فرید الدین عطار کی مثنوی ’‘ منطق الطیر ”کے بارے میں


ایران کے شہر نیشاپور پر چنگیز خان کے حملے کے دوران ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ جلد ہی کسی نے، اس شخص کو پہچان کر، اس شخص کو گرفتار کرنے والے منگول سپاہیوں کو اس شخص کی رہائی کے بدلے بطور تاوان ایک ہزار چاندی کے سکوں کی پیشکش کی۔ اس شخص نے بڑی بے اعتنائی سے سپاہیوں کو متنبہ کیا کہ اس کو اس قیمت پر نہ بیچا جائے، کیونکہ وہ اس قیمت سے کہیں زیادہ گراں ہے۔ منگول سپاہیوں نے اس شخص کی بات سن کر یہ خیال کیا کہ شاید انھیں اس سے بہتر تاوان مل سکتا ہے، سو انھوں نے ایک ہزار چاندی کے سکوں کی یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

تھوڑی ہی دیر بعد ، ایک اور راہ گیر نے اس شخص کو منگولوں سے بھوسے کی ایک بوری کے عوض خریدنے کی پیشکش کر ڈالی۔ تب اس شخص نے منگولوں کو کہا کہ اسے اس قیمت کے عوض فروخت کر دیا جائے کیونکہ اس کی قیمت اتنی ہی ہے۔ منگول سپاہی نے شدت غصہ اور حماقت پن میں اس شخص کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس مقتول کو لوگ فرید الدین عطار کے نام سے جانتے ہیں۔

فرید الدین عطار کا اصلی نام ابو حامد بن ابوبکر ابراہیم تھا۔ عطار سے مراد عمومی طور پر عطر فروش کے ہی لی جاتی ہے لیکن عطار کا مطلب ہے کیمسٹ یا فارماسسٹ۔ آپ اسے حکیم یا ماہر ادویات کہہ سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دن وہ اپنی دکان پر پیسوں کی کچھ اتھل پتھل کر رہے تھے کہ ایک فقیر ان کے پاس آیا اس نے خدا کے نام پر کچھ خیرات کا سوال کیا۔ شیخ عطار اپنے کام میں اس قدر مگن تھے کہ انہوں نے فقیر کی صدا پر کان نہ دھرا۔ فقیر نے بگڑ کر کہا کہ دنیا میں اس قدر انہماک ہے تو آخر مرے گا کیسے؟ شیخ عطار نے غصہ میں جواب دیا جس طرح تو مرے گا۔ فقیر نے کہا کہ میں تو اس طرح مروں گا۔ یہ کہہ کر وہ زمین پر لیٹ گیا، اپنے کشکول گدائی کو سرہانے رکھا، کمبل اوڑھا اور ’‘ الا اللہ ”کا نعرہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔

شیخ عطار اس واقعے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً سامان تجارت خیرات کیا اور تارک الدنیا ہو گئے۔ تصوف کی بہت ساری منزلیں طے کرنے کے بعد انہوں نے تصوف کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے منطق الطیر یعنی پرندوں کی زبان کا سہارا لیا اور تصوف کے گہرے اور نازک مسائل کو بے تکلفی، روانی اور سادگی سے شاعری کی صورت بیان کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اتنا آسان تو نثر میں بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس بیان کو منطق الطیر کا عنوان دیا گیا۔

منطق الطیر ایک طویل مثنوی ہے۔ مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ۔ ’‘ مثنیٰ ”سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر ہیت کے لحاظ سے مثنوی ایسی صنف سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کی جاتی ہے۔

مثنوی ایک وسیع صنف سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔ منطق الطیر بھی ایسی ہی ایک مثنوی ہے۔

انور مسعود کہتے ہیں۔ ’‘ عطار نے بہت سی رباعیات اور غزلیات بھی لکھی ہیں لیکن مثنوی ان کا خاص میدان ہے۔ ان کی مثنوی ”منطق الطیر“ ان کا وہ شہکار ہے جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ دنیا کی عظیم زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں اور زمانے بھر کی عظیم ادبی شخصیات نے اس کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس میں تصوف کے بنیادی عقائد اور نظریات کا ذکر تمثیلی انداز میں کیا گیا ہے۔ غیر مرئی حقائق کو مرئی رنگ دیا گیا ہے۔ منطق الطیر وحدت الوجود کے فلسفے کی ترجمان ہے۔ اصل میں وجود ایک ہے جو واجب الوجود ہے، باقی سب اسی کا پرتو ہے۔ نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔ ”

منطق الطیر کوئی ساڑھے چار ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ”منطق الطیر“ کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلے حمد ہے پھر نعت، اس کے بعد منقبت۔ اس کے بعد داستان شروع ہوتی ہے۔ اس مثنوی میں پینتالیس عنوانات ہیں اور آخر میں خاتمۂ کتاب ہے۔ ہر عنوان کے تحت ایک حکایت بیان کی گئی ہے۔ مثنوی کا موضوع دلچسپ ہے۔ دنیا کے پرندے ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں تاکہ اپنے لیے بادشاہ منتخب کرسکیں۔ ہدہد ایک ایسا پرندہ ہے جو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں رہ چکا ہے، اسے سب سے زیادہ عقلمند تصور کیا جاتا ہے، اس ہدہد کو یہ پرندے اپنا راہنما چن لیتے ہیں۔

وہ کہتا ہے ہمارا بادشاہ سیمرغ ہے اور اس تک پہنچنا آسان نہیں سیمرغ کوہ قاف میں رہتا ہے جو بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے جو تمام دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہاں جانے کے لیے سات پرخطر وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ راستے میں مشکلات، رنج اور مصیبتیں آئیں گی لیکن سب کا مقابلہ عشق کی قوت، مسلسل جدوجہد اور صداقت سے کرنا پڑے گا۔ بہت سے پرندوں نے مشکلات کا ذکر سن کر سفر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہد ہد کے مطابق پہلی وادی تلاش اور جستجو ہے، دوسری وادی عشق و محبت، تیسری وادی علم و معرفت، چوتھی وادی قناعت اور استغنا ہے، پانچویں وادی وحدت و توحید، چھٹی وادی حیرت اور استعجاب، ساتویں وادی فقر اور فنا ہے۔ ان وادیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے :

1۔ طلب کی وادی، جہاں مسافر اپنے تمام عقائد، اعتقاد، اور بے اعتقادی ایک طرف رکھ کر سفر شروع کرتا ہے۔
2۔ محبت کی وادی، جہاں محبت کی خاطر عقل کو ترک کر دیا جاتا ہے۔
3۔ علم کی وادی، جہاں دنیاوی علم بالکل بیکار ہو جاتا ہے۔
4۔ لاتعلقی کی وادی، جہاں تمام خواہشات اور دنیا سے لگاؤ ترک کر دیا جاتا ہے۔

5۔ وحدت کی وادی، جہاں مسافر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ محبوب ہر چیز سے ماورا ہے، بشمول ہم آہنگی، کثرت اور ابدیت کے ہر چیز آپس میں جڑی ہوئی ہے۔

6۔ حیرت کی وادی، جہاں محبوب کی خوبصورتی دیکھ کر راہگیر پریشان ہو جاتا ہے اور خوف میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے کہ اس نے کبھی کچھ جانا یا سمجھا ہی نہیں۔

7۔ غربت اور فنا کی وادی، جہاں نفس کائنات میں غائب ہو جاتا ہے اور راہگیر وقت سے ماورا ہو جاتا ہے، اور بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں کا مسافر ہو جاتا ہے۔

یہ پرندے جب ان وادیوں کی تفصیل سنتے ہیں تو پریشانی سے سر جھکا لیتے ہیں۔ لیکن اپنی گھبراہٹ کے باوجود، وہ عظیم سفر شروع کرتے ہیں، ہدہد پرندوں کی رہنمائی کرتا ہے، جن میں سے ہر پرندہ ایک انسانی غلطی کی نمائندگی کرتا ہے جو انسان کو آگہی کے حصول سے روکتی ہے۔ راستے میں، بہت سے پرندے پیاس، گرمی یا بیماری سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ بہت سے دوسرے پرندے جنگلی درندوں، گھبراہٹ اور تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آخر کار، صرف تیس پرندے، یہ ساتوں وادیاں عبور کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں وادی فنا میں سیمرغ کی بارگاہ دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ سیمرغ کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس میں اور اپنے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

فارسی میں۔ ’‘ سیمرغ ”کا مطلب ہے تیس (سی) پرندے (مرغ) ۔ گویا وہ تیس پرندے علاماتی طور پر اپنی تلاش میں چلے تھے اور اپنی یافت پر ان کا سفر ختم ہوا آخرکار وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس محبوب کی شان اس سورج کی مانند ہے جسے آئینے میں جھلکتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر جو کوئی بھی اس آئینے میں دیکھے گا وہ اس آئینے میں اپنی ہی تصویر دیکھے گا۔

فرید الدین عطار کی یہ مثنوی اس حد تک اثر انگیز ہے کہ بانو قدسیہ نے اسے اپنے ناول۔ ’‘ راجہ گدھ ”میں برتا۔ کہا جاتا ہے کہ جناب مستنصر حسین تارڑ کی کتابوں میں پرندے ہوتے ہیں، پانی ہوتا ہے اور موت ہوتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے یہ پرندے فرید الدین عطار کے پرندوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ ان پرندوں سے اس حد تک متاثر ہیں کہ انہوں منطق الطیر کی تتبع میں منطق الطیر جدید لکھ ماری ہے۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے حال میں منطق الطیر کا کوئی جدید انگلش ترجمہ پڑھا تھا جس سے وہ اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے منطق الطیر جدید لکھی۔

مکتبہ بک کارنر نے ہر وہ کتاب چھاپنے کا تہیہ کر رکھا ہے جو ورلڈ کلاسک ہے سو انہوں نے اس کتاب کا ایک نیا ترجمہ ایک علم دوست ڈاکٹر محبوب کاشمیری سے کرایا ہے جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ باذوق قارئین کے لیے انہوں نے بہزاد کے مصور نسخے کے کچھ اوراق بھی ابتدا میں شامل کیے ہیں۔ اس میں اردو ترجمے کے ساتھ فارسی متن بھی دیا گیا ہے۔ بک کارنر نے اس کے دو ایڈیشن ؛ایک کلاسک اور دوسرا ڈیلیکس حال ہی میں شائع کیے ہیں جب کہ مارکیٹ میں اس سے پہلے دو، تین تراجم موجود ہیں۔ بک کارنر کے ایڈیشن کی اپنی ایک انفرادیت ہے جو کہ ان کے ادارے کی اب پہچان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments