معیشت کی زبوں حالی اور قومی سلامتی کی پیوند کاری


رواں ہفتہ  پاکستان کی  تاریخ میں معاشی خود مختاری کے لیے معرکة الآرا حیثیت کا حامل رہے گا۔ پاکستان کی معاشی خود مختاری کو مستقل طور عالمی مالیاتی ادارے کے رہین منّت کرنے کا منصوبہ پا یہ تکمیل کو پہنچنے کے آخری مراحل میں ہے۔ بظا ہر موجودہ ریاستی انتظام اور اس کے سہولت کار منصوبہ سازوں کے کا سہ لیس اور سہولت کار ہیں۔ اور اب اس کی تکمیل کی راہ میں کوئی بڑ ی رکاوٹ بھی نظر نہیں آ رہی۔
 عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام کے کامیا ب نفاذ کی طرف ایک اہم سنگ میل عبور ہوا ہے۔ قومی مرکزی بینک کو مکمّل طور عالمی مالیاتی ادارے کی عملداری میں دینے کا بل تبدیلی سرکار کی کابینہ نے پاس کر لیا ہے۔ اور تین سو ساٹھ ارب کے اضافی ٹیکسز کے منی بجٹ پر تا دم تحریر مخمصہ کی کفیت ہے. لیکن کوئلے کی دلالی میں سب کا منہ کالا کے مصدا ق کابینہ پاس بھی کرے گی اور نتیجتاً عوامی غیض و غضب کا خراج بھی سمیٹے گی کیوں کہ چارہ کوئی نہیں۔ اس کے بعد یہ دونو ں بل پارلیمان کی نظر التفات کے بعد نافذ العمل ہو جائیں گے۔
مرکزی بینک اب سے مکمل عالمی مالیاتی ادارے کی عملداری میں ہو گا۔ مرکزی بینک کا گورنر ریاست پاکستان کے قانون سے بالاتر ہو گا۔ کسی بھی قسم کا ریاستی احتساب اب مرکزی بینک اور اس کے گورنر پر نافذ العمل نہیں ہو گا۔ حکومت پاکستان اب ا پنے مرکزی بینک سے مزید کوئی قرض حاصل نہیں کر سکے گی۔ بلکہ مزید کوئی پیسہ بھی نہیں نکلوا سکے گی۔ اب مرکزی بینک کمرشل بنکوں کو قرض دے گا اور ریاست پاکستان ان بنکوں سے ان کی شرایط پر قرض لے پاے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مرکزی بینک انٹر بینک آ فر ریٹ پر کمرشل بینک کو قرض دے گا اور یہ بینک اپنا منافع اس میں شامل کر کے لگ بھگ پہلے سے دوگنی شرحِ سود پر ریاست پاکستان کو قرض دیں گے۔
تین سو سا ٹھ ارب کے اضافی ٹیکس کے ساتھ تین سو پچاس ارب اضافی  پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں، لگ بھگ تین سو ارب سبسڈی کی واپسی اور قریباً اتنی ہی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کے لیے منی بجٹ تیار ہے جس کی زد پہ غریب اور درماندہ عوام ہیں۔ یہ تین سو سا ٹھ ارب غریب عوام کی جیب سے ناگزیر ہیں. لیکن تبدیلی سرکار سوا تین سال میں قوم کے لگ بھگ اٹھائیس ہزار ارب روپے مجموعی قومی پیداوار میں کمی. روپے کی بے قدری اور اضافی قرض کی مد میں اڑا چکی. لگ بھگ ایک ہزار ارب آٹے. چینی. گندم اور مہنگی ادویات بحرانوں میں بدانتظامی اور بد عنوانی کی نذر ہو گئے. تقریباً تین سو ارب کرونا امدادی فنڈ میں بے ضابطگیوں اور بد عنوانی کی نظر ہوے. پا نچ سو ارب درآمدی گیس اور اس سے منسلک انفراسٹرکچر میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانی میں غارت ہوے.  راولپنڈی رنگ روڈ میں قوم کے ایک سو تیس ارب برباد ہوے. قومی ایئر لائن کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اربوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ دیوالیہ کیا گیا. اس کی ملکیت میں نیو یارک کی مہنگی ترین جگہ پر موجود روزویلٹ ہوٹل کو تا لے لگا دے گئے. بلین ٹری سونامی. اربوں کی بے ضابطگیوں کا شاخسانہ بنا. پشاور ریپڈ بس منصوبہ بد انتظامی اور بدعنوانی میں قوم کے لگ بھگ اسی ارب ہڑپ گیا لیکن معیشت کی تباہی کی ذمّہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ بدعنوان اور ملک کی بربادی کے ذمے دار سابقہ حکمران ہیں۔
 خان صاحب نے آج فرمایا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے قرض لے کر ہمیں غلام قوم بنا دیا ہے۔ پاکستان کا کل قرض اس وقت پچاس ہزار ارب روپے ہے جس میں خان صاحب کی حکومت نے اکیس ہزار ارب کا قرضہ لیا ہے اور پچھلی ساری حکومتوں نے انتیس ہزار ارب۔ اس سے چند روز پہلے آپ نے فرمایا تھا کہ معیشت کو بڑی مشکل سے پٹڑ ی پر ڈالتے ہیں اور پھر ڈالر اوپر چلا جاتا ہے اور پھر جن بے قابو۔ پاکستان کی معیشت بھی مفلس کی قبا ٹھہری. رفو گر کر ے تو کیا کرے۔ جیسے فیض نے کہا تھا “زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں۔ ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں “
معیشت کی زوال پذیری اور زبوں حالی کے ہنگام قومی سلامتی کی پیوند کاری کا گوہر نایاب تراشا گیا ہے۔ حزب اختلاف نے قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمان کے سامنے پیش نہ کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے. اور پارلیمان کی منظوری کے بغیر اسے ایک بے وقعت کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا ہے۔ پھر پالیسی کی منظوری کے لیے قومی سلامتی کمیٹی سے منظوری اور اعلان کے باوجود تفصیلات کا منظر عام پر نہ آنا یا نہ لایا جانا سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس پہ مستزاد. مسند خلافت پہ جلوہ گر خان صاحب کا فرمان کہ قومی سلامتی کی پالیسی سے معاشی ترقی کا گوہر مراد کشید کر عوام تک اس کے ثمرات پہنچا ے جائیں گے۔ اور قومی سلامتی پالیسی کے نتائج سے حاصل شدہ فوائد کو عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لائیں گے۔ یہ قومی سلامتی پالیسی پانچ سالہ ہو گی جس کا دورانیہ بعد میں دس سال بھی کیا جا سکے گا۔ مرزا غالب نے فرمایا تھا “آہ کو چاہے اک عمر اثر ہونے تک۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک “
محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments