پروفیسر نصراللہ ملک: ایک منفرد، مقبول اور مختلف استاد


میں اُن کے جواب پر واقعی بے حد حیران تھا کہ یہ جواب بلاشبہ عمومی ردعمل سے یکسر مختلف تھا۔

عام طور پر، اگر اسکرین پر آنے کا معاملہ ہو تو ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دیر وہاں دکھائی دے (بلکہ حقیقت یہ کہ وہ اس بات کا طالب ہوتا ہے کہ صرف وہ ہی دکھائی دے) مگر ان کا مشورہ اس رجحان سے بالکل مختلف تھا۔ دراصل میں نے جب اُن سے یہ جاننا چاہا کہ سماجی امور پر مشتمل اُن کےٹاک شو کا پچیس منٹ دورانیہ، کہیں کم تو نہیں۔ کیا اسے پچاس منٹ کرا لیا جاۓ ؟ اُنھوں نے خلاف توقع اس اضافے کی تائید نہ کرتے ہوۓ بڑی دلچسپ اور فکرانگیز دلیل دی۔

کہا، پروگرام میں کی جانے والی گفتگو اور گفتگو کے معیار پر ، دورانیہ کےاس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اظہار خیال کرنے والے، کوئی نئی بات یا نیا پہلو اجاگر کرنے کے بجاۓ اپنی پچیس منٹ والی بات کو پچاس منٹ میں پھیلا دیں گے۔

میرے چہرے پر موجود حیرت کو جانچتے ہوۓ، اُنھوں نے اس بات کی وضاحت میں اپنی منطق پیش کرتے ہوۓ، ایک بہت مختلف اور منفرد بات کہی “پاکستانیوں کو ( عام طور پر)، اس بات کا قطعی نہیں پتہ، کہ دوران گفتگو، اُنھوں نے، کیا، نہیں، کہنا ہے، اسی لۓ وہ، نئے پہلو، نئے امکانات اور مختلف نکات کی جستجو کی بہ جاۓ، دہرائی ہوئی باتوں کو دہرانے کو ہی باعث اطمینان سمجھتے ہیں۔”

یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اتنی مختلف، منفرد اور دریا کو کوُزے میں بند کرنے والی بات، ہر کوئی نہیں کر سکتا، ایسی بات کرنے والی شخصیت یقینا” خود بھی اتنی ہی منفرد خصوصیات کی حامل رہی ہوگی۔

اپنے حوالے سے اُن کا دلچسپ مشاہدہ تھا کہ اُن کی زندگی کے فیصلے اُنھوں نے خود نہیں کیے بلکہ یہ مرحلے مقدر نے طے کۓ۔ وہ تعلیم ہو، پیشہ ہو یا باقی معاملات، خود بہ خود حالات مخصوص ڈگر پر لے جاتے گۓ اور زندگی، اپنی شکل بناتی چلی گئی۔

انگریزی زبان و ادب سے گہری دلچسپی کی وجہ سے، دوران طالب علمی اُن کا انتخاب سابق وزیر اعظم فیروز خان نون کی اہلیہ وقار lلنسا نون کو مذہبی کتب، انگریزی میں سنانے کے لۓ کیا گیا، جن کا تعلق آسٹریا سے تھا۔ اس خصوصی ذمہ داری کے تنتجے میں بیگم صاحبہ نے ایک موقع پر خواہش کی کہ کسی طرح اس نوجوان طالب علم کی بہتری کے لۓ کچھ کیا جاۓ۔ انھوں نے گورڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل سے رابطہ کر کے اس نوجوان کے لۓ تدریس کے شعبے میں گنجائش نکالنے کے لۓ کہا۔

تب گارڈن کالج میں تعینات پرنسپل بھی انگلینڈ سے یہ ذمہ داری نبھانے یہاں آۓ ہوۓ تھے۔ بیگم صاحبہ کی ہدایت پر جب یہ کالج پہنچے تو تقدیر اُن کے لۓ ایک ایسے مختلف راستے کا طے کر چکی تھی جس کا اُنھوں نے شاید کبھی نہ سوچا تھا۔

پرنسپل نے تعلیم کے حوالے سے جب یہ جاننا چاہا کہ کیا وہ ماسٹر کر چکے ہیں۔ جواب نفی میں پاکر اُنھیں بتایا گیا کہ اس صورت میں وہ سر دست ٹیچر نہیں، ڈیمو نسٹریٹر ہو سکتے ہیں۔ ہاں اُنھیں یہ ضرور باور کرایا گیا کہ اس دوران تعلیمی قابلیت میں اضافہ، اُنھیں ٹیچر کے منصب تک پہنچا جا سکتا ہے۔

اب سوال یہ تھا کہ وہ کس مضمون میں ماسٹر کرنے کے خواہاں ہیں۔ پرنسپل کے اس سوال کا جواب دینے میں اُنھیں قطعی ہچکچاہٹ نہ ہوئی کہ وہ ہمیشہ سے یہ ارادہ باندھے بیٹھے تھے کہ اپنی رواں انگریزی کے سبب، اس سے اچھا مضمون بھلا کون سا ہوسکتا ہے جس کو مزید حصول تعلیم کے لۓ ترجیح دی جاۓ۔ اُنھوں نے اپنی اسی خواہش کا برجستہ اور برملا اظہار کیا۔

پرنسپل کا جواب اُن کی توقع سے الگ بھی تھا اور اُن کے کیریر کے لۓ فیصلہ کُن بھی !

پرنسپل نے نہایت شائستگی سے اُن کے اس رجحان سے اختلاف راۓ کرتے ہوۓ مشورہ دیا کہ تمہارا ملک آزاد ہوۓ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ آنے والے کل، نئی نسل تک یہ پس منظر کون پہنچاۓ گا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جو آزادی کے مطالبے تک لے آئیں۔ اس دلیل کے ساتھ، پرنسپل کی راۓ تھی کہ تاریخ کا مضمون، اس موقع پر، اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے لۓ موزوں اور کارآمد چناؤ ہو گا۔

انگریزی زبان و ادب کے ساتھ قدم بڑھانے (اور ساتھ نبھانے) کی دیرینہ خواہش، اس دلیل کے آگے کہاں ٹھہر سکتی تھی، سو تقدیر نے پہلے، شعبہ تدریس کا انتخاب کیا اور پھر اس تدریس کے لۓ، مخصوص سمت کا تعین بھی کر دیا۔

ادب (اور فنون لطیفہ) سے پیشہ ورانہ دوری، شائد ابتداً اُن کی حوصلہ شکنی کا سبب ہوا ہو مگر اُن کے مزاج اور کیریر کو دیکھتے ہوۓ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالات کے طے کیے گئے راستے کی یہ زبردست تبدیلی بھی اُن کے ادبی جھکاؤ اور فنون لطیفہ سے لگاؤ کو قطعی متاثر نہ کر سکی، یہی وجہ ہے کہ تاریخ سے جڑنے کے بعد بھی، وہ خود کو آج اور آج کے ادبی اور تخلیقی رجحانات سے علیحدہ نہ کرسکے۔ صرف یہی نہیں، اس تجربے اور مشاہدے کو نئی نسل میں منتقل کرنا بھی اُن کے مشن کا حصہ رہا۔

گارڈن کالج کا جوبلی ہال اور طالب علموں میں اُن کی بے پناہ مقبولیت، اُن کی تخلیقی صلاحیتوں اور شخصی خاصیتوں کی ہمیشہ گواہی دیں گے۔

وہ جوبلی ہال، جہاں کبھی بر صغیر کے نامور فنکار بلراج ساہنی اور شیام اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے تھے، وہاں اُنھوں نےغیر نصابی سرگرمیوں کے توسط سے اور ڈرامیٹک کلب کے ذریعے، ذہنوں کی فکری تربیت کا سلسلہ زوروشور سے جاری رکھا اور ان گنت نوجوانوں کے ہنر کو اجاگر کرنے، اسے منظر عام پر لانے اور اسے (جی بھر کے) نکھارنے میں، ایسی شفقت (اور مہارت) کے ساتھ رہنمائی کی، جو بالاخر عملی زندگی میں اُن نوجوانوں کو ممتاز بنانے میں نہایت موثر ثابت ہوئی۔

یہ فہرست راحت کاظمی سے لے کر شجاعت ہاشمی تک متعدد روشن چہروں سے فروزاں ہے۔ یہاں اس بارے میں پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ دو باتیں اگر یکجا ہوں، ایک یہ کہ گورڈن کالج سے (ساٹھ اور ستر کی دہائی سے) فارغ اتحصیل اور دوسری یہ کہ فنون لطیفہ سے تعلق، پھر ایسی مثالیں کم ہی ہوں گی جو یہ اقرار نہ کر سکیں کہ اس سمت سرپرستی کس کی تھی۔

درحقیقت، وہ، اساتذہ کی اس قبیل سے تھے جو صرف اپنے کلاس میں حاضر ہونے والے طالب علموں کے استاد نہیں ہوتے، بلکہ اُنھیں درس گاہ کا ہر فرد اپنا استاد اور اپنا بہی خواہ سمجھتا ہے اور اُن کی باتیں سننے، اُن سے مشورہ کرنے اور اُن کی موجودگی کو محسوس کرنے کے لۓ، ہمہ وقت اُن کی محفل کے لۓ خود کو آمادہ پاتا ہے۔

طلبہ میں مقبولیت کی یہ سطح حاصل کرنے کے باوجود، وہ نہایت سادگی (اور سادہ لوحی) کے ساتھ، اسے اپنی کسی علمی قابلیت اور شخصی جاذبیت کا نتیجہ قرار نہیں دیتے، بلکہ یہ ساری صورت حال بھی، اُن کے نقطہ نظر سے، تقدیر کی کرشمہ سازی تھی جو طالب علموں سے اُنھیں اس قدر نزدیک لے آئی۔

وہ طالب علم بجا طور پر اپنی خوش قسمتی کا اندازہ نہیں کر سکتے جنہیں نصراللہ ملک کی صورت میں، استاد، دوست اور رہنما میسر آجاۓ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments