امریکہ کا چکر: کچھ حال یونیورسٹی کا


ہوسٹن ائرپورٹ پہنچے۔ اب ترکی میں ٹرانزٹ کے لیے ائرپورٹ سے باہر نکلتے اور واپس آتے وقت ہمیں اور خانم کو تو ترک امیگریشن والوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا مگر دونوں مرتبہ برخوردار خان کو پکڑ لیا۔ پھر امیگریشن اہلکار کسی افسر کو فون گھماتا اور اس سے اجازت لینے کے بعد برخوردار خان کو کلیئر کرتا۔ اسی تجربے کے پیش نظر ہوسٹن کی امیگریشن پر ہم سوچ رہے تھے کہ اس کا انٹرویو ہو گا، ممکن ہے کہ پوچھ گچھ کے کمرے میں بھی لے جائیں۔ مگر صاحب، امریکی ہیں ہی الٹے دماغ کے۔ اسے چھوڑ دیا اور ہم دونوں معززین کو دھر لیا۔

امیگریشن افسر ایک خوش مزاج سا بزرگ تھا۔ معمولی سے سوال پوچھے کہ کیوں آئے ہو کب جانا ہے وغیرہ۔ فنگر پرنٹ لیے۔ پھر پوچھا کہ سامان ہے؟ بتایا ہے۔ تس پہ وہ فرنگی یوں گویا ہوا کہ آپ دونوں کے فنگر پرنٹ کی تصدیق درکار ہے، آپ پوچھ گچھ کے کمرے میں تشریف لے جائیں۔ برخوردار خان پر ہمیں اعتبار ہے، وہ باہر جا کر سامان وصول کر لے۔ خیر کمرہ تحقیق و تفتیش میں پہنچے۔ دس منٹ انتظار کے بعد ایک ہسپانوی نوجوان نے بلایا۔ پوچھا کیوں آئے ہو، کب جانا ہے؟ اسے بتا دیا۔ کہنے لگا کہ سامان میں کھانے پینے کا کیا لائے ہو؟ اسے بتایا کہ دیسی کھانا تو بے حد و حساب ہے مگر ایسا کوئی پھل بیج نہیں جس سے امریکی ماحول تباہ ہو جائے۔ وہ نوجوان خوش ہوا اور ہمارا پاسپورٹ واپس کر کے رخصت کیا۔ یہ امریکی بھی کمال ہیں۔ ہماری قومی پیداوار بھنگ کا نہیں پوچھتے، عام پھل پھول کا پوچھتے ہیں کہ حضت آپ یہاں کوئی گل تو نہیں کھلائیں گے؟

ائرپورٹ نہایت وسیع ہے۔ گھمن گھمیریوں سے نکلے اور ہائی وے پر چار گھنٹے کے سفر کے بعد ہوسٹن سے ڈیلاس پہنچے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جیسی ہائی ویز ٹیکساس میں ہیں ویسی پورے امریکہ میں نہیں ملیں گے۔ غالباً اسی مشترکہ شوق کے سبب ٹیکساس سے منتخب ہونے والے امریکی صدور سے نواز شریف کی اتنی گاڑھی چھنتی تھی۔

اگلی صبح حکومت آپا کی یونیورسٹی میں گریجویشن تھی۔ اٹھے تو گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ بخدا ایسی صاف ہوا کی عادت نہیں رہی۔ ہوا تھی بھی کراچی جیسی بادِ صرصر۔ جھونکے پر جھونکا چلا آ رہا تھا۔ گریجویشن کی تقریب کرونا کی احتیاط کی وجہ سے بیس بال کے ایک سٹیڈیم میں تھی۔ حسب معمول ایک پروفیسر صاحب نے ایک نہایت طویل اور بیزار کن تقریر کی۔ اس کے بعد سندیں تقسیم ہونا شروع ہوئیں۔ یہ امر دلچسپ تھا کہ تعلیم اور سوشل سائنسز میں ڈگری پانے والوں میں مقامی افراد کی اکثریت تھی مگر انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس وغیرہ کے شعبہ جات میں ہندوستانی چھائے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیشیوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی دکھائی دی۔ اور آٹے میں نمک کے برابر چند پاکستانی بھی تھے۔

یہ صورت حال دیکھ کر دنیا دار لوگ تو پریشان ہو جاتے کہ اگلے دس برس میں ہندوستان اور بنگلہ دیش مادی دنیا میں کہاں کھڑے ہوں گے اور پاکستان کہاں، مگر ہم روحانیت کو ماننے والوں کو رتی برابر پریشانی نہیں ہوئی۔ بلکہ دل کو اطمینان ہوا کہ ہم جن باطنی علوم میں ترقی کرتے ہوئے ان علوم کی یونیورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹ بنا رہے ہیں، ان کی ان اقوام بشمول امریکیوں کو ہوا تک نہیں لگی۔ فرہاد علی تیمور کی کہانی دیوتا پڑھنے والے جانتے ہی ہیں کہ جب روحانیت میں اعلیٰ مقام پانے والے اور مادیت پرست ٹکرائیں تو مادیت پرست منہ کی کھاتے ہیں۔ ہمارا مستقبل تابناک، بلکہ تابکار دکھائی دیتا ہے۔

اگلے دن فرمانبردار خان ہمیں یونیورسٹی دکھانے لے گیا۔ کرسمس کی تعطیلات کی وجہ سے وہاں چند طلبا و طالبات ہی دکھائی دیے۔ فرمانبردار خان نے بتایا کہ یہ وہ قوم ہے جو یونیورسٹی میں جاب کرتی ہے اس لیے حاضر ہے ورنہ باقی سب کرسمس منانے اپنے اپنے گھر گئے ہوئے ہیں۔ فرمانبردار خان خود بھی یونیورسٹی کی لائبریری میں گرافک ڈیزائنر کی جاب کرتا ہے۔ مختلف ڈپارٹمنٹ دیکھے۔ یونیورسٹی نہایت ہی وسیع و عریض ہے۔ یونیورسٹی والوں کو طلبا و طالبات کی صحت کا اس قدر خیال ہے کہ ڈپارٹمنٹ دور دور بنا کر انہیں دن میں انہیں آٹھ دس کلومیٹر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ فرمانبردار خان نے بتایا کہ طلبا سائیکل یا سکیٹ بورڈ استعمال کر کے ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے تک پہنچتے ہیں۔ پیدل چلنے والے بھی ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر وہ ہیں جن کی سائیکل یا سکیٹ بورڈ چوری ہو چکے ہیں۔

ایک بڑی عمارت ایسی بھی دکھائی دی جس میں طالب علموں کے کھیلنے کودنے کا تمام سامان بہم پہنچایا گیا ہے۔ جمنازیم سے لے کر ٹینس کورٹ، سنوکر سے لے کر پیراکی، اور فٹ بال سے لے کر ہینڈ بال تک کی سہولیات موجود ہیں۔

لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی ان تمام کوششوں کو اس کے کینٹین والے ناکام بنا دیتے ہیں۔ جتنی کیلوریز یونیورسٹی جلواتی ہے اس سے دس گنا کینٹین والے میٹھے مشروبات اور فاسٹ فوڈ کھلا پلا کر فراہم کر دیتے ہیں۔ یہاں کا ایک ایک طالب علم وطن عزیز کے دو تین طلبا پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےامریکہ کا چکر: روانگی کی دیوانگیامریکہ کا چکر: لوگ اور زندگی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments