پڑھنے لکھنے کے بارے میں کچھ ضروری نکات



اس تحریر کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں : غور و فکر کا معیار کیا ہونا چاہیے، اور معیاری فکر کی زیادہ سے زیادہ افادیت کس گروپ (age group) سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس تحریر کے مخاطب بالخصوص لکھاری اور طلبہ اور بالعموم علم و فکر سے محبت رکھنے والے تمام افراد ہیں۔

فکر کا ایک معیاری نمونہ پیش کرنے میں سب سے زیادہ دقت مجھے ادبی تخلیق کے معاملہ میں پیش آتی ہے۔ کبھی کبھی جب میرا ذہن کچھ تخیلاتی لکھنے کی طرف مائل ہوتا ہے یعنی شاعری یا شارٹ سٹوری وغیرہ تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے گرد پہلے ہی شاعروں اور افسانہ نگاروں کا تانتا بندھا ہوا ہے تو مجھے اپنے تخلیقی ارادہ پر بھی لغویت کا شک ہونے لگتا ہے اور میں لکھنے سے رک جاتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم غیر معمولی حد تک تخیلاتی مشاغل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ پہچاننا ہو گا کہ لطیف تخیلاتی مشاغل اور فنون بس چکھنے کی حد تک صحت افزا ہوتے ہیں۔ اوڑھنے بچھونے کے لیے عام طور پر ہمیں کسی عملی صنف کا انتخاب کرنا چاہیے جو واضح طور پر ٹھوس اور تعمیری ہو۔

اگر آپ لکھنا ہی چاہتے ہیں تو غیر عملی تحریریں تھوڑا بہت ساتھ رکھتے ہوئے کسی صنف مفیدہ ( applied genre) مثلاً مضمون نگاری میں طبع آزمائی کیجیے۔ مضمون نگاری نسبتاً عملی بھی ہے اور مفید بھی، اور سب سے بڑھ کر آپ کو یہ شغل مطالعہ پر مجبور کرے گا۔ پڑھے اور تحقیق کیے بغیر آپ اچھا مضمون نہیں لکھ سکتے۔ اس کے برعکس اپنے ذاتی اور غیر تحقیق شدہ تصورات کی رو میں بہتے جانا اور انہیں قلمبند کر دینا نہ لکھنے والے کو کسی منزل پر لے جاتا ہے نہ پڑھنے والے کو اور نہ ہی معاشرہ کو؛ ہاں ایک لطف ضرور ہے لیکن وہ بھی جزو وقتی سا۔

مضمون نگاری باقاعدہ ایک پیشہ، کریئر، اور مہارت بھی بن سکتی ہے۔ آپ کو عقلی و منطقی استدلال پر راغب کرے گی۔ ہمارے ملک اور معاشرے کے جو حالات جا رہے ہیں ان میں ہمیں ہمارے اجداد کے سنہری دور سے کوئی مشغلہ اپنانا چاہیے نہ کہ ”بہادر شاہی“ (یعنی بہادر شاہ ظفر کے ) دور سے۔ معاشرے میں لاتعداد، غیر علمی، اور بغیر جانچے ذاتی ججمنٹس پر مبنی تخلیقات کی وجہ سے ذوق کی تسکین کی بجائے ذوق کا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے خوشامدی یا غیر مخلص قاری ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اکثریت کا قلم میاں مٹھو ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ لکھنا عموماً ایک خداداد صلاحیت ہے اس لیے اس میں دماغی مشقت کم لگتی ہے اور اسی تسہیل کی وجہ سے ہم قلم کے سہل پسندانہ استعمال میں جتے رہتے ہیں یعنی تصورات کے بے لگام تذکرے۔ اس پر، جب یہ چیک رکھنے کی بھی فکر نہ رہے کہ جو ہم لکھ رہے ہیں ان خیالات کی معاشرے کو ضرورت ہے بھی کہ نہیں تو گویا ہمارے ذہن و قلم کو سات خون معاف ہو گئے۔ میرا نقطہ یہ نہیں کہ اکثریت برا لکھتی ہے بلکہ میں یہ حقیقت اجاگر کرنا چاہ رہا ہوں کہ اکثریت غیر ضروری اور غیر عملی لکھتی ہے۔

ہماری جس نگارش کی عمر و قدر ایک دو واہ واہ سے زیادہ نہ ہو، ہمیں اس کی تخلیق کم کر دینی چاہیے۔ ہمیں، بالخصوص موجودہ علمی و منطقی بحران کے پیش نظر، ایسی تحریروں کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے جن کی افادیت ہو۔ تخیل کے گھوڑے کو لطف پرستی کے جنگل سے پکڑ لا کر منطق کی زین لگام ڈالنا ہوگی۔ جمالیاتی فنون یعنی ادب وغیرہ کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن میری نظر میں ہم من گھڑت علاقے میں غیر ضروری حد تک بہت دور نکل آئے ہیں۔ جمالیاتی تسکین انسان کی طبعی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اس شغل کے بغیر ہم نہیں رہ سکتے، یہ تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔ چنانچہ میں لطف و تفریح کو خارج کرنے کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس کی صحت مند خوراک لینے کی بات کرتا ہوں۔ میرا نقطہ توازن ہے، تردید نہیں۔

اب میں تحریر کے دوسرے حصہ کی طرف آتا ہوں یعنی اس منطق و توازن کے اطلاق کا ثمر زیادہ سے زیادہ کس گروپ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلاشبہ شفاف ذہنی رویے کی ضرورت ہر درجہ پر ہے لیکن بچوں میں اس کی آبیاری نسبتاً زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان پودوں کو ابھی تناور ہونا ہے۔

مجھے آکسفورڈ میں ایک کورس/ٹریننگ کے دوران پرائمری تعلیم کے جہات کا بہتر طور پر اندازہ ہوا۔ بے شک ہائر ایجوکیشن کی اپنی اہمیت ہے لیکن ہائر سٹیج پر ریسرچ کرنے کے قابل جاندار پنیری پرائمری حصہ میں ہی کاشت کی جاتی ہے۔ میری ٹریننگ کا موضوع تھا کہ بچوں کو سوچنا کیسے سکھائیں۔ جیسے جیسے میں اس کورس کی گہرائی میں اترا مجھے احساس ہوا کہ علم و تحقیق میں انگلینڈ کے دماغ اور ماضی و مستقبل میں ان جیسے سب دماغ دنیا کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے حقدار ہیں۔

ہم نے ریاست اور اداروں کی سطح پر نو آبادیاتی نظام کی سب برائیاں چن چن کر اپنا لیں لیکن ان کانٹوں کے ساتھ جو پھل پھول تھے ان کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ استحصالی ہو کر بھی دنیا کی قیادت کر رہے ہیں اور ہم آزاد ہو کر بھی اپنی بقاء کی جنگ میں پڑ گئے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے صرف آبادی بڑھائی ہے، ذہن نہیں۔ زیادہ تر پوسٹ کالونیل قوموں کا یہی حال ہے۔ اپنے بچوں کو روایات نہیں، آزاد سوچنے والا ذہن دیں : ہم تک پہنچنے والے اصول، روایات، مذہب، فلسفہ وغیرہ پر تنقید، تائید، اور تردید کرنے میں اپنی اپروچ بچے پر حاوی نہ کریں۔

یقین کیجیے، عالمگیر سچائیوں کو اس ننھے چیلنج سے کوئی خطرہ نہیں، آپ بے فکر رہیں۔ تاہم اگر ہم اس عمل سے خائف ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ہمیں خود اپنے ورثہ پر اعتماد نہیں کہ یہ ڈائیلاگ کے سامنے کھڑا رہ بھی پائے گا کہ نہیں۔ ہاں بچے کے ذہن کو آزاد چھوڑنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس کی تربیت سے دستبردار ہی ہو جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فکری تربیت کے معاملہ میں اس سے detached رہیں۔ آپ کی ڈی ٹیچمنٹ کے علاوہ مکتب، اردگرد کا ماحول، اور روزمرہ رونما ہونے والے حقائق کے درمیان بچہ trial and error کے پراسیس سے ہوتا ہوا خود ہی صحیح سمت میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔

لیکن منطق اور تعقل ہی درست سمت کی پہچان کرا سکتے ہیں۔ آکسفورڈ میں میری ٹریننگ کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ اگر آپ بچے میں critical thinking پرورش پانے دیں تو وہ اس کے بدلے میں آپ کو شاندار creative thinking دکھائے گا۔ یہ عمل بظاہر وقت طلب ہے لیکن اس کا ثمر بھی دیرپا ہے۔ تب بچے کو کل پیش آنے والے مسائل کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے اور اپنے اردگرد لوگوں کے لیے بہترین انداز میں نہ صرف دستیاب ذہنی و مادی وسائل کو improvise کرنے کے قابل ہو گا بلکہ نئے وسائل تخلیق بھی کر سکے گا۔

آپ ترقی یافتہ قوموں اور پسماندہ ممالک کے بچوں کی سرگرمیوں اور خوداعتمادی کا موازنہ کر کے دیکھ لیں، آپ کا ذہن گواہی دے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے اور کس قسم کے پانی میں ہے۔ سوچیں، جب آج ہر بچہ منظم علمی تنقید اور تخلیق سے لیس ہو گا تو کل یہ کھیپ معاشرے کو کیسی تعمیری سمت میں موڑ دے گی! ہم والدین کو اپنے اصولوں اور روایات سے ذرا پیچھے ہٹ کر بچوں کی سوچ کو آزاد چھوڑنے کی ضرورت۔

تو اب یہ کیسے تعین کریں کہ ایک مخصوص تخلیق یا انتخاب معیاری ہے یا نہیں۔ اس کا تعین کرنا آسان ہے البتہ مشق کا متقاضی ہے : جب بھی کچھ لکھیں یا پڑھیں تو اس بات کی تسلی کریں کے اس تحریر سے عملی طور پر کیا ”مخصوص“ فائدہ ہو گا، اور اس فائدہ پر تخلیق یا مطالعہ کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ یعنی بات فائدہ مند ہو لیکن بے جا مکرر و متواتر ہو تب بھی اس میں پڑنے کا کوئی جواز نہیں۔ المختصر، مدنظر فائدہ بالکل غیر مبہم طریقہ سے پہلے خود کے سامنے بیان کریں۔ اگر آپ کو وہ مخصوص فائدہ قابل یقین اور غیر معمولی لگے تو اسے اپنی ذات میں داخل کریں ورنہ اس سے صرف نظر کریں۔

منظم اور مفید مطالعہ کیجیے۔ استدلالی قوٰی تیز کیجیے۔ تحقیق ذہن کی خوراک بنائیے، اور لطف صرف بقدر میٹھا (dessert) لیجیے۔

رانا محمد منیر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا محمد منیر

رانا محمد منیر اندروں ملک اور بیرون ملک انگریزی ادبیات اور لسانیات میں اعلیٰ تعلیم پا چکے ہیں۔ ان دنوں گوجرانوالہ کی گفٹ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rana-muhammad-munir has 2 posts and counting.See all posts by rana-muhammad-munir

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments