اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے ….


عاشق بیٹھا قصہ سنا رہا تھا کہ اب کچھ کیا جائے ورنہ وہ مرنے لگا ہے۔ اسے ہمارے مشر نے جواب دیا کہ تمھارا مر جانا بہتر ہے کہ کم از کم تم اکیلے مرو گے ورنہ تمھارے لئے کچھ کیا تو ہم سب نہ بھی مرے تو ہماری پشت ضرورلال ہو جائے گی۔ عاشق ہمارا ہم جماعت ہے کم بخت کو عشق ہو گیا تھا۔ آگ دونوں طرف ہی لگی ہوئی تھی اگلی پارٹی بھی تیار تھی۔ مسئلہ بس چھوٹا سا تھا کہ عاشق غیر مسلم تھا۔

عاشق کو جب بتایا کہ کمبخت تم مسلمان نہیں ہو۔ تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا جا کے کابل دریا میں چھلانگ مار دو تو اس نے اعلان کیا کہ وہ مسلمان ہونے کو بھی تیار ہے۔ ہمارے سارے ٹولے میں سے کوئی ایک بھی اس کے اس اعلان سے متاثر نہ ہوا۔ اس نے یہ وار خالی جاتے دیکھا تو دوسرا حملہ کیا کہ خبیثو میں اتنا گرجے نہیں گیا جتنے تم لوگوں کے ساتھ جمعے پڑھ چکا ہوں۔ سب کو یاد آ گیا کہ وہ واقعی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتا رہا ہے بلا وجہ۔

مشر کا دل نرم ہو گیا اس نے کہا میں لڑکی سے مل کر ہی کچھ کر سکوںگا۔ اسی شام لڑکی سے مل کر ملاقات کے بعد مشر نے رپورٹ دی کہ لڑکی اس لنگور میں تو شاید اتنی دلچسپی نہیں رکھتی البتہ اس کی وجہ سے یہ مسلمان ہو جائے، یہ ثواب وہ کمانے کو تیار ہے۔ مشر کے بقول اس نے لڑکی کو ضرری مسائل سے بھی آگاہ کیا کہ اس کافر کی مسلمانی بھی نہیں ہوئی ، مشر کے بقول لڑکی پر اس بات کا بھی ذرا اثر نہ ہوا اس نے یہ کہا، نہیں ہوئی تو کرا لے گا اور ایسا کر کے مر نہیں جائے گا یہ کم بخت۔ عاشق نے یہ بتا کر مشر سمیت ہم سب کو بھی حیران کر دیا کہ اس کی مسلمانی بھی چھوٹے ہوتے ہی ہو چکی ہے۔

مشر نے لڑکی کو یہ تک سمجھانے کی کوشش کر دیکھی کہ عاشق ویسے تو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں وڈا افسر ہے لیکن بہت صاف ستھرا رہنے کے باوجود بھی اس کی شکل دیکھ کر بندے کا یہی دل کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جھاڑو پکڑائے اور سڑکیں صاف کروانے بھیج دے۔ لڑکی بھی پکی رہی۔ عاشق بھی ڈٹا رہا اس کہانی کا کیا ہوا اس کو رہنے ہی دیں۔

حال ہمارا اس سردار جی والا ہے جو کیلے کا چھلکا دیکھ کر نہایت افسوس سے نعرہ لگاتے تھے کہ او تہاڈی…. خیر ہن فیر ڈگنا پئے گا ( آپ کی خیر ہو، گویا اب پھر گرنا پڑے گا)۔ جب بھی کسی پیار کہانی میں ہماری اینٹری ہوتی ہے یا نہیں بھی ہوتی تو ہم خود جا گھستے ہیں کہ پریمیوں کی مدد کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہونا اس زندگی نے ہمیں سکھایا ہی نہیں۔

نہ لڑکی کو دیکھا تھا نہ لڑکے سے کبھی ملا تھا۔ بارہ پندرہ سال پہلے ادھار کا ٹکٹ لے کر پشاور سے کراچی پہنچ گیا تھا ایک کہانی میں شامل ہونے۔ لڑکا بھاگ گیا تھا۔ اس کی مہربانی رک بھی جاتا تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ بس ایک کوشش تھی کہ دو لوگوں کی شادی ہو جائے، جو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، وہ اکٹھے رہ سکیں ۔ لڑکے نے دوڑ لگا دی تھی۔ ہم نے یہ سیکھا تھا کہ کہنے، کرنے، نبھانے اور کھڑے رہنے میں فرق ہوتا ہے۔

وہ کہانی ہمیں کچھ دوست دے گئی تھی جو آج تک ساتھ ہیں۔ زندگی اوپر نیچے ہوتی رہی، وہ دوست ساتھ ہی دھکے کھاتے رہے، خوشیاں مناتے رہے۔ کہانیاں بہت ہیں جو بخیر و خوبی انجام کو پہنچیں۔ اب سابق عاشقوں کی گالیاں ہوتی ہیںاور ہم ہوتے ہیں کہ ’تم ہمیں روک نہیں سکتے تھے‘۔ کبھی کبھی تو دل میں ٓتا ہے کہ ایسی نیکیاں بندہ دریا ہی میں ڈال دیتا تو زیادہ سکھی رہتا۔

محبت کرنے اور محبت کرنے والوں کے احساس کو سمجھنے کے لئے انسان ہونا ہی کافی ہے۔ یہ ایک انسانی جذبہ ہے ہر کوئی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں اس سے گزرتا ہی ہے۔ محبت سب ہی کرتے ہیں وہ لوگ بھی جو اس وقت مذہب کے نام پر جنگ آزما ہیں انہیں واپس لانے کی واحد امید بھی یہی محبت ہے۔

چودہ فروری کو محبت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ کیسے شروع ہوا، اس کی کیا کہانی تھی، یہ سب رہنے دیں۔ صرف ایک بات سوچیں ساری دنیا ہمارے نزدیک آ رہی ہے محبت کا پیغام لے کر تو ہم اس دن کو منا کر ان کے قریب ہوں۔ یہ بتائیں کہ ہم ان جیسے ہی انسان ہیں۔ ویسے ہی جذبے رکھتے ہیں یا اس دن کے منانے والوں پر ڈانگ چلا کر یہ بتائیں کہ ہم الگ ہیں، ہمیں شاید علاج کی ضرورت ہے۔ ہمارا رویہ غیر فطری ہے۔

کسی کو یہ دن نہیں منانا تو نہ منائے ۔ کہنا بس اتنا ہے کہ جو مناتا ہے، اسے منانے دیں کوئی آسمان نہیں گرنے والا۔

جن لوگوں کے رونگٹےیہ سب پڑھ کر کھڑے ہو رہے ہیں، ان کی سوچ کی بنیادیں لرز رہی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بس اتنا عرض ہے کہ آپ ان شادیوں میں جوش و جذبے سے شریک ہوا کریں جن میں بچوں کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ان کی پسند کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہاں روٹی توڑا کریں یہ سوچے بغیر کہ اتنا بن ٹھن کر جو آپ کھابا گیری کر رہے یہ شاید کسی لڑکی کے ساتھ ہونے والی وہ زیادتی ہے جس کے جشن میں آپ بڑے معزز بنے شریک ہیں۔

وقت گزرنے کے بعد لڑکی اگر صبر کر بھی گئی تو ایک دن خدا کے سامنے تو پیش ہونا ہی ہے اس کو بھی اتنا ہی سادہ سمجھ رکھا ہے جو آپ کے چکروں میں آ جائے گا۔ مرضی کے خلاف ایسی شادیوں میں روٹی توڑ بننے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی پسند کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کے لئے آواز اٹھائی جائے۔ ایسا کر کے کیا ہو گا ؟ ہم مجبور محبت ہی کہلائیں گے بسَ….

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments