آباد شہر کے ویران ہوتے لوگ


ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ رات اتنی تاریک اور گہری سیاہ کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ سردی ایسی کہ ہڈیوں کو بھی کپکپا دینے والی۔ اوپر

سے یخ تیز ہوا چل رہی تھی گویا راہ چلتے ہوئے انسان کو راستے میں ہی جما دے گی۔ ایسے میں شعلہ اگلتی دو سرخ آنکھیں کسی نامعلوم ہدف کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

” بڈھا سائیں، آپ کہتے ہو کہ قلعہ دراوڑ کے اندر اور نوابوں کے شاہی قبرستان میں جنات کا بسیرا ہے۔ آپ نے کبھی دیکھا ان کو ؟“ ، نواز چنڑ نے پوچھا۔

بڈھا بلوچ جو عمر کی اسی بہاریں دیکھ چکا تھا، مسکرا کر نواز کو دیکھا اور پھر آگ میں تھوڑا سا بالن اور ڈال دیا تاکہ خود کو اور الاؤ کے اردگرد بیٹھے دیگر چولستانیوں کو سردی کی شدت سے محفوظ کر سکے۔

”شالہ جوانیاں مان ہوں تیری، میں کیا، ہمارے بڑے بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ جب سے نوابوں نے اس قلعے سے کوچ کیا اور ڈیرہ نواب اور بہاولپور شہر میں جا کے ڈیرے لگائے، یہاں پھر جنات کے قبیلوں نے اپنا شہر آباد کر لیا۔“

”سائیں، میں یہ پوچھ رہا تھا، آپ تو قلعہ دراوڑ کے اندر درختوں اور جھاڑیوں سے اپنی بکریوں کے لیے خوراک لینے جاتے ہو، کبھی وہاں جنوں کو چلتے پھرتے دیکھا؟ کیسے ہوتے ہیں وہ، ہم انسانوں کی طرح یا بہت خوفناک شکلوں والے؟“

”پتر، ہوا کی بھی کوئی شکل ہوتی ہے بھلا؟ ہاں، خدا نے انھیں یہ طاقت دی ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں آ جاتے ہیں۔“ ، بڈھا بلوچ گویا ہوا۔

”میرا دادا بتاتا تھا کہ ایک چولستانی بدر شیر والے مزار پہ لگنے والے میلے میں گیا۔ رات کا وقت تھا۔ اس نے اپنا اونٹ قبرستان کے ایک درخت کے پاس بٹھایا اور مزار کے اندر جا کے اپنے لیے اور صاحب مزار کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کی۔“

پتر، جب وہ واپس آیا تو اس نے درخت کے پاس ایک ہی شکل کے دو اونٹ بیٹھے دیکھے۔ وہ پریشان ہو گیا کہ میرے والا اونٹ کون سا ہے؟ ”

”ارے بڈھا سائیں، دوسرا اونٹ کہاں سے آ گیا؟“

”ارے کملا، دوسرا اونٹ تو جن تھا۔ چولستانی سمجھ گیا کہ موت کا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ پر ، سائیں، بندہ وہ بھی سیانا تھا۔ اس نے دونوں اونٹوں کے منہ سونگھے اور جس سے اسے گھاس کی بو آئی، وہ اسی پہ سوار ہو گیا۔ پیچھے سے آواز آئی،“ اگر آج تو مجھے لے جاتا تو تیرا کام تمام ہو جانا تھا۔ ”

”بڈھا سائیں، میری اماں تو کہتی ہے شاہی قبرستان میں ڈائن رہتی ہے جو انسانوں کا شکار کر کے ان کا خون پیتی ہے؟“ ، پاس بیٹھے رکھو خاں نے کہا۔

”رکھو پتر، شکار تو انسان بھی انسانوں کا کرتے ہیں۔ بس شکار ہونے والا انسان غم سے اندر ہی اندر گھل گھل کر مر جاتا ہے۔“

”ایک بار بہاولپور شہر سے“ پڑھاکو ”لڑکے لڑکیوں سے بھری ایک بس آئی تھی۔ قلعہ دیکھنے آئے تھے۔ بس کا انجن خراب ہو گیا اور رات پڑ گئی۔ ان پڑھاکو لوگوں کے ساتھ آئے ان کے استادوں کے کہنے پہ ہم نے چارپائیاں اور بستر لگا دیے اور سب کو گرم دودھ کے ساتھ پانی والی تندوری روٹی دی۔“ بڈھا بلوچ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔

”کوئی آدھی رات کا وقت تھا۔ چاند پورے جوبن پہ تھا کہ لڑکوں اور لڑکیوں نے نیند میں ہی شاہی قبرستان کی قبروں کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ بابا، ان کے استاد پریشان ہو گئے۔ ایک کو پکڑ کے چارپائی پہ بٹھاتے، دوسرا چل پڑتا۔ ہم لوگوں کو آواز دی۔ آیت الکرسی پڑھی گئی۔ ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔“

اچانک، بھیڑیے کی آواز فضا میں گونجی اور پھر ایک بھیڑ کے زور زور سے منمنا نے کی آواز آئی۔
سب آواز کی طرف دوڑے لیکن اندھیرے میں پتہ نہ چلا کہ بھیڑیا اپنے شکار کو کس طرف گھسیٹ کے لے گیا ہے۔

سارے بہاولپور شہر نے خوف کی دبیز چادر اوڑھ لی تھی۔ سر شام ہی شاہی بازار میں دکانوں کے شٹر گرنا شروع ہو گئے اور سب تیز تیز قدموں سے اپنے گھروں کی جانب جا رہے تھے۔ مبادا تھوڑا آہستہ چلے تو گھر پہنچنے سے پہلے ”خونی بلا“ نہ آن دبوچے۔ ہر چہرے پہ خوف کی پرچھائیاں تھیں۔ ماؤں کے سامنے ان کے بچے موجود تھے پھر بھی بار بار انھیں دیکھتیں اور گنتی کرتیں، کہیں، کوئی بچہ باہر تو نہیں رہ گیا۔ شہر میں انسانی خون پینے والی بلا آ چکی تھی۔ جامع مسجد الصادق میں مغرب اور عشاء کی نمازوں میں نمازیوں کی تعداد کم ہو گئی تھی جیسے خونی بلا آئی ہی لوگوں کو مسجد جانے سے روکنے کے لیے ہو۔

تھانہ کوتوالی میں پولیس والے سر جوڑ کے بیٹھے ہوئے تھے۔ شہر کے کئی علاقوں میں خونی بلا نے انسانوں کی کھوپڑیاں توڑ دی تھیں۔ لاشوں پہ لاشیں اٹھائی گئیں لیکن خونی بلا کا پتہ نہیں چل رہا تھا کہاں غائب ہو جاتی ہے۔

”شیخو، تم گھر سے باہر نہیں نکلنا۔ تیرا ماموں بتا رہا تھا، خونی بلا کو سمہ سٹہ میں بھی دیکھا گیا ہے۔ فتووالی میں تو کل رات کو اس نے سڑک کنارے دکان کے باہر سوئے دکاندار کو مار ڈالا۔ دکاندار کا بھیجا کھوپڑی سے باہر نکلا ہوا تھا جو ظاہر ہے خونی بلا نے کھایا ہو گا اور خون چارپائی سے نیچے گرا ہوا تھا“ ، نانی اماں نے شیخو کو تاکید کی اور نگرانی جاری رکھی کہیں شیخو آنکھ بچا کے گھر سے باہر تو نہیں نکلتا۔ اگلے دن شیخو، سکول گیا تو صحن میں کرسیوں پہ بیٹھے ماسٹر صاحبان ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ ماسٹر ندیم کہہ رہا تھا، ”جناب، بہت بڑی انقلابی اور مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ بنک والی گلی کے چکلے بند کر کے“ کنجروں ”کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے اور چائے اور کھانے کے ہوٹلوں میں سیاسی گفتگو کرنے پہ پابند لگا دی گئی ہے۔“

”قحبہ خانوں کے چلانے والے جب شریف لوگوں کے علاقوں میں رہائش رکھیں گے تو کیا وہاں غریب عورتوں کو اپنے دھندے میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ پھر یہ کیا کہ فرد کے بولنے پہ ہی پابندی لگا دی جائے۔ میں نے تو سنا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں تحریک چلانے کی“ دھمکی ”دے رہی ہیں، کہتی ہیں، اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنا اور اختلاف رائے انسان کا بنیادی حق ہے“ ، ماسٹر فراز نے اپنا نقطہ ء نظر پیش کیا، ساتھ ہی اس نے ایک غیر معروف شاعر کا شعر پڑھا۔

خون آلودہ لاشیں دیکھنے سے فرصت ملے تو تیری زلف کو دیکھے اکبر میاں
افلاس زدہ چہرے دیکھ کے تیرے حسیں لب و رخسار بھول بیٹھا ہے

ہیڈ ماسٹر صاحب بولے، ”جب سے خونی بلا آئی ہے، سیاسی جماعتوں کے احتجاج میں کون جائے گا۔ عوام تو اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے خوف و دہشت سے تھر تھر کانپے جا رہے ہیں۔

۔ ۔
بڈھا بلوچ نے اونٹ پہ ”کچاوہ“ جمایا تو رکھو خاں نے پوچھا، ”بڈھا سائیں، کدھر کی تیاریاں ہیں؟“

”پتر، بہاول پور شہر جانا ہے۔ تمہیں تو پتہ ہے وہاں میرے پردیسی بیٹے نے اپنا چھوٹا سا بھانہ (ڈیری فارم) بنایا ہوا ہے۔ میں وہاں جاؤں گا تو پھر وہ دراوڑ آ کر کچھ دن اپنے بیوی بچوں کے پاس رہ لے گا۔“

”سائیں، جب شہر سے واپس آنا ہو تو میرے لیے بہاولپوری سوہن حلوہ ضرور لیتے آنا۔ اسے کھاتے ہوئے بڑی“ چس ” (لذت) آتی ہے۔ تمہاری“ نوہ ” (بہو) کو بھی بڑا بھاتا ہے۔ جس رات سوہن حلوہ کھا لے اس کا موڈ بڑا اچھا ہو جاتا ہے اور وہ خود ہی میرے ساتھ“ مذاقاں ”کرنا شروع ہو جاتی ہے۔“

”اچھا اچھا، لیتا آؤں گا۔ اور بھی کچھ منگوانا ہو تو بتا دے۔ بھلا، پیسہ کوئی سجنوں سے پیارا ہوتا ہے۔“

کمرے میں ایک چھوٹے بلب کی مدھم روشنی اور تاریکی کا امتزاج عجیب سا ماحول پیدا کر رہا تھا۔ دیواروں سے سیمنٹ جگہ جگہ اترا ہوا تھا۔ ایک طرف ایک چارپائی پڑی تھی۔ ایک میز اور اس کے گرد چار پرانی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ کمرے کی ایک دیوار میں ایک پرانی چھوٹی الماری موجود تھی جس کی لکڑی سے رنگ تقریباً اترا ہوا تھا۔ کرسی پہ بیٹھا ایک بھاری جثے والا شخص میز پہ پڑی شراب کی بوتل سے وقفے وقفے سے تھوڑی سی شراب گلاس میں انڈیل کر منہ کو لگا لیتا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک درمیانی عمر کا شخص ایک میلا لمبا اوور کوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔

”تو آ گیا انور، کب سے تیرا انتظار کر رہا ہوں۔“ ، پہلے سے موجود شخص نے کہا۔

”ہاں، بڑی طلب ہو رہی ہے مجھے، جب تک دو چار کش نہیں لگاؤں گا۔ بے چینی ختم نہیں ہو گی۔“ ، انور نے کہا اور الماری سے ایک چھوٹی سی پڑیا نکال کے لے آیا۔ کھولا تو اس میں چرس تھی۔ ایک سگریٹ اپنے لیے بنایا اور دوسرا بھاری جثے والے کو دے دیا۔ ساتھ ہی شراب کا پیک بھی اپنے لیے بنا لیا۔

”دیکھ انور، شیرے کے ساتھ تیری ٹریننگ اب مکمل ہو گئی ہے۔ اب تجھے اکیلے ہی کام پہ جانا ہو گا۔“
ٹھیک ہے، ایسا ہی ہو گا۔ ”، انور نے جواب دیا اور ساتھ ہی جیب سے افیم کی گولی نکال کے نگل لی۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ پلیٹ فارم پہ بنے آخری ٹی اسٹال سے انور نے تیز پتی والی چائے بنوائی اور انگریز دور کے لگے دیار کی لکڑی کے بنے بنچ پہ بیٹھ کے چسکیاں لینا شروع کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد کراچی جانے والی ٹرین پلیٹ فارم پہ آ کے رکی۔ بوگی نمبر آٹھ سے اترنے والے مسافر کے پاس قیمتی اٹیچی کیس نظر آ رہا تھا لیکن اس نے اسے پلیٹ فارم کے فرش پہ رکھنے کی بجائے اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔ اترنے والے مسافر پلیٹ فارم چھوڑ کر چلے گئے تو انور اٹھا اور قائد اعظم کالونی کی طرف والے پلیٹ فارم سے نیچے کی طرف اتر گیا۔

یخ تیز ہوا چل رہی تھی گویا راہ چلتے ہوئے انسان کو راستے میں ہی جما دے گی۔ انور غنی گوٹھ والے نالے کو کراس کر کے باجن دی گوٹھ والے علاقے میں داخل ہو گیا۔ کوئی شخص چارپائی پہ گلی کی نکڑ میں باہر بچھی چارپائی پہ سو رہا تھا۔ انور نے اس کے سر کی طرف سے لحاف تھوڑا سا ہٹایا۔ اپنے اوور کوٹ کی جیب سے ایک ہتھوڑا نکالا اور پوری شدت سے سوئے ہوئے شخص کے ماتھے پہ وار کیا۔ بڈھا بلوچ کے حلق سے صرف ایک بار آہ کی آواز نکلی۔ انور تھوڑا پیچھے ہٹا اور اندھیرے میں ایسے غائب ہو گیا گویا تحلیل ہو گیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments