جیمز ویب خلائی دوربین: نئی دنیاؤں کی کھوج کے سفر کا آغاز


آج 25 دسمبر پاکستانی وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے فرنچ گیانا میں یورپین سپیس ایجنسی کے راکٹ آریانہ پانچ کے ذریعے امریکی ادارے ناسا کی تیار کردہ جیمز ویب خلائی دوربین(James Webb space telescope) کو خلا میں بھیجا جا رہا ہے۔ خلائی سائنس کی دنیا سانس روک کر اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے جب یہ انتہائی پیچیدہ مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اگر سب مراحل کامیابی سے طے ہو گئے تو دس ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت اور تقریباً تیس سال پر محیط تیاری کے عمل سے گزرنے والی یہ دوربین انسانی ہاتھوں سے بننے والی سب سی مہنگی، جدید ترین اور طاقت ور ترین دوربین ہو گی جس کا مشن نظام شمسی سے دور ستاروں اور کہکشاؤں پر ریسرچ کرنا ہوگا، جو ہماری کائنات کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔

اس دوربین کی تیاری کے مراحل انسانی لگن، جستجو اور مشکلات میں ہار نہ ماننے کی داستان ہے جو بذات خود ایک دیومالائی کہانی لگتی ہے اور ایک دن رقم ہوگی۔ اس دوربین سے پہلے بھی بہت مختلف اقسام کی دوربینیں خلا میں بھیجی گئی ہیں جنہوں نے کائنات بارے ہمارے علم میں بہت اضافہ کیا ہے ۔ ان میں اب تک کی طاقتورترین دوربین ھبل (Hubble telescope) ہے جو سنہ 1990 سے زمین کے مدار میں تقریباً 340 میل کی بلندی پر زمین کے گرد گردش کر رہئ ہے اور 95 منٹ میں زمین کے گرد چکر پورا کر کرتی ہے۔ اس کے ذریعے دور دراز ستاروں کا عکس سائنسدانوں کو دستیاب ہو گیا لیکن زمین سے بہت نزدیک ہونے کی بنا پر آسمان کا بہت سا حصہ اس کی دسترس سے باہر تھا۔

سائنس دان بہت عرصے سے کائنات کی شروعات بارے اندازے لگاتے آ رہے ہیں اور اس کو سمجھنے کیلیے ہمیں موجودہ علم کے اصولوں کو سمجھنا ہو گا۔ ہماری سمجھ کے مطابق کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ستاروں اور کہکشاؤں کی پیدا کردہ روشنی بھی مسلسل پھیل رہئ ہے اور اس عمل کے دوران کائنات کےابتدائی ستاروں سے پیدا ہونے والی روشی اب انفرا ریڈ(infrared) شعاعوں میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں نئے قسم کے آلات کی ضرورت ہے۔ اس نئی دوربین کے مرکز میں ساڑھے چھ میٹر کا آئینہ اس قابل ہے کہ وہ کائنات کے بعید ترین اور انتہائی ابتدائی ستاروں کی پیدا کردہ مدہم ترین روشنی(infrared) کو بھی شناخت کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ دوربین زمین سے دور ہو اس لیے اس کی منزل زمین سے تقریباً دس لاکھ میل دور ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمین اور سورج اس کی پشت پر ہوں گے اور کشش ثقل کی قوتیں (gravitational forces) اس کے مشاہدے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔ منزل تک پہنچنے کے تقریباً ایک ماہ کے سفر کے دوران مرکزی آئینہ، جو کہ راکٹ کے سفر میں لپٹا ہوا ہو گا، آہستہ آہستہ کھل جاے گا اور اس کو سورج کی روشنی اور حرارت سے بچانے کے لیے ایک چھتری بھی کھل جاے گی جس کا سائز ٹینس کورٹ کے برابر ہے۔ اس تھوڑی سی تفصیل سے ہی آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ سائنسدان اس پورے سفر بارے فکرمند کیوں ہیں۔

یہ خلائی دوربین صرف دور دراز ستاروں اور کہکشاؤں کا مطالعہ ہی نہیں کرے گی بلکہ ان ستاروں کے گرد موجود سیاروں (زمین کی طرح کے) کی گردش، ان کی فضاوں میں جذب ہوتی انفراریڈ(infrared) شعاعوں کی پیمائش بھی کریگی جو کہ ہمیں ان سیاروں پر کیمیائی عوامل اور زندگی کی ممکنہ موجودگی بارے اندازہ لگانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس کی مدد سے انسان کائنات کے ماضی بعید میں اس کی ابتدائی تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں اور ستاروں اور کہکشاؤں کے بننے کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور یہ سب کچھ ہم سے متعلق ہے کہ ہم انسان کیسے وجود میں آئے اور کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما سفر ہے جس پر ہوش سنبھالنے سے لیکر آج تک انسان گامزن ہے اور ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کر رہا ہے۔

ابھی تو جیمز ویب خلائی دوربین کے سفر کا آغاز ہوا چاہتا ہے او اگر سب کچھ ٹھیک ٹھیک رہا تو اگلے پانچ چھ ماہ تو سائنسدان اس پیچیدہ مشین کے کل پرزوں کی چیکنگ اور آزمائش میں گزاریں گے اور امید ہے کہ اگلے سال موسم گرما سے اس کے مشاہدات اور ڈیٹا مہیا ہونا شروع ہو جاے گا۔ کرونا وبا کے دوران اس خلائی مشن کی روانگی ایک امید افزا خبر ہے اور ہم اس کو نیک تمناؤں سے نئی دنیاؤں کی تلاش کے اس سفر پر روانہ کرتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments