وہ آئیں گھر میں ہمارے


آسٹریلیا میں کوئی تقریب منعقد کرنی ہو تو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں مدعوین کا انتخاب اور مہمانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا سب سے مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر تقریب کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ ہر شخص ہر تقریب کے لئے موزوں نہیں ہوتا یا ہر تقریب ہر شخص کے لئے ایک جیسی دلچسپی کی حامل نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر تقریب کی اپنی گنجائش ہوتی ہے۔ اسی حساب سے نشستوں اور اشیائے خورد و نوش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ تقریب میں اگر گنجائش سے زیادہ لوگ آ جائیں تو اضافی نشستوں اور اضافی کھانے کا ہنگامی بندوبست کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر مقررہ تعداد سے کم لوگ آئیں تو بھی میزبان کو بہرحال پوری ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ دونوں صورتیں میزبان کے لئے آئیڈیل نہیں ہوتیں اور ان سے تقریب کا مزہ کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔

اگر مہمان مقامی آسٹریلین ہوں تو یہ مشکل پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ آنے یا نہ آنے کے بارے میں بر وقت مطلع کر دیتے ہیں۔ اگر آنے کا وعدہ کریں تو وقت پر آ بھی جاتے ہیں۔ دوسری جانب اگر مہمان پاکستانی یا ہندوستانی ہوں تووہ آخری دن تک دعوت کا جواب دینا گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا یہ مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ آئیں گے نہیں۔ ان میں سے بہت سے احباب آخری لمحات میں سرپرائز انٹری دیں گے یا عین دوران تقریب فون کر کے معذرت کر لیں گے۔ جب آپ مہمانوں کے استقبال میں مصروف ہوں گے اسی وقت دھڑا دھڑا فون آ نا شروع ہو جائیں گے۔ اس وقت یہ احباب فون پر منجھلے بیٹے کے فٹ بال ٹورنامنٹ کی کہانی سنانا شروع کر دیں گے۔

اس طرح میزبان کو آخری دن تک مہمانوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں ہوتا اور سارا انتظام اندازے پر مبنی ہوتا ہے۔ جن احباب کو بمع فیملی یا بمع شریک حیات مدعو کیا گیا ہوتا ہے ان کے بروقت جواب نہ دینے سے مشکل مزید بڑھتی ہے کیونکہ آخری دن وہ اکیلے بھی آسکتے ہیں اور اہلیہ اور چار بچوں کو بھی لا سکتے ہیں۔

سارے پاکستانی یا سارے بھارتی ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ نہایت منظم اور وقت کے پابند بھی ہوتے ہیں۔ ہماری کیمونٹی کی تقریبات میں ان کی سزا یہ ہوتی ہے کہ وہ وقت پر آ کر گھنٹوں انتظار اور بوریت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ تاخیر سے آنے والوں کی وجہ سے تقریبات ہمیشہ تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ تاخیر منٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے اور با جماعت ہوتی ہے۔ مثلاً تقریب کا وقت چھ بجے کا ہے تو احباب آٹھ بجے تشریف لائیں گے اور اپنے جاننے والوں کو بھی فون کر کے یہی کہیں گے آٹھ بجے ہی آئیں۔ اسے با جماعت تاخیر کہتے ہیں۔

یہ وقت میزبان کے لئے بہت کڑا ہوتا ہے۔ وہ وقت پر آ جانے والے مہمانوں کے سامنے شرمندہ شرمندہ سا پھر رہا ہوتا ہے۔ بار بار گھڑی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اگر پابندی وقت کے حامل مہمان آسٹریلین ہوں تو مشکل اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ یہ لوگ تقریب کا آغاز ناؤ نوش سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جبکہ ہماری پارٹیوں میں انہیں یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے ہاتھ میں کوک یا جوس کا گلاس ہوتا ہے، میزبان کی طرف سوالیہ نظریں ہوتی ہیں اور پیٹ پر ہاتھ ہاتھ پھیر پھیر کر چمکی ہوئی بھوک کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ایسے میں میزبان کی آنکھوں میں بے بسی تحریر ہوتی ہے۔ ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ ہوتا ہے اور دل میں یہ عہد ہوتا ہے کہ آئندہ یا تو آسٹریلین مہمانوں کو بلاؤں گا یا دیسی مہمانوں کو ۔ دونوں کو اکٹھا نہیں کروں گا۔

آج کل زیادہ تر دعوتیں موبائل فون پر پیغام کی صورت میں دی جاتی ہیں۔ جن کا جواب نہایت آسان ہے۔ صرف یہ ہے کہ موبائل فون خود جواب نہیں دیتا جب تک کہ فون کا مالک یہ تردد نہ کرے۔ اور مالک ماشا االلہ خود مختار اور آزاد قوم کا آزاد فرد ہوتا ہے۔ وہ جو اب دینے کی پابندی کیسے قبول کیسے کر سکتا ہے۔ دوسری جانب جن احباب نے جوابی پیغام کے ذریعے دعوت قبول کرنے اور بروقت آنے کی اطلاع دی ہوتی ہے ان کو بھی آخری لمحات میں سرکاری ملازمین والا ”نہایت ضروری کام“ پڑ سکتا ہے۔ کنفرم کرنے کے بعد نہ آنے والے یہ حضرات یا تو بتانا ضروری نہیں سمجھتے یا پھر اس وقت بتاتے ہیں جب تقریب شروع ہو چکی ہوتی ہے۔

جن خواتین و حضرات نے پارٹی میں شرکت نہیں کرنی ہوتی وہ جواب نہ دینا کافی سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ اس وجہ سے جواب نہیں دیتے کہ جا تو رہا ہوں، بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے میں میزبان کو اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ کنفرم کر کے نہ آنے والے کتنے ہوں گے اور جو جواب دیے بغیر آسکتے ہیں، وہ اندازہ کتنے ہوں گے۔ جن دوستوں کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی فطرت کو سمجھتے ہیں ان کے بارے میں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بقیہ کا آخر تک پتا نہیں چلتا۔ ان کے بارے میں اللہ جانتا ہے یا وہ خود جانتے ہیں۔

ایک دوست نے ایک ریستوران میں ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمانوں کے لئے عشائیے کا بھی بندوبست کیا۔ انہوں نے احباب کو شریک حیات سمیت دعوت دیتے ہوئے واضح لکھا کہ فلاں تاریخ تک آنے یا نہ آنے کی اطلاع دے دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ کتنے افراد شرکت کریں گے۔ مقصد یہ جاننا مقصود تھا کہ اکیلے آرہے ہیں یا گھر والی کے ساتھ قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ تاکہ اسی مناسبت سے خور دو نشست کا بندوبست کیا جائے۔

انہوں نے اسی (80) افراد کی بکنگ کرائی اور تقریباً سو لوگوں کو دعوت دی تاکہ جو لوگ نہیں آسکتے ان کا کورم پورا رہے۔ ان کے دعوت نامے کا جواب بروقت صرف تیس لوگوں نے دیا۔ لہذا انہوں نے احتیاط پچاس ساٹھ مزید افراد کو مدعو کر لیا کہ تقریب والے دن کرسیاں خالی نہ نظر آئیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لکھا جائے کہ کل کتنے افراد نے شرکت کی، دعوت نامے کہ کچھ جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

ایک قابل احترام بزرگ نے یوں جواب لکھا ”اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و براکاتہ! آپ کی دعوت کی بے حد شکریہ۔ اس تقریب میں شرکت میرے لئے باعث صد افتخار ہو گی اور میں انشا االلہ بر وقت حاضر ہو جاؤں گا“

ایسے مشرف بہ اسلام پیغام پر کون کافر یقین نہیں کرے گا۔ میزبان نے اس بزرگ کے مناسب استقبال کی تیاری کرلی۔ لیکن ہوا یہ کہ بہ روز تقریب نہ تو وہ بزرگ آئے اور نہ ہی ان کا کوئی پیام آیا۔

ایک اور مذہبی اور سماجی شخصیت نے لکھا ”تقریب کی مبارک باد! ویسے تو ادبی تقریبات گمراہ لوگوں کا اجتماع ہوتی ہیں۔ چونکہ ناچیز خود بھی اس گمراہی میں مبتلا ہے اس لئے اس تقریب میں شرکت میرے لئے باعث مسرت ہو گی اور میں ضرور حاضر ہوں گا“

ایسے ادب دوست پیغام پر یقین نہ کرنا مشکل تھا۔ لیکن اس یقین کو اس وقت دھچکا لگا جب یہ بزرگ بھی عین وقت پر گمراہی سے تائب ہو گئے اور کنفرم کرنے کے بعد نہیں آئے۔ میزبان کی زبان پر اس وقت یہی مصرعہ آیا کہ، غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔

میزبان نے ایک قریبی دوست کو فون کیا اور دریافت کیا ”میں نے آپ کو دعوت نامہ بھیجا تھا۔ آپ نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا“

دوست نے کہا ”جب آ رہا ہوں تو جواب دینے کیا ضرورت تھی“

اس سادگی پہ کون مر نہ جائے۔ اس جواب سے ظاہر تھا کہ انہوں نے پورا پیغام پڑھا ہی نہیں۔ اور اگر پڑھا ہے تو ان کی خاموشی کو نیم نہیں پوری رضامندی تصور کیا جائے۔ کم عقل میزبان یہ بات سمجھا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ سارا معاملہ ہی قیافہ شناسی اور اندازے کی درستگی کا تھا۔ اس میزبان کا قیافہ بھی جنرل مشرف کی طرح کا تھا جو پاکستان آیا تو نمازیں بخشوانے تھا الٹا روزے گلے پڑ گئے۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ دوسرے احباب کی خاموشی کا بھی یہی مقصد ضروری نہیں تھا۔ ان کی خاموشی کا مقصد اس کے برعکس بھی ہو سکتا تھا۔

ایک اور دوست نے یوں جواب دیا ”invitation accepted“ یعنی ”دعوت قبول ہے“

اس مختصر ترین جواب سے کچھ بھی اخذ کیجئے۔ مثلاً لکھنے والا بہت جلدی میں ہے یا حالت غضب میں ہے یا آپ کی دعوت سے خوش نہیں ہے یا پھر الفاظ کے ضیاع کو گناہ سمجھتا ہے۔ ان دو الفاظ سے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ وہ اکیلے آئیں گے یا ان کے ہمراہ کوئی اور بھی ہو گا۔ بیٹھیے، سوچیے، اندازہ لگائیے اور استقبال کی تیاری کیجیے۔

دعوت کے جواب میں ایک نازک مزاج دوست نے لکھا ”آپ کے پیغام میں وضاحت نہیں ہے۔ بہرحال ہمارے خاندان میں، میری بیوی، پانچ بچے، دو بہوئیں، دو داماد اور میرے چار پوتے اور نواسے شامل ہیں۔ اگرچہ ہم اکٹھے نہیں رہتے لیکن جب فیملی کی دعوت ہوتی ہے تو ہر جگہ اکٹھے ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ ہماری میزبانی کے لئے تیا ر ہیں؟“

میزبان دوست کی نازک مزاجی سے خائف تھا۔ اس نے جواب دیا ”آپ پوری فیملی سمیت تشریف لائیں“

یہ دوست اکیلے نہیں تھے جو چھوٹے بچوں کو ساتھ لائے۔ اور بھی بہت سے دوست یہ رونق اپنے ہمراہ لے کر آئے۔ احباب کی ذرہ نوازی، دوست نوازی اور اچانک جاگ اٹھنے والی ادب نوازی سے دعوت کے روز جہاں اسی افراد کی توقع تھی وہاں ڈیڑھ سو مہمان آ گئے۔ ہال کم پڑ گیا۔ کھینچ تان کر نشستوں کا بندوبست کیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو ریسٹورانٹ والوں کا جنہوں نے کھانا کم پڑنے نہیں دیا۔ ورنہ یہ تقریب غزل اور نظم کے بجائے بدنظم ہو جاتی۔ جوں جوں مہمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی توں توں میزبان کے ذہن میں آ رہا تھا: وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

ہم کبھی ان کو کبھی اپنے بجٹ کو دیکھتے ہیں

شاعر اور ادیب جو سنجیدہ اور بالغ حاضرین کی توقع کر رہے تھے، ماؤں اور بچوں کے شور سے ہراساں نظر آ رہے تھے۔ وہ سوالیہ نظروں سے میزبان کو دیکھتے جس سے ان کا دیکھنا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ اس وقت تو غضب ہی ہو گیا۔ جب ایک شاعر کلام سنا رہا تھا۔ جونہی اس نے مطلع سنایا بچوں والی میز سے ایک خاتون کی آواز آئی۔ چپ کر بے شرم! شاعر ہراساں ہو کر خاموش ہو گیا۔ اس بات کا آج تک علم نہیں ہوا کہ اس خاتون نے یہ الفاظ اپنے بچے کو کہے تھے یا پھر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments