پاکستانی معیشت کا سہارا بن سکتے ہیں ۔
اگر ہم واقعی پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں کے مسائل کے حل کی طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ان کی بہترین تربیت کر کے ہی ان کی عملی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی اختلافات پسِ پشت ڈال کر نئی نسل کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں سے وہ بہترین رہنمائی حاصل کر سکیں۔
نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اپنے اند مردِ مومن کی صفات پیدا کریں جو مشکل سہی ناممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ تفرقے بازی، مذہبی منافرت، صوبائیت، لسانی اختلافات اور انتہا پسندانہ رویوں سے دور رہ کر ایک مظبوط اور خوشحال پاکستان کی جانب قدم بڑھائیں۔
ایک بات ذہن میں راسخ کر لیں کہ پاکستان کا حصول نوجوانوں کی ہی جدوجہد کا صلہ ہے جو قائد اعظم کے دستِ بازو بنے تھے اور اب اس ملک کو نوجوانوں نے ہی سنوارنا ہے۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس احساس کے ساتھ گزاریں کہ آپ بزرگوں کی امید اور آنے والی نسل کے لیے نمونہ ہیں۔
اب ہم سب کے ذہنوں میں یہی بات ہوگی کہ یہ تمام مسائل ہم اکیلے کیسے حل کرسکتے ہیں؟آج ہم سب کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں لیکن ان مسائل کے گرداب سے نکلنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم سب اپنی ذات میں عبدالستار ایدھی بن کر اپنی مدد آپ کے اصول کو اپنائیں اور پھر یقین رکھیں کہ ہمیں کسی مسیحا کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ اگر ایمان کی قوت اور یقین کی طاقت ہو تو بڑی اور مشکل منزل کا حصول بھی آسان ہو جاتا ہے ۔