کیا سیکولر ازم سے مراد لادینیت ہے؟


وہ لفظ جو سنتے ہی ہمارے ہاں لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے اور پریشان ہو جاتے ہیں وہ ہے  “سیکولرازم”، اگر آ پ بھی اس کے اصل معنوں سے واقف نہیں، تو آپ بھی اسے لادینیت ( یعنی ایتھیزم جو ایک الگ فلسفہ اور اصطلاح ہے) ہی سمجھتے ہونگے اور سیکولر آدمی کو گنہگار ملحد۔ دراصل اس میں ہمارے عوام کا بھی کوئی قصور نہیں، کیونکہ اکثر لغات میں بھی اس کا اردو ترجمہ لادینیت ہی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ درحقیقت اس کا الحاد سے کوئی تعلق بھی نہیں۔
سیکولر ازم سے مراد ہے کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ریاست اور مذہب دو الگ چیز یں ہیں، ریاست کی طرف سے کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنےگا جس سے کسی بھی مذہب کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو، یا پھر ان کا حقوق کا استحصال ہو بلکہ ریاست پر سب کا برابر حق ہو گا۔ سب پر یکساں قانون لاگو ہوگا۔ اس سے تمام شہریوں کو برابر کا درجہ حاصل ہوگا اور مذہب کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔  اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت اس کے کسی بھی شہری کو اس شہری کے مذہب کی پیروی کرنے سے نہیں روک سکتی۔  ہر شہری اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر زندگی گزارنے کا حق دار ہے۔
سیکولر ازم کی ابتدا یورپ سے ہوئی جہاں چودھویں صدی تک رومن کیتھولک چرچ کی بالادستی تھی اور بے جا اختیارات حاصل تھے۔ جس کے نتیجے میں سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر  نے اس کے خلاف احتجاج کی نمائندگی کی، جہاں سے “پروٹسٹنٹ فرقے” کی ابتدا ہوئی، اور 1522 سے 1700 تک کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی یہ مذہبی جنگ جاری رہی جس میں 8 ملین اموات ہوئیں۔ بالآخر ان جنگوں کا اختتام 1648 کے ویسٹ فیلیا کے معاہدے کے بعد ہوا، جس کے مطابق پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ایک دوسرے کی ریاستوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی ہوگی۔ اسی کے بعد ہی “روشن خیالی کا عہد” اور  امن اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ یورپ کی ترقی کے دور کا آغاز یہیں سے ہوا۔
اب اس کے تاریخی پسِ منظر اور عام تصور سے ہمیں تو یہ غیر اسلامی سا لگتا ہے مگر بر صغیر کی دو بڑی جماعتیں جماعت اسلامی (ہند) اور جمعیت علمائے ہند اس کی حامی ہیں۔
جمعیت علمائے ہند اپنے قوم پرست فلسفے کی ایک مذہبی بنیاد پیش کرتی ہے، جو یہ ہے کہ “ہندوستان میں مسلمانوں اور غیر مسلموں نے ایک سیکولر ریاست کے قیام کے لیے، آزادی کے بعد سے، ایک باہمی (عمرانی) معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ہندوستان کا آئین اس معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے اردو میں “معاہدہ” کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق، جس طرح مسلم کمیونٹی کے منتخب نمائندے اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کی حمایت کریں۔ یہ معاہدہ اسی طرح کے ایک سابقہ معاہدے کی طرح ہے جو مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا۔”
جبکہ جماعت اسلامی ہند سیکولر امیدواروں کو ووٹ دینے کی حامی رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک لیڈر (علامہ سید جلال الدین عمری) کے ایک بیان کے مطابق جماعت جمہوریت، سیکولر ازم اور ہندوستان کے آئین کے اصولوں کی حامی رہے گی۔ بلکہ جماعت اسلامی نے تو چار ہاتھ آگے جا کر 2011 کے عام انتخابات میں اپنی طرف سے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کو میدان میں بھی اتارا جو کہ ان کا سیکولر چہرے کی نمائندگی کررہی تھی۔
یہ نظام مختلف ممالک میں مختلف ماڈل میں رائج ہے جن میں اٹلی،  سویڈن، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ امریکہ، روس، میکسیکو، شمالی کوریا اور ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں مسلم بھی مساوی حقوق کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں،اور یہ تمام ممالک ہی ترقی یافتہ ہیں۔
ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ایک شہری کے حقوق کا خیال رکھے، کیونکہ جب ایک آدمی کے حقوق کو خطرہ لاحق ہو تو ہر آدمی کے حقوق سلب ہو جاتے ہیں۔ بقول نیلس منڈیلا کے:
 “لوگوں کو ان کے انسانی حقوق سے محروم کرنا ان کی انسانیت کو چیلنج کرنا ہے۔”

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments