مٹی پیر پکڑتی ہے


زہ چہ خہ ڈیرہ روٹے ووخرم نو بیا تا سرہ بہ گورم ، ” میں جب بہت ساری روٹی کھا لوں گا ، تب تم سے سمجھوں گا یا یوں کہہ لیں تب تمھیں پھینٹوں گا ” ۔ یہ ہمارا ہم جماعت تھا ، اپنے ساتھیوں بھائیوں کزنوں کو دھمکیاں دیا کرتا تھا جب ان سے پٹ جاتا  تھا ۔ چھوٹا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ ان سے اس لیے پٹ جاتا ہے کہ کھاتا کم ہے ۔ اس لیے کمزور رہ گیا ہے ۔ اس وجہ سے سب سے  پٹ جاتا ہے ۔

روٹی ، طاقت ، پٹائی ، لڑائی اور جیت کا کوئی تعلق ہے ۔ یہ جان تو لیا تھا ۔ سمجھ نہیں سکا تھا ۔ پنڈ جاتے تو کنک کتنی ہوئی اتنی ہوئی ۔ گھر دانے آ گئے ، اس کی کم ہوئی ہماری زیادہ ہے ۔ پھر کہیں اپنے بزرگوں سے سنا کہ ہمیں کبھی کسی سے دانے لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ہم سے دانے لے کر جانے والے کئی ہیں ۔

گرمی کی چھٹیوں میں پشاور سے پنڈ جاتے ۔ گھر ابھی پہنچے نہیں ہوتے تو ڈیرے پر بھجوا دیے جاتے ۔ وہاں دادا کے بھائی انچارج تھے ۔ وہ آ بھئی پشوری ، اپنے پوتے کے ساتھ گھول کرا دیتے ۔ ان کا وہ پوتا بول نہیں سکتا تھا ۔ بڑا بھی تھا ، اچھی طرح چھیل مدول کر رکھ دیتا ۔ گوڈے چھل جاتے ۔ اس کے چھوٹے بھائی سے جیت جاتا ۔ زیادہ تر ہارتا ، اک سے زیادہ کزنوں کے ساتھ کشتی کرنی پڑتی ۔ دادا جب یہ زور آزمائی دیکھتے تھک جاتے تو میچ ختم کرا دیتے ۔

پھر وہ بتاتے کنک کا فرق ہے ۔ پنڈ والے منڈےاس سے تگڑے ہیں ۔ یہ ہٹتا نہیں ہارے یا جیتے آخر تک لڑتا رہتا ہے ۔ اس آخر تک لڑتے رہنے سے یاد آتا کہ مشر کیسے جوش دلاتا رہتا تھا کہ لڑنا ضروری ہوتا ، ہارتا تو کبھی ایک کبھی دوسرا ہے ۔ پھر کھڑپینچ کا بہت ساری روٹی کھانا یاد آ گیا ۔ زیادہ کھاؤ گے تگڑے ہو گے ، پٹو گے نہیں اور جیتو گے ۔ روٹی جیت طاقت لڑائی کہیں نہ کہیں جا ملتی ہیں اک مک ہو جاتی ہیں ، یہ بھی کہیں ذہن میں رہ گیا ۔

خیبر اور لواڑگی ( لواڑگی یہ لنڈی کوتل ہے آپ کا ہمارا لواڑگی ہی ہے ) گھومتے پھرتے یہ جانا کہ جس کا دستر خوان وسیع ہے وہ اہم ہے ۔ روٹی کنک طاقت کا کھیل شکل بدل کر سامنے آیا تھا اور جاری تھا ۔

نانا کے ساتھ سندھ گیا ۔ انہیں ان کے کزنوں بھتیجوں کو سندھی بولتے دیکھا ۔ سوچا کہ یہ بولتے ہیں اور مجھے نہیں آتی ۔ نانا سے لو ہیٹ کا اک تعلق تھا ۔ وہ جیسے گھما کر بات کرتے تھے ، جتنا اوپر سے آتے تھے ۔ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ دل کرتا تھا کہ دوڑ کر ان کے پیٹ میں اک ٹکر ماروں ۔ خود نہیں مار سکتا تو وہ بیل ہی مارے جو سب کو مارتا ہے اور ان کو کچھ نہیں کہتا ۔

نانا نے کہا میں نہیں تم بھی جب سندھ آتے ہو تو سندھی ہوتے ہو ۔ پنجابی پنجاب میں ہوتے ہو ۔ اور ساتھ ہی کہا کہ میں تو جب پشاور جاتا ہوں تو پشتو بولتا ہوں ۔ نانا سے کہا لیکن آپ کو تو پشتو نہیں آتی ۔ بولے تم تو بولتے ہو تو تم بھی تو میں ہی ہوں چھوٹے سائز کا اور بہت پلو (احمق ) سا ۔ پھر کہا یہ سب روٹی کا کھیل ہے ۔ جدھر جاتے ہو جیسے کہہ کر جیسی باتیں کر کے  روٹی ملتی ہے ، بندہ وہ بولنے لگ جاتا ہے ۔  تب نہیں سمجھ آئی تھی ،اور اب بھی کون سا آ گئی ہے  ۔

ہمارا اک ہم جماعت گندم کا ایک بڑا ڈیلر تھا ۔ اک رولے میں اس کے ساتھ پھنسے بیٹھے تھے ۔ رولا امریکی اور پنجاب کی گندم کا تھا ۔ دونوں کے ریٹ میں فرق تھا ۔ پنجاب کی مہنگی تھی امریکہ کی سستی تھی ۔ ہمارا یار ظاہر ہے پنجاب کی کہہ کر امریکہ والی بیچ رہا تھا ۔ اب رولا گولی والا ہو چکا تھا ۔ دوسری سائڈ سے ڈان بھی کہانی میں اینٹر ہو چکے تھے ۔ لڑائی تیار تھی ۔

مشر بالکل آخر میں بولا اور اس نے ڈان سے کہا ۔ تم پرائے پیسے کے لیے لڑ سکتے ہو تو ہم اپنے کے لیے بھی لڑ لیں گے ۔ مرضی ہے تمھاری ۔ ڈان بولا لیکن یہ یعنی ہمارا دوست تمھارا اپنا نہیں ہے ۔ مشر بولا ہم سب اک دوسرے کے اپنے ہیں ۔ ہمارے یار نے کوئی سیدھا کام تو نہیں کیا لیکن کام تو ایسے ہی نہیں کرتے ہم سب اور تم یعنی ڈان بھی ؟ ۔ اس سے بھی  اب ہو گیا ہے تو کیا کریں ؟ ، اسے چھوڑ دیں ؟ ، ڈان نے کہا پریدہ یعنی چھوڑو سب روٹی کے رولے ہیں ۔ روٹی میں سب شریک ہی ہوتے ہیں ۔زہ مزے کوہ سرہ دہ مرگرو ۔ جاؤ اور دوستوں کے ساتھ مزے کرو خوش رہو ۔

وہاں سے نکلے تو مشر نے کہا جو روٹی کے لیے لڑنے کو تیار ہو وہ تمھارا شریک ہوتا ۔ پھر تو جو مٹی پر لڑنے کو تیار ہو وہ بھی شریک ہی ہوتا ہے کیا ؟ ۔ مشر نے کہا یہی تو لانجے ( رولے ہیں ) ۔

پشاور رہتے ہم اکثر رشتہ داروں کی میزبانی کرتے ۔ وہ کابل کے راستے یورپ جانے کو آئے ہوتے تھے ۔ ایسے ہی ایک کزن کے ساتھ اس کی امی بھی آئی تھی ۔ بیٹے کو رخصت کرتے روتی تھی ۔ بتاتی تھی کہ سب روٹی کے رولے ہیں ۔ جو اسے لے جا رہے ہیں ۔ ہماری کون سی زمین تھی کہ اس کے پیر پکڑ لیتی ۔

ہم باغ جاتے تھے تو چپل ہاتھ میں پکڑ لیتے پیروں سے دھول اڑاتے جانا ۔ کھیت میں ہل چلتا تو نرم زمین پر ننگے پیر پھرنا ۔  پرندوں نے آ آ کر کھیت سے اپنا رزق چننا ۔ ان سا مسوس کرنا ان کے پیچھے بھاگتے پھرنا ۔ پیروں کر مٹی لگوا کر ماؤں کے ہاتھ چڑھ جانا ۔ پیروں کو مٹی لگے تو جوتا پہننا بہت برا لگتا ، جب تک پیر دھو نہ لیے جائیں ۔ پیر دھوتے کدھر تھے ماں یا تائی جوتے لگا کر ہی دھلواتی تھیں ۔ ٹھیک سے ان سے بھی نہ دھوئے گئے  ۔ جب باہر کہیں جانے کا سوچتے ہیں مٹی پیر پکڑ لیتی ہے ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments