ورچو سگنلنگ یا اخلاقی اجارہ داری کیا ہوتی ہے


ورچو سگنلنگ جس کا آسان ترین مفہوم ”اخلاقی امتیاز کا بلاوجہ دکھاوا کرنا یا اخلاقی اجارہ داری“ کا دعوی بنتا ہے۔ یعنی خود کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ با اخلاق یا باکردار جاننا اور ہر وقت دوسروں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہنا ہے۔ یہ بھی ورچو سگنلنگ کی ایک مثال ہے کہ آپ بیچ سڑک، ٹرین کے ڈبے میں کسی بھی عوامی جگہ پر اکیلے یا باجماعت نماز ادا کرنا شروع کر دیں، بیٹھے یا گزرنے والے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی عبادت میں مشغول رہیں۔

مغرب میں اکثر ایسی تصاویر وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ ایک بندہ بیچ سڑک نماز پڑھ رہا ہوتا ہے اور سڑک بلاک ہوئی ہوتی ہے۔ ایک اور مثال ہم شاہد آفریدی کی دے سکتے ہیں جن کی اکثر اوقات نماز پڑھتے ہوئے تصاویر وائرل ہوتی رہتی ہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے عمران خان کی بھی نماز پڑھتے ہوئے تصویر وائرل ہوئی تھی یہ سب مثالیں اخلاقی اجارہ داری کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس قسم کے مائنڈ سیٹ کو جب ہم اپنے قرب و جوار میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری سب سے پہلے نگاہ تبلیغی جماعت پر آ کر ٹکتی ہے جو دن رات اس فکر میں رہتے ہیں کہ لوگوں کو جنت کے لیے کیسے تیار کیا جائے اور جہنم سے کیسے دور رکھا جائے۔

اس مشن کی تکمیل کے لیے جماعت میں تین دن، چھ مہینے اور سال تک کے لیے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے، اس دوران وہ مساجد میں قیام کرتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں ڈور ٹو ڈور گشت کر کے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور بیان وغیرہ بھی سن لیا کرتے تھے مگر آج یہ جذبہ کچھ ماند سا پڑ گیا ہے۔ وجہ شاید روٹی کا حصول ہے جو دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے یا ”monotony“ یکسانیت و بوریت کا عنصر غالب آنے لگا ہے کیونکہ ان کی باتیں ”چھ اصول“ سے باہر نہیں جاتی اور انہی چھ اصولوں کو دہراتے رہتے ہیں۔

وجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس کے نتیجہ میں قائم ہونے والا مائنڈ سیٹ خود کو برتر اور دوسروں کو گھٹیا جاننے لگتا ہے۔ اس پہلو کی عکاسی ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب دن بھر کے تھکے ماندے لوگ گھر پہنچتے ہیں اور کچھ گھریلو کاموں میں مصروف ہوتے ہیں تو دروازے پر اچانک سے دستک ہوتی ہے آپ جوتا پہنے بغیر گیٹ پر رسپانس کرنے جاتے ہیں تو آپ اپنے سامنے کچھ تبلیغیوں کو کھڑا ہوا پاتے ہیں یا انتہائی ضروری کام سے گھر سے نکل رہے ہوتے ہیں تو یہ سامنے سے اچانک آ دھمکتے ہیں اور فوراً آپ کو دبوچ لیتے ہیں۔

کاروبار زندگی میں مشغول ہونے کے ان اتفاقات کے دوران اگلے بندے کی مجبوری جانے بغیر اپنا ”رٹا رٹایا“ بیان شروع کر دیتے ہیں، ان کے ذہنوں میں یہ بات کہیں نہ کہیں فکس ہو جاتی ہے کہ ہم لوگوں کو برائیوں سے ہٹا کر بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو گندے کام کرنے سے روکتے ہیں، ہمارا مقصد لوگوں کو مذہب کی طرف راغب کر کے ان کی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔

یہ لوگ ثواب کے چکر میں اتنا مگن ہو جاتے ہیں کہ انہیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اگلے بندے کے پاس آپ کو دینے کے لئے ٹائم بھی ہے یا نہیں؟ ممکن ہے وہ جلدی میں ہو یا پریشان ہو یا آپ کی بات سننے کے موڈ میں نہ ہو مگر چونکہ ان کی نیکیوں کا میٹر آن ہوتا ہے اور اسی چکر میں لگے رہتے ہیں۔ جناب بات یہ ہے کہ ہم آج معلومات کے دور میں جی رہے ہیں انٹرنیٹ پر تمام قرآنی تراجم، تفاسیر اور احادیث کا مجموعہ با ترجمہ انگریزی یا اردو میں موجود ہے جسے جاننے اور اپنی اصلاح کی تمنا ہو وہ اپنی مصروف زندگی کے لمحات میں سے کچھ وقت نکال کر اپنی مرضی سے خود پڑھ اور سیکھ سکتا ہے۔

خود کو اپنی مدد اپنے تحت ایک اچھا انسان بنا سکتا ہے اس لیے آپ کو دوسروں کے لیے خود کو ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ورچو سگنلنگ کی ایک بڑی مثال ہمارے مذہبی فرقے ہیں، ایک مذہب کے پیروکار مگر شاخیں لاتعداد اور تکبر اتنا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا کر ”بے دین“ تک ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور رعونت اتنی ہے کہ خود کے فرقے کو سچ اور جنت کا حقدار گردانتے ہیں اور دوسروں کو جہنم کا وارث۔

مرحوم خادم رضوی نے اہل حدیث مسجد سے اذان کی آواز سن کر احترام اذان کو ترک کرتے ہوئے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے جو کہا تھا اس کا ویڈیو کلپ یوٹیوب پر موجود ہے آپ خود ڈھونڈ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں اسی مائنڈ سیٹ کی پیروی کرنے والے سیاستدانوں کی طرف، جب انڈیا پاکستان سے میچ ہار گیا تو ہماری لال حویلی سرکار نے کہا کہ عالم اسلام کو یہ فتح مبارک ہو موصوف نے کھیل کو بھی کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا۔

کچھ عرصہ پہلے شہریار آفریدی نے امریکہ میں ٹائم سکوائر پر اخلاقی اجارہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ کیسے امریکن بے گھر ہو کر چوک چوراہوں پر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اس لیے ہمیں اپنی ثقافت پر فخر کرنا چاہیے۔ وقار یونس نے اخلاقی برتری کا مظاہرہ کچھ اس انداز سے کیا کہ کاشف عباسی کے پروگرام میں کہا کہ ”رضوان نے ہندؤں کے سامنے گراؤنڈ میں نماز پڑھی اور سجدہ شکر بجا لایا“ ان سب واقعات میں جو چیز واضح طور پر آپ دیکھیں گے وہ ہے ”اخلاقی امتیاز یا اجارہ داری“ یعنی ہم سب سے بہتر اور دنیا کو تہذیب ہم سے سیکھنا چاہیے۔

ہماری تعلیمات سب سے بہتر ہیں اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب فضول اور ڈسٹ بن کے قابل ہے۔ یہ جو ہر چیز میں اپنا ہی عکس دیکھنے کا ہمارا رویہ ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ ہم ایجادات و تحقیق اور مشاہداتی اور تجرباتی آج کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے ”وربل سروس“ میں مصروف ہیں اور ہر لمحہ نئی سے نئی معلومات کے چشمے سے سیراب ہوتی ہوئی اس دنیا کے بارے میں ہمارا یہ موقف ہے کہ ہم ان کی اصلاح کریں گے انتہائی مضحکہ خیزی ہے ہم خود نمائی اور خود تسکینی کے اس مینار پر کھڑے ہیں جہاں سے شاید واپسی ناممکن ہے۔

اس قسم کی ذہنیت کو ”echo chamber“ بھی کہتے ہیں یعنی اپنے خیالات کا ایک چھوٹا سا چیمبر بنا لینا جس میں صرف آپ اپنے ہی تصورات کی بازگشت سننا پسند کرتے ہیں اور متبادل تصورات کو بالکل ہی رد کر دیتے ہیں۔ اب عظمت رفتہ اور اپنے ہی خول میں بند ہو کر بڑے بڑے دعوے کرنے کا وقت گزر چکا ہے، ہماری اخلاقی معیارات کیا ہیں دنیا بہت اچھے سے جانتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments