با ادب، با ملاحظہ ہوشیار


 

اردو کے مباحث میں غلط العام کا چلن عام ہے مگر چند ستم گزیدہ الفاظ تو معنویات کی دیوار میں ایسے چنوا دیے گئے کہ شراب سیخ پر اور کباب بوتل میں جا پڑا ہے۔ ان کے جہان معانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے پر اپنے متضاد معنی میں طمطراق سے مستعمل ہیں اور خوب ہیں۔ چنداں ملاحظہ ہوں۔

مغوی و مغویٰ

سب کا ادبی اجتہاد ہے کہ مغوی اغوا ہونے والے متاثرہ فرد کو کہتے ہیں۔ اکثر سنتے ہیں کہ پولیس نے مغوی کو ڈاکوؤں کے قبضے سے چھڑوا لیا۔ مگر مقام حیرت ہے کہ مغوی کا اصل معنی اغوا کرنے والا ہے جسے ہم مدت سے الٹ مفہوم میں برتے جا رہے ہیں۔ اصل میں اغوا کار مغوی اور اغوا ہونے والا ”مغویٰ“ ہے۔

متوفی و متوفی ٰ

ہمارے ہاں اکثر مرنے والے کو متوفی کہا جاتا ہے جو غلط ہے۔ متوفی فاعل ہے اور موت دینے والے کے لئے ہے جبکہ فوت شدہ کے لئے درست لفظ متوفیٰ ہے۔

راشی و مرتشی۔
عموماً رشوت لینے والے کو راشی سمجھا جاتا ہے حالانکہ راشی رشوت دینے اور مرتشی لینے والا ہے۔
بتاریخ اور مؤ رخہ۔

بتاریخ حال اور مستقبل کی بابت درست ہے جبکہ مورخہ ماضی کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً حامد کی شادی بتاریخ پندرہ دسمبر کو ہوگی۔ اگر ماضی میں اطلاع مقصود ہو تو، حامد کی شادی مورخہ دس اگست کو تھی۔ تاہم انہیں ہم حسب ضرورت و منشا لکھتے پڑھتے ہیں۔

استاد اور استاذ۔

دونوں میں فرق نہیں سمجھا جاتا مگر صحت کے اعتبار سے استاد ہر قسم کے عملی و فنی کام سکھانے والے کو کہتے ہیں جبکہ استاذ صرف فکری، علمی ا ور کتابی شعور دینے والے کے لئے ہے۔ استاد کی جمع اساتید اور استاذ کی جمع اساتذہ ہے۔

جناب اور جنابہ۔

اکثر لوگ خواتین کو مخاطب کرنے کے لئے جنابہ لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے۔ اصلا خواتین و حضرات ہر دو کے لئے جناب ہی موزوں ہے۔ بہتر ہے کہ خاتون کے لئے محترمہ لکھا جائے۔ اگر نام میں صنف کی تمیز مقصود ہوتو جناب کے بعد صاحبہ لکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

قرض دار اور قرض خواہ۔

عام طور پر مقروض کو قرض دار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ قرض دار، قرض دینے والا اور قرض خواہ لینے والا ہوتا ہے۔

تابع دار و تابع فرمان۔

ہمارے ہاں تابع دار کی اصطلاح عاجزی کے اظہار کی علامت ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور تابع دار اطاعت کروانے والا ہے۔ خدمت گار کا مفہوم تابع فرمان ہے۔

طلبہ اور طلبا

طالبعلم کی جمع طلبہ ہے جب کہ کسی بھی چیز کے طالب کی جمع طلبا یا طلاب ہے۔ تاہم دونوں ہی طالب علموں کے مستعمل ہیں۔ خیال رہے کہ طلبہ کے ط پر زبر جبکہ طلبا کے ط پر پیش ہے اور دونوں کی لام مفتوحہ ہے۔

مشکور، شکر گزار

یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ مشکور کا درست مفہوم بھی عدم تفہیم کا شکار ہے۔ اس کے معنی شکر گزار کے نہیں بلکہ مشکور اس شخص کے لئے مختص ہے جو کسی پر احسان کرے اور اس کا شکر یہ ادا کیا جائے۔

آخر میں التماس ہے کہ۔ ”برائے مہربانی“ اور ”براہ مہربانی“ کی دھینگا مشتی میں احباب راہنمائی فرما کر ہمارے مشکور ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments