سرسوں، ساگ اور کرکٹ


جب سرسوں کے پھول زرد رنگ کی لوئی اوڑھے ہمارے گاؤں کے کھیتوں میں اترتے تھے۔ جب ہر آنگن میں بنے مٹی کے چولہے پہ ساگ کے دیگچے چڑھ جاتے تھے۔ جب سورج چاچا نور دین کھرل کے گھر کے عقب سے ہلکی دھیمی دھوپ لے کر گاؤں آتا تھا۔ جب کھوہ کو جاتی پگڈنڈیوں پہ دھول جم جاتی اور راہگیروں کے قدموں کے نشاں اگلی شام تک باقی رہتے تھے۔ جب مسجد کی طرف سیپارہ پڑھنے کے لیے بچے ’بوکی‘ باندھے چلتے پھرتے مجسمے دکھائی پڑتے تھے۔

جب سر شام چولہوں، تندوروں سے اٹھتا دھواں اور دھند گاؤں پہ آسیب کی طرح چھائے رہتے تھے۔ جب رات ڈھلے خودرو جنگلی بوٹیوں اور گھاس پر ’کورے‘ کی سفید چادر بچھ جاتی تھی اور سورج کی کرنوں کو دیکھتے ہی پگھل جاتی تھی۔ جب گاؤں کے بزرگ لوئی کی بکل مارے، منہ سے بھاپ اڑاتے دھوپ سینکتے رہتے۔ جھاڑ پھونس، پرالی اور سوکھی شاخوں کو آگ لگاتے اور اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے۔

جب سردی سے ٹھٹھر کر نیم کے پتے پھیکے پڑ جاتے اور پژمردہ ہو کر زمین پہ گرنے لگتے۔ جب ہم بچے ابو کے ساتھ نئے سویٹر اور بوٹ لینے شہر کا خوشی خوشی چکر لگا آتے۔ جب شامیں سرد اور راتیں یخ بستہ ہو جاتیں۔ لمبی سرد راتوں میں گرم لحافوں میں دبکے جب ہم کتوں کے بھونکنے اور گیدڑوں کے چلانے کی آوازیں سنتے تھے۔ جب دکانوں پہ مونگ پھلی اور ریوڑی کی مانگ بڑھ جاتی تھی۔ جب پرائمری سکول کے صحن میں پیڑوں کی چھاؤں تلے کھیلتے بچے سائے کو چھوڑ کر کچی سڑک کے پاس دھوپ میں گلی ڈنڈا، گگڑیں اور بھانت بھانت کے کھیل کھیلنے لگتے تھے۔

تب دسمبر میں سردی کی چھٹیوں میں ہمارے گاؤں میں خوشی کا ایک ہفتہ نازل ہوا کرتا تھا۔ تئیس دسمبر سے اکتیس دسمبر ’بابا فرید کرکٹ ٹورنامنٹ‘ منعقد ہوتا تھا۔ کوٹ بخشا، ہوتہ، نیب وال، کھولا اتم سنگھ، پاٹی پور، ملک پور، چک آٹھ کے بی، دس کے بی سمیت بہت ساری ٹیمیں ہائی سکول کے گراؤنڈ میں کھیلنے آتی تھیں۔

کمنٹری کے لیے خادم ماہی کا لاؤڈ اسپیکر جامن کے پیڑ پہ لگایا جاتا۔ کمنٹری کے ساتھ ساتھ سپیکر میں رنگ رنگ کے سریلے گیت چلتے، پروین شاکر اور احمد فراز کے رومانوی شعر پڑھے جاتے، گانے کے شوقین لڑکے مہدی حسن کے گیت گاتے۔ محمد احمد ڈھمی جب بے نظیر بھٹو کی تقریر نقل کرتا تو ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے۔ شہزاد بھائی گاؤں کے مولوی کا اعلان سناتے جس میں لال رنگ کی مرغی گم ہونے اور ڈھونڈنے کی استدعا ہوتی۔ بالی وڈ کا گانا ’چولی کے پیچھے کیا ہے، چولی کے پیچھے‘ بجتا تو سلطان گولڈن گراؤنڈ میں اپنے مخصوص انداز میں ناچنے اور جھومنے لگتے اور سب کے چہرے سرسوں کے پھول کی طرح کھل کھل جاتے تھے۔

وقفے میں استاد نصرت فتح علی خان کی مشہور قوالی ’اکو ورد ہے دم دم علی علی، سخی لال قلندر مست مست، دم مست قلندر مست مست‘ گونجتی تو سبھی کے من میں پھلجھڑیاں جلنے لگتیں۔

گورنمنٹ ہائی سکول فیروز پور چشتیاں کا گراؤنڈ سفیدے، ٹاہلی، بکائن، شہتوت اور جامن کے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ سکول کی ایچ شکل کی عمارت، کونوں میں لگے دو نلکے، گلاب کے پھولوں سے سجے دو خوبصورت پلاٹ سب مل کر گراؤنڈ کو اور بھی پیارا اور کھیل کے لیے نہایت موزوں بنا دیتے تھے۔ عمارت کے پاس بچے گگڑیں، کرکٹ اور طرح طرح کے کھیل کھیلتے رہتے۔ پھیری والے مالٹے اور شکر قندی بیچتے، چاول چنوں کی ریڑھی بھی لگ جاتی۔ محمد دین کے مزیدار سموسوں کی خوشبو پھیلتی تو سب کی بھوک چمک اٹھتی۔

پورے گاؤں کے نوجوان، بچے اور بزرگ سکول میں امڈ آتے۔ رنگ برنگی دھاری دار گرم چادریں لپیٹے، رنگدار تلے کی تاروں سے کڑھے دلکش پھولوں سے سجی ’نڑیوں‘ والے حقے کے گرد بیٹھ کر گڑ گڑ حقہ پیتے اور خوش گپیاں لگاتے۔ کسان اپنی گندم کی رات کو ہی آبیاری کر آتے۔ بھینس بکریوں کو پو پھوٹتے ہی برسیم کاٹ، کتر کر چارہ ڈال آتے اور دودھ دوہ کر گاگریں بھر لاتے۔

لڑکے بالے اپنی جیب مونگ پھلی اور ریوڑیوں سے بھر لاتے۔ میچ شروع ہوتے ہی شور شرابا شروع ہو جاتا۔ چاچا وزیر اور حاجی اکرم اپنی چٹخارے دار ہوٹنگ سے ماحول بنا دیتے تھے۔ چھکے جب سفیدے کی چوٹیوں کو پار کرتے تو نعرے اور تالیوں کی گونج آسمان کی بلندیوں کو پار کر جاتی۔ اتنی داد پر کتنی خوشی ہوتی تھی یہ میدان میں کھیلنے والے ایک اچھے کھلاڑی کا دل ہی جانتا ہے۔

اب دسمبر میں جب بھی سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو کرکٹ کے وہ موسم بہت یاد آتے ہیں۔ دلوں کو زندگی بخشتا دھوپ سا وہ اجلا موسم کتنا جلدی بیت جاتا اور سال بھر کا انتظار دے جاتا۔

پھر کرکٹ گراؤنڈ میں سکول کے کمرے بن گئے۔ وہ رونقیں اجڑ گئیں اور کرکٹ کے میلے ختم ہو گئے۔ دسمبر اب بھی ہر سال لوٹ کر آتا ہے اور سرما کی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے کھیتوں میں سرسوں اب بھی کھلتی ہے۔ چچا نور دین فوت ہو چکے لیکن سورج اب بھی ہلکی آنچ لیے ان کے گھر کی اوٹ سے نکل کر گاؤں میں آتا ہے۔ آگ کے الاؤ اب بھی لوگ جلاتے ہیں۔ سرسوں کی گندلوں کا ساگ اب بھی شوق سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ لیکن ’بابا فرید کرکٹ ٹورنامنٹ‘ کا گزرا وہ خوبصورت موسم لوٹ کر نہیں آیا۔

کتنا جلدی ختم ہو گیا۔

اتنی دیر تو رہتا جتنی دیر سرسوں کے پھول پہ جوبن رہتا ہے۔ اتنے روز تو ٹھہرتا جتنے روز ہم گاؤں کے لوگ ساگ میں مکھن ڈال کر کھاتے رہتے ہیں۔ ارے بستی کے چوراہے میں جلتے الاؤ میں پرالی کا ایک مٹھا کچھ پل تو جلتا رہتا ہے۔ بس اتنے پل ہی رہ جاتا۔ کھوہ کو جاتی پگڈنڈیوں پہ لگے راہگیروں کے قدموں کے نشاں کی طرح اگلی شام تک تو باقی رہتا کم بخت!

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments