ہمارا امتناعی رویہ اور دبئی میں نیا سال


ایک خبر کے مطابق ملک میں نئے سال کی آمد پر ہجوم کے اکٹھا ہونے اور آتش بازی کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف دبئی میں خبروں کے مطابق اس دفعہ آتش بازی کا ریکارڈ بننے جا رہا ہے اور یہ صرف سماجی سرگرمی نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی بھی ہوگی ایک طرف ہم ملک میں سیاحت کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری جانب ہم اس طرح کے فیصلے بھی کرتے ہیں

سمجھ نہیں آتی ہمارے فیصلہ ساز کیوں انسانی جائز آزادیوں کو سلب کرنا چاہتے ہیں؟

جو خصوصیت انسان کو باقی مخلوقات سے منفرد بناتی ہے وہ اس کی اپنی مرضی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور انسانی آزادیوں پر قدغنیں لگانے والے سماج اور ریاستیں فکری طور پر اپاہج نسلیں پیدا کرتی ہیں، اس سب کی بنیادی وجہ تو مجھے یہی نظر آتی ہے کہ ہماری اشرافیہ خود تو یہ تمام سرگرمیاں کر لیتی ہے اور ملک کے باقی افراد کے لئے وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور انتہا پسند قوتوں کی خوشنودی کے حصول کے لئے خانہ پری کی حد تک اس طرح کے احکامات کو جاری کر دیا جاتا ہے اور اس پر خانہ پری کی حد تک عملدرآمد بھی کروا لیا جاتا ہے لیکن چوں کہ پالیسیاں عوامی خواہشات کے برعکس بنی ہوتی ہیں اس لیے ان پر عملدرآمد کروانا ناممکن ہوجاتا ہے

بھلا ندی کے پانی کو کتنی دیر روکا جاسکتا ہے؟
ہواؤں کے چلنے پر کیسے قدغن لگائی جا سکتی ہے؟
بلبل کے چہچہانے کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
بادل بننے اور بارش کو برسنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟
معاشرے کو زبردستی کا لبادہ چڑھانا پہلے بھی کامیاب نہیں رہا اور آگے بھی ناکام ہی رہے گا

نوجوان ہوں یا بزرگ سب کا اپنا کردار ہے، نوجوانوں کی انرجی اور بزرگوں کی دانش دونوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے

ہمارے بزرگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمانے کی بدلتی ساخت کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے نوجوان خود کو بزرگوں کی صحبت میں ”غیر آرام دہ“ یعنی uncomfortable محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح بزرگ بھی نوجوانوں میں خود کو ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت بغیر کسی ڈائریکشن کے بھاگ دوڑ کر رہی ہے اور بزرگ نوجوانوں کو کوس رہے ہیں

ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور انرجی سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنا ہے لیکن بدقسمتی سے نوجوانوں کے لئے نہ کوئی پلیٹ فارم ہے اور نہ ہی ہمارے بزرگ نوجوانوں پر بھروسا کرنے کو تیار ہیں اور سماج میں بے جا کی پابندیاں ہیں اور بے جا کی پابندیاں کبھی بھی اچھا شگون نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان سے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں

بقول حسن نثار کے زندگی کا حسن توازن میں ہے اور جیسے ہی ہم توازن کو خراب کریں گے زندگی بدصورت ہو جائے گی

ہمی چاہیے کہ ہم ندی کے پانی کو ایک خاص حد تک سٹور کریں اور اس سے بنجر زمین کو سیراب کریں حد سے زیادہ جب روکنے کی کوشش ہوگی تو ندی کا پانی تمام بند توڑ کر ہر طرف تباہی اور بربادی لائے گا

اس لیے سماج اور ریاست دونوں کو معاشرے سے جائز آزادیاں سلب کرنے سے گریز کرنا ہو گا کاش ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والے اس بات کو سمجھ جائیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments