تعلیم میں تحریر کا زوال


یہ تحریر بالخصوص طلبہ اور اساتذہ اور بالعموم ابلاغ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ہے۔

زبان کا سائنسی مطالعہ بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے : زبان سیکھنے کا عمل، دماغ میں زبان کی پراسسنگ، اور زبان کا ابلاغ کے لیے استعمال۔ زیر نظر تحریر تیسرے حصہ سے متعلق ہے، اور اس میں بھی تعلیمی میدان میں تحریر یعنی اکیڈمک رائیٹنگ سے متعلق ہے۔ میں اس آرٹیکل میں پہلے اکیڈمک رائیٹنگ کی تعریف اور اہمیت بیان کروں گا، اس کے بعد اپنے کچھ تجربات اور مشاہدات کا ذکر کروں گا، اور پھر تعلیمی تحریر کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کر کے آخر پر اس آرٹیکل کا مختصر خلاصہ بیان کروں گا۔

جب ہم زبان کے استعمال کی بات کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فرد، شعبہ اور موقع محل کے اعتبار سے زبان کا استعمال مختلف ہے۔ اس میں ایک انتہائی اہم شعبہ تعلیمی میدان میں تحریر یعنی اکیڈمک رائیٹنگ کا ہے۔ مضمون نگاری (essay writing) ، ریسرچ آرٹیکلز، روزمرہ تعلیمی اسائنمنٹس وغیرہ اکیڈمک رائیٹنگ کی اہم شکلیں ہیں۔ اکیڈمک رائیٹنگ سکلز کا بنیادی نقطہ تحریر کو زیادہ سے زیادہ مفید اور موثر بنانا ہے۔ تاہم اس کے مضمرات صرف تحریر تک محدود نہیں ہیں بلکہ بہت وسیع (لائف چینجنگ) ہیں کیونکہ آپ کی تحریر یا ابلاغ آپ کے ذہنی رویے اور فکری معیار کے عکاس ہیں۔

مثلاً عام طور پر اگر آپ واضح نظریات رکھتے ہیں لیکن انھیں مفید و موثر طریقہ سے بیان نہیں کر سکتے تو دراصل یہ دعویٰ ہی سرے سے مشکوک ہو جاتا ہے کہ آپ واضح خیالات کے حامل ہیں کیونکہ آپ کم و بیش اتنا ہی سمجھا سکتے ہیں جتنا آپ خود سمجھ پاتے ہیں۔ آپ کا فہم آپ کے بیان سے منعکس ہوتا ہے۔ بالخصوص تعلیمی میدان میں اور بالعموم ہر شعبہ میں آپ کا ابلاغ منعکس کرتا ہے کہ آپ کے خیالات کس حد تک ٹھوس یا کھوکھلے ہیں۔ جارج ایلیٹ کا کہنا ہے کہ اگر سوچ زبان پر اثر انداز ہوتی ہے تو زبان بھی سوچ پر اثر رکھتی ہے۔

چنانچہ ایک موثر تحریر کے لیے لکھنے والے میں ذہنی نظم اور شفافیت لازم ہیں۔ یہ تقاضے پورا کرنے کے لیے اکیڈمک رائیٹنگ کی مہارت (skill۔ set) ضروری ہے۔ کوئی ایک آدھ خیال یا فقرہ ہو تو ترتیب و تنظیم کے بغیر کام چل سکتا ہے لیکن جب ایک طویل تحریر میں آئیڈیاز کا مرکب بنانا اور پیش کرنا ہو تو کاریگری کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔

اکیڈمک رائیٹنگ کی اہمیت ناقابل فراموش ہے۔ اکیڈمک رائیٹنگ کی فیلڈ اپنے آپ میں ایک انفرادی شعبہ اور سائنس بن کر ابھری ہے۔ یہ زبان برائے مخصوص مقاصد (Language for Specific Purposes یا English for Specific Purposes) کے شعبہ کے قریب تر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اکیڈمک رائیٹنگ پر تعلیم کے ساتھ ساتھ انفرادی حیثیت میں کام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بظاہر پورا تعلیمی نظام اس تصور سے نابلد دکھائی دیتا ہے یا کم از کم لا پرواہ ہے۔

اکیڈمک رائیٹنگ کو تعلیمی شعبہ میں نظر انداز کرنے کے اثرات بالخصوص CSS جیسے امتحانات میں essay writing کے رزلٹ اور ماسٹر لیول پر ریسرچ لکھنے کی کوالٹی سے دیکھے جا سکتے ہیں اور بالعموم طلبہ و اساتذہ میں معلومات کی بے ترتیبی اور انتشار سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سائنس سبجیکٹس سے منسلک لوگوں کی تحاریر نسبتاً منظم دکھائی دیتی ہیں تاہم مجموعی صورتحال تشویشناک ہے۔ اس تشویشناک حالت کی وضاحت کے طور پر میں طلبہ کے ساتھ اپنے کچھ تجربات اور مشاہدات قلمبند کرتا ہوں۔

جب میں پاکستان میں تھا تو کئی سال تک CSS/PMS وغیرہ اور MA انگلش کے بچوں کو پڑھانا میرا شوق بھی تھا اور شعبہ بھی۔ جب سے پاکستان سے آیا ہوں بے شمار نئے اور پرانے لکھاری اپنی تحریریں بالخصوص essays اور تھیسز وغیرہ رائے، اصلاح اور پروف ریڈنگ کے لیے بھیجتے ہیں جو کہ وقت ہو تو میں انتہائی شوق سے کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر نگارشات پڑھ کر میرا وقت برباد ہی ہوتا ہے۔ ایک تو زیادہ تر لکھاریوں کی بنیادیں ہی غلط استوار ہوئی ہوتی ہیں، دوسرا اکثریت اپنی تحریر کو ٹھیک کرنا محض کانٹ چھانٹ اور جھاڑ پونچھ ٹائپ ایک شغل سمجھتے ہیں۔

لکھاری یہ توقع کرتے ہیں کہ بس گرامر اور نوک پلک ٹھیک ہو جائے تو سب سیٹ ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مشورہ کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ تحریر کی درستی دراصل سوچ کی درستی سے مشروط ہے۔ آپ عموماً جیسا سوچتے ہیں ویسا لکھتے ہیں۔ زیادہ تر لکھاری یہ تاثر دیتے ہیں گویا میرا یہ نقطۂ نظر ان کے لیے غیر متعلقہ ہے اور اسے مان کر وہ غیر ضروری محنت میں پڑ جائیں گے۔ ایک جواب بہت کامن ہے، ”سر آپ پلیز صرف اس آرٹیکل کی حد تک چیک کر دیں، باقی سوچ میں correction اور clarity وغیرہ لمبے چوڑے مسئلے ہیں۔“ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمپوزیشن یا ابلاغ صرف انگلش اردو لکھنے کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی صرف مضمون نگاری وغیرہ تک محدود ہے بلکہ یہ ہماری سوچ کی کمپوزیشن ہے۔ یہ ایک لائف لانگ پراسس ہے اور اسے ہماری مہارت سے زیادہ عادت یا فطرت ثانیہ ہونا چاہیے۔

اس پر توجہ کا آغاز اوائل عمری میں ہونا چاہیے۔ تحریر کا موثر ہونا محض گرامر یا فقرات کے سٹرکچر کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سوچ کے ربط، شفافیت، اور سب سے بڑھ کر منطق کا معاملہ ہے۔

لکھاریوں مین تکنیکی الفاظ یعنی اصطلاحات کے فہم کی بات کریں تو کم ہی لوگوں میں فن تحریر کی اصطلاحات اور تصورات کا فہم نظر آتا۔ مثلاً عموماً لکھاری جس نقطہ کو دل چاہتا ہے ”تھیم“ کہہ دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اور گمبھیر ہو جاتا ہے جب ”تھیم“ کو ”مرکزی خیال“ کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ تھیم، ٹیکنیکلی، ایک فقرے کا ہوتا ہے، پوری تحریر کا نہیں؟ ایک فقرہ دو طرح کی معلومات رکھتا ہے : theme اور rheme۔

تھیم کسی فقرے کا بالکل ابتدائی لفظ یا تاثر ہوتا ہے جبکہ باقی فقرہ تھیم کے بارے میں جو بتاتا ہے اسے رہیم کہتے ہیں۔ اس تصور کو ٹاپک اینڈ کامنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ”مرکزی خیال“ ان سے ہٹ کر ایک الگ تصور ہے۔ ہر فقرے میں تھیم اور رہیم کا واضح حساب رکھ کے چلیں اور پچھلے اور اگلے فقرات کے ساتھ ان کا معنوی ربط قائم رکھیں، تو آپ دیکھیں گے کل آخر پر ساری تحریر آپ کی مٹھی میں اور فنگر ٹپس پر ہے۔ اسی طرح اکثریت ”ٹائیٹل“ اور ”ٹاپک“ کو بھی بلا تخصیص استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ بھی مختلف تصورات ہیں۔ یہاں کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ ان عناصر کی شناخت کرنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ جب ان عناصر کی شناخت اور پاسداری ہو گی تو لکھنے والے کو یہ بھی ادراک ہو گا کہ تحریر کا کون سا حصہ کس نوعیت کی معلومات کا متقاضی ہے اور کہیں ان اجزاء میں ربط تو نہیں ٹوٹ رہا۔

اصطلاحات سے ہٹ کر اگر جنرل الفاظ کے انتخاب کی بات کی جائے تو اکثریت کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ ان کے استعمال کیے الفاظ کی معنوی اور واقعاتی (contextual) حدود کیا ہیں۔ مثلاً کچھ طلبہ مجھے کہتے ہیں سر مجھے ریسرچ کوئسچن بنانے میں ذرا ”اسسٹ“ کر دیں۔ اتنے میچور لیول پر یہ فرق نہیں معلوم کے mentors کے لیے assisst کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، وہ آپ کے کلرک یا ماتحت تھوڑا ہی ہیں! یہ خود نمائی یا تکبر کی بات نہیں، لاجک اور پروفیشنل آداب کی بات ہے۔

تحریر کے اندر الفاظ کی کوالٹی اور نوعیت کی بات کی جائے تو الفاظ کی زیادہ سے زیادہ ورائٹی شو کرنے کے چکر میں طلبہ ایسے ایسے مشکل اور کم مستعمل الفاظ گھیر گھار کر لاتے ہیں کہ پڑھنے والے کو بیک وقت غصہ اور ہسی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ بھئی، آپ کو اپنے قاری کو سمجھانا ہے، متاثر نہیں کرنا۔ تحریر کا موثر یا پر تاثیر ہونا اور چیز ہے جبکہ متاثر کن ہونا اور چیز۔ اکیڈمک تحریر میں آپ بات کو موثر بنانے پر ساری توانائی صرف کریں، ناول نگاری کہیں اور کر لیجیے گا۔ یہ محض چند ایک اور عمومی نوعیت کے نقاط ہیں جو میں نے اجاگر کیے ہیں ورنہ میتھیڈولوجی تو ایک جہان ہے۔ اب میں تحریر اور ابلاغ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ عمومی تجاویز پیش کرتا ہوں۔

فلسفی اور ماہر لسانیات پال گرائیس (Paul Grice) نے ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے یہ چار عمومی خصوصیات تجویز کی ہیں : معلومات درست ہو، کافی ہو، متعلقہ ہو، اور واضح ہو۔ ان چار خصوصیات کے حصول کے لیے تحریر میں کئی ایک پہلو مدنظر رکھنا پڑتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم کسی کی بات نقل کرتے ہیں تو ہمیں وہ کتاب، صفحہ، موقعہ وغیرہ باریکی میں پتہ ہونا چاہیے ؛ اگر اپنی بات کریں تو واضح طور پر اشارہ دینا چاہیے کہ یہ ہمارا مفروضہ ہے، تجویز ہے، یا دعویٰ؛ مفروضہ، تھیری، اور قانون وغیرہ کا فرق سامنے رکھنا چاہیے ؛ استدلال (argument) تعمیر کرنے کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے ؛ سویپنگ سٹیٹمنٹس یعنی بے جا دعووں اور اعلانات سے بچنا چاہیے ؛ خاطر خواہ متعلقہ مطالعہ کرنا چاہیے ؛ پوری تحریر کو ایک اکائی کے طور پر اٹھنا چاہیے ؛ تحریر کے bits and pieces کا واضح ادراک اور شمار ہونا چاہیے ؛ موضوع سے ذرا سا بھی ادھر ادھر نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ نوواردوں کے نقطۂ نظر سے، دو مختصر پیرا گراف سے لکھنا سیکھنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ ریاضت کے لیے بھی اتنا ہی راگ کافی ہے نہ کہ براہ راست سو نمبر کے بڑے مضمون یا ایک ریسرچ آرٹیکل کا پورا canvas ہی تختہ مشق بنایا جائے۔

چنانچہ خلاصہ تحریر یہ ہے کہ ہمیں پروفیشنل شعبہ ہائے میں بالخصوص تعلیمی میدان میں بنیادی طور پر فن تحریر کا فلسفہ اور سائنس سمجھنے سے آغاز کرنا چاہیے نہ کہ اپنے مضامین (essays) کو رنگ روغن کرنے کا آسرا ڈھونڈنا چاہیے۔ تحریر میں تبدیلی انداز فکر میں تبدیلی ہے۔

رانا محمد منیر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا محمد منیر

رانا محمد منیر اندروں ملک اور بیرون ملک انگریزی ادبیات اور لسانیات میں اعلیٰ تعلیم پا چکے ہیں۔ ان دنوں گوجرانوالہ کی گفٹ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rana-muhammad-munir has 2 posts and counting.See all posts by rana-muhammad-munir

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments