ایک فکرمند شہری کی ریاست بارے چند تجاویز


شہری کی ریاست اور اس کو چلانے والے منتخب عوامی نمائندگان جن کی ذمہ داریوں میں حکومتی معاملات کو چلانا ہے بارے فکر اور تجاویز۔

یہ بات میری قوم کے لئے بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ جو بھی ہمارا نمائندہ : قومی اسمبلی کا ممبر، سینیٹر، وزیر، مشیر، وزیر اعظم یا صدر بن جاتا ہے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہونے لگتا ہے۔ اور اس بارے عوام بہت فکر مند ہیں۔ لہذا ان سب اصحاب کے چناؤ کے بعد ان کا ایک ریفریش کورس کروانا چاہیے، جو ان کے اپنے خرچے پر ہو جو امیدوار کی درخواست کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن وصول کر لے اور جو پارلیمانی یونیورسٹی کے کھاتے میں چلی جائے جو نئے ممبران کی تربیت پر خرچ کیا جائے، ان کو کمپیوٹر اور بنیادی کمپیوٹر لٹریسی کا نصاب بھی پڑھایا جائے اور پارلیمنٹ ہاؤس اور دوسرے ہاؤسز کے اسٹاف بھی ان کے ساتھ آن لائن کنکٹ رہیں۔

اس ٹیکنالوجی کے دور میں کام کے طریقہ کار کو بدل دینا چاہیے۔ اور آنے والے سالوں میں یقیناً یہ تبدیلی یقینی رائج بھی ہو جائے گی اور ہمیں چاہیے کہ اس میں پہل کریں۔ اس کے بعد دارالخلافے کی بجائے ان کو اپنے اپنے حلقوں میں بھیج دیا جائے اور ان کی ذمہ داری صرف یہ ہو کہ اپنے حلقہ کے مسائل سے مرکزی پارلیمنٹ کو آگاہ کرتے رہیں۔ ان کی تمام کی تمام خط و کتابت اور اجلاس میں شرکت انٹرنیت کے ذریعہ سے ہو۔ ان کو مرکزی پورٹل میں لاگ ان کی معلومات دے دی جائیں اور ان کے تمام تر ٹی اے، ڈی اے وغیرہ ختم کر دیے جائیں۔

دارالخلافہ صرف علامتی ہو اور اس کو بھی اگر ممکن ہو تو ہر نئی اسمبلی کے ساتھ بدل دیا جائے اور ہر دفعہ یہ علامتی دارالخلافے کی فعال نئے صوبے کے حق میں نکلنی چاہیے۔ تمام تر وزیر اعظم ہاؤس، پارلیمنٹ لاجز، پارلیمنٹ ہاؤس، سینٹ، کیبنٹ اور صدر ہاؤس سب کو پبلک یونیورسٹیوں کا درجہ دے دیا جائے جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار کی تعلیم اور اس پر عمل کی ترغیب دی جائے۔ وزیر اعظم ہاؤس کو پارلیمنٹ یونیورسٹی کا نام دیا جائے۔

اور جو بجٹ ان کی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے وہ یونیورسٹیوں کی تعمیر پر خرچ کیا جائے۔ ہر پانچ سالہ جس صوبے کے حصے میں آئے اس صوبہ کے اندر اس بجٹ کو یونیورسٹیوں کی تعمیر پر خرچ کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف ان صاحباں کی زندگیاں بھی محفوظ ہوجائیں گی، قومی سرمایہ بھی بچے گا اور ان کی ٹھاٹھ باٹھ اور عہدوں میں خواہ مخواہ کی کشش بھی ختم ہو جائے گی جو ان کو عہدوں پر پہنچ جانے کے بعد ان کی عادتیں خراب ہو جانے کی وجہ سے ہم عوام سے دوری کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ویسے بھی اگر دیکھیں تو پچھلے تین سالوں میں وزیر اعظم مشکل سے دو دفعہ پارلیمنٹ میں آیا ہو گا۔

اسی طرز پر صوبوں میں بھی تمام کام آن لائن کر دینا چاہیے تاکہ یہ عوام کے قریب رہیں اور عوام کے مسائل سے آگاہ رہیں۔ ویسے بھی ان قانون ساز اداروں کا کام نئے قانون یا پہلے سے موجود میں ریفارم کے لئے تبدیلی کی تجاویز ہے جو ان لائن بہتر طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر فضول ایک دوسرے کو گالی گلوچ سے بھی بچیں گے۔ ترقیاتی کام ویسے بھی بلدیاتی اداروں کا کام ہے جس میں ان کا کردار ختم ہوجانا چاہیے۔

یوں تو نواز شریف نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے مگر سیکورٹی اداروں نے ان کی حفاظت کے پیش نظر اجازت نہیں دی۔ پھر عمران خان نے بھی دعویٰ کیا کہ اگر وہ وزیر اعظم بن گئے تو وزیراعظم ہاؤس کو یونیوسٹی کا درجہ دے دیں گے، تجویز تو اچھی تھی مگر قابل عمل نہ بن سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک پارلیمنٹ کے کام کے طریقہ کار میں تبدیلی نہ لائی جائے اس پر عمل ممکن نہیں۔ میں چاہوں گا کہ اس کو پارلیمانی یونیورسٹی بنا دیا جائے۔

تمام سیاستدانوں کو اس یونیورسٹی میں آئین، قانون، انسانی حقوق، قومیت، نظام حکومت پر تحقیق وغیرہ پر مشتمل نصاب پڑھایا جائے تاکہ ان کے اندر ایک اچھا سائنسدان بننے کی خوبیاں پیدا کی جاسکیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور عہدیداران کو بھی اس یونیورسٹی میں تعلیم دی جائے اور ان کو بتایا جائے کہ کس طرح مختلف جمہوری طرز کی حکومتوں کے نظام سول بالا دستی کے لئے اپنے اپنے ملکوں میں کام کر رہی ہیں۔

اور یہ سب کچھ ممکن ہے بلکہ محفوظ اور تیز تر نظام ہے۔ اور یہ نظام دنیا میں رائج بھی ہے۔ اس کی ایک مثال میں اپنی ایک آپ بیتی سے دینا چاہوں گا۔ میں نے دور ہزار تیرہ میں بیلجیم ایمبیسی میں ویزا کے لئے درخواست جمع کروائی۔ میری کانفرنس کے انعقاد میں وقت کم تھا تو میں نے ایک ہفتے کے بعد کونسلیٹ سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جس میں جلدی ویزا کے عمل کے لئے درخواست کی، دوسرے دن مجھے جواب موصول ہوا کہ میری درخواست وزارت داخلہ سے منظوری کے لئے برسلز بھیج دی گئی ہے اور مجھے وہاں منسٹری کے ویب سائیٹ کی لاگ ان انفارمیشن اور فائل کا حوالہ نمبر بھی بتایا گیا۔

میں نے وہاں جاکر معلومات حاصل کیں تو جواب ملا کہ میری درخواست پر عمل جاری ہے۔ تین دن کے بعد دوبارہ اپنا سٹیٹس چیک کیا تو پتا چلا کہ میری درخواست ویزہ منظوری کے بعد اسلام آباد بھیج دی گئی ہے۔ ویزہ افسر کچھ اضافی دستاویزات دیکھنے کے بعد ویزہ جاری کر دے گا۔ اور ٹھیک تین دن کے بعد مجھے ایمبیسی سے اطلاع آئی کہ تمھارا ویزہ سٹیکر لگنے کے بعد پاسپورٹ وصولی کے لئے تیار ہے۔ میں نے جاکر اپنا پاسپورٹ وصول کر لیا۔

دینا میں آج کل تمام کے تمام کام آن لائن ہو رہے ہیں۔ اور اجلاس کے لئے چونکہ پہلے ملکوں کے پاس متبادل نظام کی موثر مثال موجود نہیں تھی اس لئے یہ سفر کی مشق کرنی پڑتی تھی اور اب آنے والے سالوں میں یہ ختم ہی ہو جائے گی، کرونا نے ساری دنیا کو یہ متبادل ذریعہ اچھی طرح سے نہ صرف متعارف کروا دیا ہے بلکہ اس پر عمل کو بھی لاگو کر دیا ہے اور بہت ساری انٹرنیشنل کمپنیوں نے تو یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اب وہ اپنے کام کو اس موجودہ طریقہ کار کے تحت ہی جاری رکھیں گے۔ اب حکومتیں بھی یقیناً اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گی۔ یونیورسٹیوں نے تعلیمی نظام کو آن لائن کر دیا ہے۔ اور ہمیں بھی چاہیے کہ مستقبل میں قائم کرنے والے اداروں اور یونیورسٹیوں کو نئے دور کی ضروریات اور سہولتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب و تنظیم کریں۔

تو بات ہو رہی تھی کہ ہمارے عوامی نمائندگان کو ورچوئل کر دیا جائے۔ کئی ہمارے نمائندگان تو ایسے ہیں جن کو سارے سال میں ایک دفعہ بھی اسمبلی ہال میں بولنے کی توفیق نہیں ہوتی، نہ ہی ان کی کسی عمل میں کوئی حصہ لینے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے وہ بس اپنے عوام پر رعب جھاڑنے کے لئے ”آنیاں جانیاں“ دکھانے میں ہی عوام کے خون پسینے کی کمائی اور مالیاتی اداروں سے ان کے نام پر لئے گئے پیسوں کو ضائع کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ ہر نمائندے کی سالانہ کارکردگی پر سالانہ رپورٹ بھی شائع کی جانی چاہیے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ اس کی خاموشی عوام کو کتنے کروڑ میں پڑی ہے۔

یہ سارا کام عوام کی ترقی کے عمل میں عملی طور پر شرکت سے ہی ممکن ہے۔ اور ان حکمرانوں کو صحیح معنوں میں خدمتگار بنانے میں عوام کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ دو ہزار سات میں میں نے ملائیشیاء میں ایک پروگرام میں شرکت کی تو وہاں دو ساتھی ہندوستان سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں ایک نام سیتا رام تھا اس نے تفریحی وقفہ کے دوران ایک نغمہ سنایا تھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ایک بندہ ورلڈ بینک کے سامنے کشکول لئے کھڑا ہوتا ہے اور پاس سے گزرنے والا پوچھتا ہے کون ہے تو ؟

وہ کہتا ہے میں ہوں ہندوستاں۔ میں ہوں ہندوستاں۔ تو اس طرح آج سے چالیس سال پہلے ہندوستان کی سول سوسائٹی نے نغموں کے ذریعے تحریک چلا کر اپنی حکومت کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ عوام کے نام پر کوئی قرضہ نہیں لیں گے اور اگر قرضہ لینا بھی ہے تو شرائط ہماری ہوں گی نہ کہ ان اداروں کی۔ قرضہ ہم لے رہے ہیں، ان کو کاروبار سے منافع مہیا کر رہے ہیں تو اس لئے اگر قرض لینا بھی ہے تو قرض کے استعمال کی پالیسی ہماری ہوگی نہ کہ اس مالیاتی ادارے کی۔ اس لئے آج ہندوستان ہم سے آگے ہے کیونکہ وہاں کے عوام باشعور ہیں۔

اندرا گاندھی کے دور میں جب حکومت نے جنگلات کاٹنے کی کوشش کی تھی تو عورتیں درختوں کے ساتھ لپٹ گئی تھیں کہ چلا سکتے ہو تو ہمارے جسموں پر آرے چلا دو ۔ ایسے ہی حکمران نہیں سلجھتے، عوام کو ان کی اصلاح کے لئے سوچنا پڑتا ہے، نکلنا پڑتا ہے۔ اور جب عوام سوچنا اور نکلنا شروع کر دیتی ہے تو پھر اچھی قیادت ملتی ہے۔ اچھے لوگ خدمت کے لئے سامنے آ جاتے ہیں اور لٹیرے بھاگ جاتے ہیں۔ پھر نہ ان کی جانی حفاظت کا جھنجٹ اٹھانا پڑتا ہے اور نہ بیرونی قرضوں کا بوجھ۔

یوں تو ریاست مدینہ کی مثالیں ہمارے ہاں بھی دی جاتی ہیں مگر عمل کا فقدان ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکمرانوں کا رہن سہن ایک عام شہری کی طرز کا ہو اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب عوام اپنی ملکی املاک کو اپنی ملکیت سمجھیں۔ ہماری زیادہ تر آبادی دیہاتی ہے اور خاص کر وہ بلکہ شہری بھی جانتے ہیں کہ جائیداد اور زمینیں اس کی ہوتی ہیں جو ان کا پہرہ دے وگرنہ لوگ قابض ہو جاتے ہیں۔ تو عوام کو اپنی املاک کا پہرہ دینا ہو گا وگرنہ یہ لٹ مار کا بازار ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments