ایک تھی گیس


بہت عرصہ پہلے دیہات میں رہنے والے ہمارے ایک عزیز نے شہر میں رہنے والے اپنے عزیز و اقارب کو گیس کے استعمال کی ”عیاشی“ کرتے دیکھا تو اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انسان شہر میں ایک مکان صرف پکوائی کے لیے رکھے۔ رہائش دیہات میں ہی رکھے، بس صبح و شام کھانا پکانے شہر آئے اور پھر واپس چلا جائے۔ عملی طور پر ظاہر ہے یہ ممکن نہیں تھا، بس گیس کی سہولت کی طرف ایک اشارہ تھا۔ مگر اب یہ ایک قصۂ ماضی ہے۔ اب تو حالت ہے کہ بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے گیس کے چولہوں کی تصاویر بنا کے رکھ لینی چاہئیں تا کہ ان کو بتایا سکے کہ آپ کے آبا و اجداد کبھی گیس بھی استعمال کیا کرتے تھے۔

ہم بنیادی طور پر دیہات سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور معاشرتی علوم کی کتب سے سوئی گیس کے وافر ذخائر کی کہانیاں پڑھتے بڑے ہوئے ہیں۔ کبھی شہروں میں رشتہ داروں کے ہاں جاتے تو گیس کی سہولت کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے۔ معاشرتی علوم سے یاد آیا کہ کل ایک دوست نے فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ اگر آپ کو گیس نہیں مل رہی تو تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی معاشرتی علوم کی کتب میں سے لے لیں، وہاں ابھی بھی اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔

اس کے بعد تعلیمی اور پھر ملازمتی ضرورتوں نے ہمیں بھی دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور کیا تو ہم نے بھی گیس کی ”عیاشی“ سے لطف اٹھایا۔ گورنمنٹ کالج خانیوال میں تعلیم کے دوران ہوسٹل میں قیام کیا تو ہوسٹل گیزرز کا اتنا یاد نہیں، لیکن بعد میں 1990 میں زکریا یونیورسٹی ملتان کے ہوسٹل عمر ہال کا اچھی طرح یاد ہے جب گرم پانی کے شاورز کے نیچے سے ہٹنے کو دل ہی نہیں کرتا تھا۔ گھروں، ہوٹلز اور ہر جگہ استعمال کے لیے وافر گیس موجود تھی اور وہ بھی چوبیس گھنٹے۔

رات کو یا دن کے اوقات میں فنی خرابی کے علاوہ گیس کی بندش کا تصور بھی نہیں تھا۔ آبادی بڑھ رہی تھی، نئی نئی رہائشی آبادیاں ”اگ“ رہی تھیں، لیکن اس کے باوجود گیس کی کمی کا مجھے تو کچھ یاد نہیں کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی ہو۔ ہاں البتہ اخبارات میں شائع ہونے والے کچھ مضامین اور کالمز میں کبھی کبھی مستقبل میں گیس کی کمی کا ذکر ضرور سن لیتے تھے۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی تھی کہ زیر زمین گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ مگر جب چولہوں میں گیس کے شعلے جوان تھے، تو ان کے بڑھاپے کو ابھی سے یاد کر کے کون فکر مند ہوتا۔ ان دنوں مبینہ طور پر یہ بھی مشہور تھا کہ لوگ ایک بار چولہا جلا کر پھر بند نہیں کرتے کہ بار بار ماچس کی تیلی کون ضائع کرے، بس آنچ کم کر دیتے تھے۔

جہاں تک ہمیں یاد ہے گیس کی کمی بحران میں اس وقت تبدیل ہوئی جب ماحولیاتی آلودگی کے نام پر گاڑیوں کو پٹرول سے سی این جی پر منتقل کرنے کا کام شروع ہوا۔ گیس چونکہ سستی تھی، اس لیے لوگوں نے ماحولیاتی آلودگی سے ہٹ کر صرف بچت کی خاطر دھڑا دھڑ گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کروایا۔ کمپنیوں نے لوگوں کا رجحان دیکھ کر گاڑیوں میں گیس سلنڈرز کی تنصیب شروع کر دی۔ سی این جی اسٹیشنز پر بہار آ گئی اور پٹرول پمپس پر خزاں اترنے لگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھریلو، صنعتی اور ٹرانسپورٹ تینوں شعبے گیس کی کمی کا شکار ہو گئے۔ ادھر گھر کی خواتین برتن کھڑکاتی باہر نکل آئیں کہ ہمیں گیس دو، ادھر سی این جی اسٹیشنز پر گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں اور صنعتی شعبے کا واویلا الگ کہ معیشت کا پہیا چلانے کے لیے گیس کی ضرورت ہے ہمیں گیس فراہم کی جائے۔

رہی سہی کسر دیہاتی علاقوں میں گیس کی فراہمی سے پوری ہو گئی۔ اب ہوا یوں کہ اکثر دیہات مختلف شہروں کو گیس مہیا کرنے والی بڑی پائپ لائنوں کے قریب واقع ہیں۔ گیس کی مقدار نہیں بڑھی، وہی گیس جو پہلے موجود تھی اور ان پائپ لائنوں میں سے گزر رہی تھی، وہیں سے ان دیہات کو مہیا کر دی گئی۔ بڑی لائنوں کے نزدیک ہونے کی وجہ سے گیس کی ترسیل کا رخ شہروں کی نسبت ان دیہات کی طرف زیادہ ہو گیا۔ دوسرے علاقوں کا تو معلوم نہیں لیکن ہمارے چھوٹے سے شہر جہانیاں منڈی ضلع خانیوال کے وہ گاؤں جو ملتان وہاڑی روڈ کے ساتھ ساتھ واقع ہیں، وہاں آج کل گیس وافر مقدار میں موجود ہے۔ چولہوں کے علاوہ ہیٹرز اور گیزرز تک چل رہے ہیں۔ اس کے برعکس شہر میں گیس صرف تبرک کے طور پر مل رہی ہے۔ یہاں بھی صورت حال کچھ یوں ہے کہ مین پائپ لائن کے قریب والے مقررہ اوقات میں گیس کی سہولت سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ”ٹیل“ والے یعنی آخری سرے والے یہاں بھی خسارے میں ہیں کہ ان کے پاس بچی کھچی گیس ہی پہنچتی ہے۔ رہی سہی کسر ”سکر مشینوں“ اور ”کمپریسرز“ نے پوری کر دی ہے۔ مبینہ طور پر بڑے بڑے باریش نمازی اور حاجی بھی کہتے سنے گئے کہ الحمد للہ 2700 روپے خرچ کیا ہے اور صبح و شام گیس کے مزے لے رہے ہیں۔

ہم بنیادی طور پر دیہات سے ہی تعلق رکھتے ہیں، اور دیہات کو گیس کی فراہمی کا بالکل مخالف نہیں ہوں۔ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں، ان کا بھی گیس کی ”عیاشی“ سے لطف اندوز ہونے کا پورا پورا حق ہے۔ لیکن صرف اتنی گزارش ہے کہ دیہات میں تو ایندھن کے متبادل ذرائع یعنی لکڑی وغیرہ بھی آسانی سے استعمال ہو سکتی ہے لیکن شہروں میں یہ کام تھوڑا مشکل ہے۔ اگر اندھا دھند گیس کنکشنز کی بجائے اس حوالے سے تھوڑی سی منصوبہ بندی کر لی جاتی تو یہ صورت حال شاید پیدا نہ ہوتی۔ دیہات میں پائپ لائنوں کے ذریعے گیس کی فراہمی کی بجائے اگر سبسڈی کے تحت سلنڈرز میں ایل پی جی کی فراہمی کا بندوبست کیا جاتا تو شاید اس بحران میں کمی رہتی۔

آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئی آبادیوں میں بھی گیس کی فراہمی کے منصوبے جاری ہیں۔ ظاہر ہے اس سے اس بحران میں اور بھی شدت آئے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ہمارے خیال میں اگر ایل پی جی اتنی سستی ہو جائے کہ سب لوگ آسانی سے استعمال کر سکیں تو اس بحران کو حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ سکر مشینوں اور کمپریسرز کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہو۔

ہماری تجویز ہے کہ بھاری جرمانہ، قید اور جرم ثابت ہونے پر آئندہ کے لیے اس گھر پر گیس کے میٹر کی تنصیب کی پابندی شامل ہونی چاہیے۔ نئے کنکشنز کے اجرا کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔ جن علاقوں میں گیس مل رہی ہے وہاں کے مکین اگر ”عیاشی“ کی بجائے صرف ضروری استعمال پر اکتفا کریں تو شاید پائپ لائن کے آخری سرے پر موجود لوگ بھی تھوڑی بہت گیس استعمال کر سکیں۔ کالم ختم کر رہا کہ ایل پی جی کا سلنڈر بھروائی کے لیے کب سے تیار ہو کر بیٹھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments