ایمان امید اور محبت


Dr Shahid M shahid

تین چیزیں ابدیت کے لبادے میں لپٹے ہوئے اپنی عالمگیریت اور آفاقیت کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ پہلی ایمان دوسری امید اور تیسری محبت ہے۔ تینوں کامدار آسمان و زمین کی وسعتوں میں کھلتا ہے۔ اگر آپ انہیں تجرباتی اور مشاہداتی آنکھ سے دیکھنا چاہئیں تو یہ اپنے معیار اور اعتبار میں پر فضل درجے کی حامل ہیں۔ انہوں نے روز اول سے تاحال بنی آدم کی زندگی کا حصہ بن کر اس کا دامن خوشیوں سے بھرا ہے۔ نا آج تک اس مثلث کو زوال آیا اور نا اس نے اپنی تاریخ کو کھویا ہے۔ بلکہ یہ ہر دور میں روشن

ستاروں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے درجات اور فضائل نے یکسانیت کے پیمانے پیش کیے ہیں۔ جو ہر دور میں زندہ رہیں گے اور رہتی دنیا تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھیں گے اور ہر دور میں اپنی تاریخ دہراتے رہیں گے۔

ان تینوں کا بندھن ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی وابستگی اور پیوستگی شہ رگ کی طرح ہے جو اپنے بہاؤ اور کرامات میں معجزات کی کشش و تاثیر رکھتی ہے۔

اگر چہ ہمارے ایمان کی آنکھیں نہیں ہوتیں الغرض اس کی تصویر اور گہرائی آنکھ میں ضرور بن جاتی ہے۔ امید اس وقت تک زندہ رہتی ہے، جب تک سانس ساتھ دیتی ہیں۔ محبت تو ازلی اور ابدی ہے۔ اس کا دروازہ زمین کی چار سمتوں میں کھلتا ہے۔ انسان جس خاندان میں اپنی آنکھ کھولتا ہے اس کے والدین کے صلب سے ہی اسے ایمان مل جاتا ہے جو زندگی بھر اس کی ایمانی طاقت کا سہارا بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے۔

انسان فطرت کی خوبصورت مجسمہ سازی ہے جو کائنات کا حسن بھی ہے اور معاشرے کا حساس فرد بھی۔ جو پیدا ہونے سے لے کر موت تک اپنے ایمان پر قائم رہتا ہے۔

زندگی کے مختصر عرصے میں اس پر جو آزمائشیں ظلم و ستم ڈھاتی ہیں وہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ اپنے ایمان کے بل بوتے ان پر غالب بھی آتا ہے۔ سچی اور کھری باتیں اس کی زندگی کا حصہ بن کر اس کے ایمان کو روشنی بخشتی ہیں۔ جب تک اس کے اندر ایمان کا چراغ جلتا رہتا ہے اس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہے۔

یہ انسانی فضیلت کا خاصہ ہے کہ وہ کسی چیز کو قبول کرے یا رد کرے کیونکہ وہ اس کی فطرت کے ساتھ نتھی ہوتی ہے۔ ایمان اندرونی طاقت کا نام ہے جو انسان کو گرنے سے بچا تا ہے۔ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے تسلی اور تشفی دیتا ہے۔ اس کا ہاتھ تھام کر سہارا دیتا ہے۔ اس کے جسم و روح کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے گمراہی سے بچاتا ہے۔ نا ختم ہوتا ہے اور نا مرتا ہے بلکہ ثابت قدم رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جن چیزوں کا ہمیں ادراک نہیں ہوتا یا وہ چیزیں جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہیں۔ ہمارے ایمان کی آنکھیں انہیں تلاش کر لیتی ہیں۔ یہ صرف خدا اور انسان کے درمیان ایک ایمانی معاہدہ ہوتا ہے۔ البتہ اس پر قائم رہنے سے معجزہ صادر ہوتا ہے۔ جب ایمان ڈگمگانے لگے اور فطرت سوکھے درخت جیسی ہو جائے تو انسان ہوا کے جھو نکے کی نظر ہو جاتا ہے۔ وہ کوساں دور جا گرتا ہے اس کی مسافت بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح امید کا اپنا آنچل ہے جس میں وسیع القلبی اور وسیع النظری کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ جب سوچ مثبت دوپٹہ اوڑھ لے تو تو آنکھوں میں شرم و حیا اتر آتا ہے۔

آس کی نئی کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں اور ہر سوں بہار کی آمد شروع ہوجاتی ہے جو زندگی کو امید و بہار میں بدل دیتی ہے۔ خزاں کا سورج غروب ہو جاتا ہے اور امید کا نیا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ سرد جذبات کو گرم جذبات کی بھاپ مل جاتی ہے۔ امید کا عمل ایک سرگرمی کی طرح ہوتا ہے جسے جب تک زندگی کے سبق میں شامل نا کیا جائے اس وقت تک رت اور چاشنی کا عمل نہیں بڑھتا۔ یہ قدرت کا خوبصورت تنوع ہے جو امید کے دامن سے طلوع ہوتا ہے۔

اس کا کینوس سانس کی ڈوریوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔

جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا بھی ہے اور ساتھ ساتھ امید کا کنواں بھی کھو دتا ہے تاکہ پیاسے اس کے پاس آ کر اپنی پیاس بجھا سکیں۔ یہ ایک تعمیری عمل ہے جو اس وقت تک اپنا سفر جاری رکھتا ہے جب تک منزل نہ مل جائے۔ چونکہ دنیا کی ہر چیز اور نظام امید کے ساتھ وابستہ ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے یہ عمل اپنی تاریخ مرتب کرتا رہے گا۔ اگر چہ یہ ایک فوق الفطرت سچائی ہے۔ جس کی خوشخبری آسمانی من جیسی ہے جسے جب تک کھایا نا جائے اس وقت تک اس کے اندر امید کی کوئی کرن پیدا نہیں ہوتی۔ یہ کرن بلاناغہ طلوع و غروب ہوتی ہے اور

پورا سال گھوم کر اپنا مدار مکمل کرتی ہے۔ یہ سلسلہ تواتر و تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔

بلاشبہ ہر چیز کا آغاز و انجام ہوتا ہے جو عمل اور رد عمل کو ظاہر کر کے اپنا وجود قائم رکھتا ہے۔ ہر انسان امید کے سہارے جیتا اور اپنی زندگی کے فیصلے کرتا ہے۔ قبل از وقت وہ نہیں جانتا اسے فائدہ ہو گا یا نقصان۔ البتہ ایک بات ضرور تسلی بخش ہے کہ جس بات کو امید کی گانٹھ سے باندھ دیا جائے وہ نا تو جلد ٹوٹتی اور نا بکھرتی ہے۔

یہ قانون فطرت ہے کہ اس کی عجائب ہمیں امید کی خوشخبری دیتے ہیں۔ اگر زندگی میں نا امیدی کی بجائے امید کا دامن تھام لیا جائے تو بہت سے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔

لہذا ہمیں فیصلوں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ منفی محرکات زندگی کی مسافت بڑھا سکتے ہیں۔ امید کی فضیلت ختم کر سکتے ہیں۔ تاریکی میں داخل کر سکتے ہیں۔ نا امیدی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

تیسری چیز محبت ہے جس کا شیرازہ ازلی و ابدی ہے۔
یہ انسان کو نا بکھرنے دیتا ہے اور نا ٹوٹنے دیتا ہے۔

یہ دراصل انسان کے خون میں وہ ہارمون ہے جس میں طاقت و توانائی کے پوشیدہ ذخائر موجود ہیں جو ناممکن کام کو ممکن بنا دیتے ہیں۔ تاریک راہوں کو روشن کر دیتے ہیں اور روحوں کو جیت لیتے ہیں۔ اپنی منزل کی نشاندہی کر لیتے ہیں۔ گھر برباد ہونے سے بچا لیتے ہیں۔

مثبت سرگرمیوں کو فروغ دے کر صحت مند معاشرے کی داغ بیل ڈال دیتے ہیں۔ حقیقی اور غیر حقیقی ہونے کا فرق واضح کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ہر چیز کا الگ الگ معیار ہے۔

کیونکہ محبت ایسا سخن ہے جس میں نا خوف اور نا ڈر بلکہ یہ خوف دور کر کے محبت کی راہ کو کامل بنا دیتی ہے۔ ہم آہنگی فروغ دے کر درس و تدریس کو فروغ دیتی ہے۔ دوسروں کو روشنی مہیا کر کے گرنے سے بچاتی ہے۔

اپنی فضیلت و کرامات میں مکا شفائی بھید رکھتی ہے۔ روحوں کو جیت لیتی ہے۔ پاکیزگی کا دامن پھیلا کر گناہ پر غالب آجاتی ہے۔ ہر دل کی امانت اور سخاوت بن جاتی ہے۔ اپنے اندر زندگی کی حرارت رکھتی ہے۔ اپنے حسن و جمال میں لاجواب ہے۔ تحریک انسانیت کی علمبردار ہے۔

امن، محبت اور صلح کی سفیر ہے۔ لوگوں کے درمیان بڑے ہوئے فاصلے مٹانے کے لیے ایک پل کا کام دیتی ہے۔

دل برداشتہ ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اچھی یادوں کا من تیار کرتی ہے۔ ذہن و قلب کو سکون کی پرچھائیاں فراہم کرتی ہے۔ زندگی کو بابرکت اور پھل دار بناتی ہے۔ خود جھک کر دوسروں کو اپنی جانب راغب کر لیتی ہے۔ سارے شکوے شکایتیں مٹا دیتی ہے۔ ذات پات سے بالاتر ہو کر انسانیت کی لاج رکھتی ہے۔ اپنی اندر سے محبت کے چشمے جاری کرتی ہے۔ ہل گناہ اور بدی پر پردہ ڈالتی ہے۔ اپنی فضیلت میں لاثانیت اور کرداریت رکھتی ہے۔ اپنا سفر ابدیت پر ختم کرتی ہے۔ انسان کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتی ہے۔

اس میں بہتری کے نمونے اور اشارے پائے جاتے ہیں۔

یہ مکاشفائی تاثیر سے لبریز ہو کر ہر روح کو پر نمکین بنا دیتی ہے۔ روز اول سے قائم ہے اور تاحیات اپنا بھرم قائم رکھے گی۔ برگشتہ ہونے سے بچاتی ہے۔ اس کا بہاؤ دیرپا

اور نہ رکھنے والا ہوتا ہے۔ یہ بے سمت سفر کی عادی ہوتی ہے۔
یاد رکھیں!

ایمان امید اور محبت تین قسم کی زمینیں ہیں۔ تینوں کی مٹی زرخیز اور پھل دار ہے۔ تقریباً تینوں کی گہرائی اور پیمانے ایک جیسے ہی ہیں۔ جتنا انہیں مضبوطی سے تھام لیں گے اتنی ہی زندگی بابرکت اور خوشحال ہو جائے گی۔

نتیجتاً نا تنگی، نا کوئی کال، نا کوئی وہم، نا کوئی بدعت، نا کوئی کمی، نا کوئی چپقلش، نا نازیبا حرکات و سکنات،

نا کوئی وبا اور نا کوئی جرم۔ یہ مثلث قدرت، عالمگیر اور ابدیت کا مقام رکھتی ہے۔ اس کی شکل و صورت اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر کھود لیں اسے وقتاً فوقتاً دیکھتے رہیں تاکہ ہمارے دل و دماغ پر اس کا نقشہ ایک یادگاری کی صورت میں نظر آتا رہے۔ انھیں کبھی بھی اپنے دل سے جدا نا ہونے دیں اور یقیناً جب دل کسی چیز کی حفاظت کرتا ہے تو اسے اتنی جلدی زوال نہیں آتا جتنی جلدی دوسری چیزیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔

آئیں اپنی زندگی کی حفاظت کریں اور اپنے دل میں ان تین زمینوں کے زرخیز کھیت تیار کریں تاکہ اس میں وقت پر بیج بویا جائے تاکہ وہ آگے اور بہت سا پھل لائے۔ ہمیں بدلے میں خوشی اور محبت مل جائے جس کی بدولت مایوسی اور نا امیدی کے بادل امید کی ہوا سے اڑ جائیں۔ یہی ایمان امید اور محبت کا بخرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments