پدرشاہی! مادر ملکہ کے بغیر ممکن نہیں


مرد اپنے آپ کو گھر کا بادشاہ سمجھے یا شہزادہ مگر ماں کے بغیر کسی کھاتے کا نہیں۔ ماں ایک عورت ہی نہیں گھر کی ملکہ ہے، اس کے کردار سے انکار اور اس کا جائز مقام دیے بغیر دینا و آخرت میں سرخرو ہونا ممکن نہیں۔

اگر مرد اپنی سوچ بدلنے سے غافل ہے تو ماں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوتاہی ضرور کر رہی ہے۔ ہر مرد کی تربیت کسی ماں نے ہی تو کی ہوتی ہے۔ اگر اس کی تربیت میں کم رہ گئی ہے تو ماں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ کہاں اس سے غلطی ہوئی ہے۔

مرد اور عورت کی حیاتیاتی عوامل کا فرق اپنی جگہ، فرائض اور ذمہ داریاں اپنی جگہ، مگر ان کے احساس تو ایک جیسے ہی ہیں۔ محد سے لے کر لحد تک ہم نے جو اپنی سوچوں کی بنیاد پر غیر مساویانہ تفریق ڈالی ہوئی ہے ہماری معاشرتی کارکردگی ہے جس میں مرد و عورت دونوں قصور وار ہیں۔

جو امتیازی سلوک ہم نے جینڈر کے نام پر روا رکھا ہوا ہے اس کو درست کیے بغیر مستحکم معاشرہ تشکیل دینا ممکن ہی نہیں۔ جب معاشرے کی آدھی آبادی کو ترقی کے عمل کا حصہ ہی نہ بنایا جائے یا ان کی کارکردگی کو تسلیم ہی نہ کیا یا سراہا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم نے آدھے حصہ کو مفلوج کیا ہوا ہے، تو ایسے میں معاشرے کے ترقیاتی عمل کو پوری طرح سے موثر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔

ہمیں سب سے پہلے تو معاشرے کے اندر مرد اور خاص کر عورت کے کردار اور اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔

عورت ہی مرد کو طاقتور بناتی ہے۔ اور مرد کی تمام تر طاقتوں کی رعنائی عورت ہی کے وجود سے ہے۔ اور دونوں کی طاقت مل کر وہ طوفان برپا کرتی ہے جو انسانیت کی بقاء کو دوام بخشتا ہے۔

عورت : ماں ہے تو دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ ہے، اسی نے تو ہمیں چلنا، بولنا، مسکرانا، دکھ بانٹنا سکھایا، کیا نہیں سکھایا، قربانی کیا ہوتی ہے کا عملی نمونہ پیش کیا، شفقت کا احساس دیا۔ تب ہی تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، اس نے جنت کی مالک بننے کا پہلے حق ادا کیا پھر یہ اختیار ملا جس کو اپنی اولاد پر نچھاور کر دیا

عورت : بیوی ہو تو سب سے بڑی رازداں، عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں، کوئی بات بھی ایک دوسرے سے مخفی نہیں ہوتی، بیوی مرد کی ہر کمزوری کو طاقت بنا دیتی ہے اگر اس کو اعتماد دیا جائے تو۔

عورت : بیٹی ہو تو حیا بن جاتی ہے، حیا ہی دنیا کا بہترین تہذیب و تمدن ہے، دنیا کی سب سے اعلیٰ ترین شخصیت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر حیاء نہیں تو جو دل ہے کرتے پھرو، جس کا مطلب ہے کہ حیا ہی انسان کو دوسروں کی نظروں میں عزت والا بناتی ہے۔ جب گھر میں بیٹی ہو تو دوسروں کی بیٹیوں کی قدر سمجھ میں آتی ہے۔

تو معلوم ہوا کہ مرد کی طاقت کی اصل منبع عورت ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ معاشرے اور قوموں کی طاقت کا منبع عورت ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی! کہا جاتا ہے کہ استاد قوموں کے معمار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر دنیا کے استادوں میں آدھی عورتیں ہیں اور پھر عورت تو استادوں کی بھی استاد ہے۔ ہر بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر سکولوں کا ماحول بھی وہ تربیت نہیں کر سکتا جو گھر کا ماحول کرتا ہے اور گھر کے ماحول کی روح رواں ایک ماں ہی تو ہوتی ہے۔ پھر گھر کی منتظم عورت، گھر کے سربراہ کی مشیر عورت، گھر کے تمام کے تمام افراد کی حکمران عورت۔ عورت ہی تو معاشروں اور قوموں کی اصل معمار ہوتی ہے۔

عورت اس دنیا کی خوبصورتی ہے اور خالق کائنات نے انسان کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر جاندار کے جوڑے بنائے ہیں، انسان کو بھی جوڑا بنایا اور ان کے درمیان ایک توازن رکھا ہے۔ جس میں طبی، طبعی توازن سے لے کر ضروریات اور ذمہ داریوں تک کو ایک توازن دیا ہے۔ عورت اور مرد میں سے کوئی بھی کم یا بر تر نہیں بلکہ اپنی اپنی خصوصیات اور ذمہ داریاں ہیں۔ یہ کم تری یا برتری کا تصور ہماری سوچوں کا انداز ہے جس نے ہمارے اندر اس چیز کا احساس پیدا کیا اور پھر ہم نے اس کی بنیاد پر اپنے رہن سہن اور معاملات کو طے کر لیا۔ مختصراً انسان کا وجود جوڑے کے بغیر ادھورا ہے۔ عورت اور مرد کے لازم و ملزوم ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ ادھوری شے کبھی پورا فعل ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔

عورت اور مرد کے درمیان جو قدرتی توازن خالق نے رکھا ہے اس کو ہم نے جب اپنی سوچوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو پھر اختلافات، خدشات اور تنازعات وجود میں آئے۔

مرد اور عورت دونوں کی آزاد حیثیت نے ان کو رشتوں کے بندھن میں پرو دیا۔

دنیا کے سارے رشتے اعتماد پر قائم ہیں خواہ وہ خونی رشتے ہوں، احساسات کے رشتے ہوں یا کاروباری۔ اگر اعتماد ختم ہو جائے تو رشتوں کی اصل افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ جب تک باہمی افہام و تفہیم ہوتی ہے معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہتے ہیں۔ رشتے جہاں دعوے رکھتے ہیں وہاں قربانیاں بھی مانگتے ہیں۔

جب ہم رشتوں کے درمیاں توازن کو خراب کرتے ہیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

آج جو بھی ہو رہا ہے وہ ہمارے باہمی افہام و تفہیم کے بگاڑ کی وجہ سے ہے۔ جب ہم معاشرے میں مل جل کر رہ رہے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ ضروریات جڑی ہوئی ہوتی ہیں جن میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے آپس میں معاہدے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ معاہدے تحریری یا علانیہ ہوں بلکہ کچھ معاہدے علامتی مگر عملاً رائج ہوتے ہیں۔ اور ان پر عمل ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے مگر کبھی کبھار ہم ان سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاملات میں فرق آ جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے کچھ معاہدے ریاست، خاندان، معاشرے اور اقدار کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ جن کا خیال کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہوتا ہے جس کو ہم یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے معاشرے کے اندر اختلافات اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔

بعض دفعہ ہم اپنی خواہشات کو ان معاہدات پر فوقیت دینے لگتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی ان خواہشات کی بنیاد پر پوری جماعت کی نمائندگی کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ہماری شخصیت اور کردار مشکوک بن جاتا ہے اور پھر اس پر رد عمل معاشرے کے سکون کی خرابی کی وجہ بنتا ہے۔

کئی معاملات میں یہ توازن اس قدر خراب ہے کہ یہ عورت کے استحصال کی شکل اور جس کا نتیجہ ہمارے تعلقات کی خرابی کی صورت اختیار کر چکا ہے اور یہ خرابیاں کچھ تو انفرادی سطح پر ہیں اور کچھ اجتماعی نوعیت کی ہیں جو معاشروں پر بد نما دھبہ بن چکی ہیں۔ اور اس جدید، تقابلی اور مسابقتی دنیا میں اب ان حقوق کے لئے آوازیں اٹھائی جانے لگی ہیں اور ان حقوق کی خلاف ورزی ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ اب ہم ایک گلوبل حیثیت رکھنے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری سے کٹ کر نہیں رہ سکتے اور ہمارے افعال بین الاقوامی اثرات کے حامل ہیں لہذا ہمیں سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اپنے افعال کے ان اثرات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انسان سے غلطی بھی ہو جاتی ہے لیکن نقصان اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کو ماننے سے انکاری ہوتے ہیں یا اس پر مصر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، غلطی کو تسلیم کرنا بڑا پن ہے اور اس کو معاف کرنا اس سے بھی بڑا پن اور اس حقیقت کو سمجھ جانا دانش مندی کی علامت ہے۔

میں خود عورت کی خود مختاری اور حقوق کا دعویدار ہوں، اور یہ یوں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں نے جینڈر اینڈ ویمن سٹڈیز میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ صحت، قانون، سیاسیات اور حقوق بھی میرے پسندیدہ مضامیں ہیں جن کے بارے میری تعلیم ہے اور دینا کی ترقی یافتہ قوموں کی ٰثقافت کو قریب سے دیکھا ہے۔ اور اپنی سٹڈی اور تجربے کی بنیاد پر غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر معاشرے کے اندر مسائل موجود ہیں اور ان کی بنیاد ہر معاشرے کے اندر وجوہات موجود ہیں جو کئی معاشروں کے اندر مشترک ہیں اور بعض میں مختلف ہیں۔

اور ان وجوہات کے پیچھے ان کی ثقافت، لا علمی، لا قانونیت، مفادات اور بہت ساری دیگر وجوہات بھی شامل ہیں۔ تو ہمیں ہر معاشرے کا مکمل طور پر مطالعہ کرنے کے بعد ان کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اس میں متعلقہ معاشرے کی اقدار اور ثقافت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ مگر اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے کے اندر جو خرابیاں ہیں ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔ نہیں قطعاً نہیں مگر جب ان کو معاشرے کے اندر قبولیت ملی ہوئی ہوتی ہے تو ہمیں حکمت عملی اور اعتدال کے ساتھ ان کی بنیادی وجوہات کا پتہ لگا کر کوئی ایسا طریقہ کار اخذ کرنا ہوتا ہے جو معاشرے کے احساسات پر اثر رکھتا ہو چہ جائے کہ مسائل کو ختم کرنے کی بجائے ایک اور مسئلے کی بنیاد رکھ دی جائے۔

میں نے بین الاقوامی سطح کے کئی پروگرامز میں بھی شرکت کی ہے اور ان میں اپنے خیالات اور تجربات کی شراکت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ تو جہاں معاشرے کی ثقافت اور ہماری اقدار کی اچھی چیزوں کی حفاظت ضروری ہے وہاں معاشرتی برائیوں جن میں کس بھی جینڈر کا استحصال ہو رہا ہو کے بارے آواز اٹھانا بھی ہمارا فرض ہے۔ عورتیں چونکہ ہمارے معاشرے کے اندر کمزور حالت میں ہیں لہذا ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہمارا اجتماعی فرض ہے۔ تاکہ ہم اپنی اجتماعی اور حقیقی طاقت کو بحال کر سکیں۔ ان کو ان کا جائز حق دیں گے جو قدرت نے ان کو دیا ہے تب ہی ہماری طاقت مکمل ہوگی اور اگر ہم اپنے آدھے حصے کو مفلوج کیے رکھیں گے تو کبھی بھی پوری طرح سے توانا نہیں کہلا سکتے۔

کچھ غلطیاں چھوٹا سا جز ہیں جن کا بہت گہرا تعلق نفسیات سے ہے اور جب ہم نفسیاتی طور پر توانا ہوتے ہیں تو جزیاتی توانائیاں خود بخود ہی امنڈ آتی ہیں۔ توانائیاں وہ ہی ہوتی ہیں جو ابھر کر آئیں اور جن کو نفسیاتی ہم آہنگی اور قبولیت بھی ملے جو صرف اور صرف توازن سے مشروط ہے اور یہ توازن دونوں طرف کی باہمی آہنگی سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

ہر چیز کی خوبصورتی اس کے ساتھ متعین حدود و قیود سے ہوتی ہے۔ جس کا مظہر انسان اور مخزن اس کی جبلت ہے۔ خوبصورتی اور دلکشی محسوسات کا نام ہے جس کا گہرا تعلق دیکھنے والے کی آنکھ اور سوچ سے ہے۔ مختلف اصطلاحات ہمارے اعمال کا بیان اور سوچ کی عکاس ہیں جسے بعض سوچوں اور تعصبات نے ہوا دی ہوئی ہے۔ بات سمجھنے کی ہے۔ سوچ کی کیفیت کو نشانہ بنانے یا اس پر تبصرہ کرنے کی بجائے پورے ماحول کو کوسنا قطعاً جائز نہیں اور یہ عمل بذات خود ایک منفی سوچ کا عکاس ہے۔

جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ کسی کی حق تلفی، وہ عورت ہو، مرد، بچہ یا حتیٰ کہ کوئی جاندار ہی ہو، ظلم ہے۔ مگر کچھ معاملات کا تعلق احساسات سے ہوتا ہے جو مرد عورت کے بارے یا عورت مرد کے بارے رکھتی ہے ان میں مقابلے کی سوچ موزوں نہیں ہے۔ مرد کے احساسات یا رویہ جو ماں، بیوی یا بیٹی کے لئے ہوتا ہے جسے عرف عام میں پدرشاہی کہہ دیا جاتا ہے، کے پیچھے سوچ اور احساس، بشرطیکہ اس میں امتیازی سلوک نہ پایا جائے، کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو فیمنزم کی اصل طاقت ہے۔

اور یہ سوچیں اور احساسات مختلف افراد، خاندانوں اور معاشروں میں مختلف ہوتے ہیں کہیں یہ پسندیدہ تو کہیں نا پسندیدہ ہوتے ہیں۔ میں پھر عرض کروں گا کہ میں یہاں کسی جرم یا کسی امتیازی سلوک کے تحفظ یا طرف داری کی بات نہیں کر رہا اور جہاں یہ جرم یا امتیازی سلوک کے زمرے میں آتے ہوں تو ان کی معاشرے میں قبولیت کی سوچ بھی اتنی ہی قابل تنقید اور گرفت ہے۔ آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ مرد ہو یا عورت کمزور اس وقت ہوتے ہے جب ان کے احساسات کو سہارا دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔

جہاں جہاں بھی امتیازی سلوک ہے اس کو ختم کرنے میں مرد اور خاص عورت کو سمجھنے اور اس کو ختم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments