کامیاب نوجوان


آنکھیں بند کیجیے، من کا شور خاموش کیجیے، غور کیجیے، فرض کیجیے، آپ بالآخر کامیاب ہو گئے ہیں۔ زندگی بیس سال آگے آ گئی ہے۔ تمام رنجشیں، تکلیفیں، آزمائشیں ختم ہو چکی ہیں۔ اور آپ ایک کامیاب انسان بن چکے ہیں۔ آگے پڑھنے سے پہلے کسی کاغذ پر ذرا لکھ ڈالیے کہ ذہن میں کیا خاکہ بنا ہے۔ آپ خود کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟ پہناوا کیا ہے، سواری، گھر، ہمسفر، سب کیسا نظر آ رہا ہے؟ اور یہی مشق آپ اپنے دوستوں سے بھی کروا لیجیے۔

آپ دیکھیں گے کہ اس مشق میں دس لوگ شرکت کریں یا دس ہزار، خود کو فیکٹری کا مالک بتائیں یا آرمی کا جرنیل، کم و بیش ہر فرد اپنی کامیاب شکل کو خوش لباس، مشہور، اور امیر دیکھتا ہے۔ اچھا گھر، بڑی گاڑی، چند خدام، رشتہ داروں اور ہمسایوں میں اونچا مرتبہ، اور معاشرے میں ناموری ہی سب کے لیے وہ منزل ہے جسے کامیابی گردانا جاتا ہے۔ کوئی کم تو کوئی زیادہ، مگر اکثریت کے لاشعور میں کامیابی کا مطلب دولت اور شہرت ہی ہے۔

یقیناً کچھ احباب بحث کریں گے کہ وہ اس مقام پر پہنچنے کے لیے نیکی کا راستہ چنیں گے، صلہ رحمی کریں گے، خدا ترس بنیں گے، مگر راستہ کوئی بھی ہو، نیت کچھ بھی بتائیں، کامیاب خود کو تبھی جانیں گے جب دولت اور شہرت پا لیں گے۔ یعنی کامیاب نوجوان وہ ہے، جو دولت اور شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

واہ! عجیب مخمصہ ہے۔ آخر حضرت انسان کو یہ معیار کس نے سجھایا ہے کہ کامیاب نوجوان وہ ہے جو دولت مند اور شہرت یافتہ ہو؟ یہ کس انداز کی ذہنی سہولت ہے؟ یعنی ہر دولت مند اور شہرت یافتہ کامیاب ہے، اور مفلسی و فقیری والے گمنام سارے ناکام ہیں؟

اگر یہ سچ ہے تو پھر کتابوں میں کسی غریب کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ تاریخ امراء کی لونڈی رہنی چاہیے، اور فقیروں اور درویشوں کے ناموں کو ان کی قبروں میں ان کے جسموں کے ساتھ دفن ہو جانا چاہیے۔ مگر عجیب معاملہ ہے، تاریخ کا دھارا موڑنے والے، مر کر بھی ہمیشہ زندہ رہ جانے والے سارے ہی درویش ہیں۔ نہ کسی نے بلند و بالا مکان بنائے، نہ مہنگے گھوڑے پالے، نہ شہرت کے جھنڈے گاڑھے۔ دولت اور شہرت کے بھوکے نشان عبرت بنے، کرب و بلا کے غرباء الوطن امر ہو گئے۔

کوئی ڈرامہ، کوئی فلم دیکھ لیجیے، کوئی بھی کہانی ایسی نہیں کہ جس میں ہیرو یا ہیروئن مشکلات سے دو چار نہیں۔ ہر کہانی کا مرکزی کردار انتہا پر جا کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور کامیابی بھی کیا، غریب تھا، امیر ہو گیا، مشہور ہونا چاہتا تھا، مشہور ہو گیا، فوجی بننا چاہتا تھا، فوجی بن کے میڈل جیت گیا۔ جب آپ اس ٹی وی اور اس موبائل کے ذریعے بیس سال کی انتھک محنت کر کے نسل نو کو یہی سکھائیں گے کہ کامیاب وہ ہوتا ہے جو مشہور اور امیر ہو جائے، برانڈ کے کپڑے پہنے اور بڑی گاڑیوں میں چھوٹے کپڑے پہن کر گھومے، تو پھر کامیاب نوجوان کے نام پر صرف قرضے ہی دیے جا سکیں گے، خودی ہی بکے گی، فقیری میں نام پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

ایک دفعہ پھر سے آنکھیں بند کیجیے، من کا شور خاموش کیجیے، غور کیجیے، فرض کیجیے، آپ بالآخر کامیاب ہو گئے ہیں۔ زندگی بیس سال آگے آ گئی ہے۔ تمام رنجشیں، تکلیفیں، آزمائشیں ختم ہو چکی ہیں۔ اور آپ ایک کامیاب انسان بن چکے ہیں۔ آپ کی کامیابی وقتی دولت ہے، یا آپ کچھ ایسا کر گزرے ہیں کہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ خود کو باغ کا مالک دیکھ رہے ہیں؟ یا ایسا باغبان کہ جس کے نام سے کوئی واقف ہے کہ نہیں، اس کے لگائے درخت کا پھل سبھی کھا رہے ہیں، اس کا شجر سایہ سبھی کو دے رہا ہے۔

؀ جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments