میرا لیڈر کیسا ہو


پچھلے دنوں گھر کے کونے کھدروں کی صفائی کراتے ہوئے ایک الماری کھلی تو اس میں سے ہمارے حالیہ وزیراعظم کی تصویر پھٹاک سے باہر آ گری۔ تصویر کے ساتھ ہی ان کا دستخط شدہ بلا بھی کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے گرا کہ پاؤں کچلا گیا۔

ماضی کی اس یاد کے ساتھ ہی، عمرانز ٹائیگر کا بیج، ایک سرٹیفیکیٹ اور ایک شیلڈ بھی برآمد ہوئی اور اس زمانے کے کھلاڑیوں کے پوسٹرز، آٹو گراف بکس اور ایک ڈائری ان فون نمبرز سے بھری نکلی، جو اس زمانے کے فینز جانے کن کن مشکلوں سے حاصل کیا کرتے تھے۔

بچپن کے اس خزانے کو دیکھ کر پہلے تو میں ہنسی اور پھر مجھے رونا آ گیا۔ ہنسی تو اس بات پر کہ ہمارا بچپن کیسا شاندار اور دلچسپ تھا اور رونا اس بات پر آیا کہ اے باری تعالی! ہم اسی بچپن میں کیوں رہ گئے؟

وہ دور یاد آیا تو یہ بھی یاد آیا کہ تب ایک رواج سا چلا تھا کہ اچھے سپورٹس مین اور اداکار ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آ جایا کرتے تھے اور اکثر چند ووٹ لے کر اور اپنی محنت کی کمائی پھونک کر منظر سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔ اس سفر میں وہ اپنی رہی سہی عزت اور عمر بھر کی کمائی ہوئی آبرو بھی گنوا دیا کرتے تھے۔

جب عمران خان صاحب نے سیاست کے کوچے میں قدم رکھا تو ان کی بھی وہی درگت بننا شروع ہوئی جو ان کے پیش روؤں کی بنی تھی۔

کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود، سیاسی خیالات کی ناپختگی اور اس دور کے لوگوں کا ہماری نسل کی نسبت بہتر سیاسی بلوغ یا ان اصحاب کا کسی کی دھن پر مٹکنے سے انکار یا شاید کوئی چوتھی ہی وجہ ہو کہ یہ ستارے سیاست کے آسمان پر طلوع بھی نہ ہو سکے۔

عمران خان صاحب، ایک مناسب رفتار سے سیاسی سفر طے کر رہے تھے جو اگر اسی طرح چلتا رہتا تو آج شاید سینیٹر ہوتے یا بہت ممکن ہے کہ توبہ تائب ہو کر کہیں سکھ کی زندگی گزار رہے ہوتے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

خان صاحب کا ستارہ جانے کس گھر میں جا نکلا کہ ہما ان کے کاندھوں پر آ بیٹھا اور زمانے کی روایات بدل گئیں۔ ہم جیسے جو حلق پھاڑ پھاڑ کے کہتے تھے کہ قحط الرجال کیا اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب ایک ایتھلیٹ ہماری قیادت کرے گا، بولتے رہ گئے اور منڈا بازی لے گیا۔

خان صاحب کے وزیر اعظم بننے اور اس سے پہلے بھی ان کے حمایتیوں میں عام سیاسی ووٹرز، سپورٹرز سے زیادہ جوش اور جذبہ تھا۔ اپنے لیڈر کی حمایت میں ان دیوانوں نے خاندانوں میں لڑائیاں کیں، پرانے احباب سے کنارہ کیا، منگنیاں تڑواییں اور گھریلو زندگی میں زہر بھر لیا۔

یہ حمایت ایک سیاسی لیڈر کی حمایت نہ تھی بلکہ یہ وہ محبت تھی جو فین اپنے من پسند ستارے سے کرتے ہیں۔ اس محبت کا کوئی مول نہیں ہوتا، یہ دیوانگی ہوتی ہے اور اس کی کوئی تاویل نہیں ہوتی۔

ہم نے اس دیوانگی میں بھلی لڑکیوں کو گھر چھوڑتے اور لڑکوں کو ٹٹار دوپہر میں اپنے ہیرو کے انداز میں باؤلنگ کرنے کے چکر میں ٹانگ تڑواتے بھی دیکھا اور ان ستاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پولیس کے ڈنڈے کھاتے اور آٹو گراف لینے کے لیے دھکم پیل میں کچلے جاتے بھی دیکھا۔

یہ دیوانگی اور محبت جن کا نصیب ہوتی ہے وہ خوش نصیب ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈران کا معاملہ ان ستاروں سے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ نہ ان کے ووٹر سپورٹر اتنے دیوانے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی گاتا ہے کہ ’تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے۔‘

سیاست کے کھیل میں تو تخت ہے یا تختہ۔ بازی الٹ گئی تو نہ کوئی حمایتی نہ اپنا نہ مشیر نہ وزیر، کوئی کام نہیں آتا۔ یہاں ایک قدم غلط اٹھا تو کہیں سے کہیں۔

آج عمران خان صاحب سے وابستہ اس دور کی یادوں کو دیکھ کر ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ شاید جو مقام انھیں ملا تھا وہ ان کے موجودہ مقام سے کہیں بلند تھا۔

آج جب ان کے ووٹرز بھی کترائے کترائے نظر آتے ہیں اور ان کے پرانے فینز کھسیائے کھسیائے ان سے وابستہ، گرد آلود یادگاروں کو چھپاتے پھرتے ہیں تو لگتا ہے یہ بازی وہ جیت کر بھی ہار گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments