اے نئے سال بتا۔۔۔

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


بچپن سے میری عادت ہے کہ نیا سال بہت دھوم دھام سے مناتی ہوں۔ اگر دعوت ممکن ہو تو خوب زبردست ضیافت کا انتظام کرتی ہوں اور اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو گھر میں ہی موم بتیاں جلا کے قندیلیں اڑا کے نئے سال کا آغاز کرتی ہوں۔

اس برس جب 2021 گزر کے 2022 آ رہا تھا تو دل میں ایک عجیب خواہش نے سر اٹھایا کہ ہر برس میں ہی کیوں یہ اہتمام کروں؟ دیکھتے ہیں اس برس کوئی میرے لیے بھی کچھ کرتا ہے کہ نہیں۔

29 تاریخ سے کسی دعوت نامے کا انتظار شروع ہوا مگر کہیں سے کوئی صدا نہ آئی۔ 31 کی شام تک گھر والوں سے امید بندھی ہوئی تھی۔ شام تک اس امید کے پھریرے بھی سرنگوں ہو گئے جب سب مانگیں کاڑھ کاڑھ کے اور کپڑوں کے جوڑ ملا ملا کے تیار ہوئے اور ایک کے بعد ایک نکلتے گئے۔

کسی نے جھوٹوں پوچھا بھی تو میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لیے پڑی رہی کہ یہ جاتے جاتے گونگلووں سے مٹی جھاڑی تو کیا جھاڑی۔

جب گھر میں آخری آہٹ بھی ختم ہو گئی تو سناٹے سے گھبرا کے سوشل میڈیا کا رخ کیا وہاں بھی ہو کا عالم طاری تھا۔

گھڑی کو دیکھتے دیکھتے بارہ بجے اور باہر سے سنائی دینے والی غیر مختتم آتش بازی نے یقین دلایا کہ نیا سال چڑھ چکا ہے۔

دھماکے، شرلیوں پٹاخوں کی سنسناہٹ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے ساتھ 2022 میں بالکل یکہ و تنہا داخل ہوتے ہوئے ایک نیا تجربہ ہوا اور سبق ملا جو آج تک کے سب اسباق سے بازی لے گیا۔

خوشی تلاش کرنا پڑتی ہے تقریب بپا کرنے سے ہوتی ہے۔ دنیا تو ایک سمندر ہے ایک پیالہ پانی نکل جانے سے کیا ہو جاتا ہے؟ ہمارے ہونے اور خوش ہونے سے کسی کو فرق پڑے نہ پڑے ہمیں ضرور پڑتا ہے۔

لوگوں سے توقعات اور گلے شکوے پال کر بچی کھچی زندگی کو کیا تباہ کرنا؟ انسان جو کرتا ہے اپنی غرض کو کرتا ہے وہ سب اہتمام وہ سب تقریبات میں اپنے دل کو خوشی اور اپنی مجلسی طبیعت کو راضی کرنے کے لیے کرتی تھی۔ آنے والوں کی مہربانی کہ وہ آتے تھے۔

ان عمدہ خیالات کے ظہور کے ساتھ ہی دل میں امنگ سی اٹھی ،شال لپیٹی اور باہر نکل آئی۔ یخ ہوا میں آسمان پر ابھی تک نیلی، پیلی، قرمزی، اودی، ہری، زرد اور نقرئی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی تھیں، چنبیلی کے جھاڑ میں سفید سفید پھول جھمک رہے تھے اور گل چین کے درخت سے ایک سفید پھول ٹوٹ کے خود ہی میرے بالوں میں آ ٹکا۔

مجھے لگا عناصر آگے بڑھ کر مجھ سے گلے مل رہے ہیں اور مجھے نئے سال کی مبارکباد دے رہے ہیں۔ میں جوتے اتار کے گھاس پر کھڑی ہوئی۔ یخ بستہ مٹی کا لمس، گھاس پر بکھری اوس کی نمی اور آسمان سے برستے گاڑھے گاڑھے اندھیرے میں کوندتی آتش بازی کی تجلیاں، ائے سبحان اللہ!

ایسا خوبصورت نیا سال تو کبھی نہیں منایا تھا۔ میں مبہوت سی کھڑی اپنے آس پاس بکھری رات اور اس کے حسن میں کھو سی گئی۔ یہاں تک کہ آتش بازی کی دھمک چمک بھی ماند پڑ گئی اور رات کے آسمان پر تاروں کی قندیلوں کے سوا کوئی روشنی نہ رہی، ہوا میں چلی ہوئی آتش بازی کی بارودی بو تھی اور درختوں کے پتوں سے اوس نچڑ نچڑ کے مٹی میں جذب ہو رہی تھی۔

نیا برس شروع ہو چکا ہے، عرض یہ ہے کہ جب زمانے سے شکوہ ہونے لگے تو عناصر سے رجوع کیجیے۔

’آجائے گا آرام جپو ست نام جپو ست نام۔‘ نیا سال آپ سب کو مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments