مراعات بڑھتی گئیں جوں جوں تنخواہ بڑھی


حوالہ اور وقت تو یاد نہیں، لیکن ایک صاحب نے ایک بار برطانوی معاشی نظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہاں امراء سے ٹیکس وغیرہ لے کر سب سے نچلے طبقے کی حالت سنوارنے کی کوشش کی گئی اور درمیانے طبقے کو نہیں چھیڑا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ نچلا طبقہ بھی کم از کم درمیانے طبقے کے درجے تک پہنچ سکے۔ امریکہ کے بارے میں تو ہم نے خود پڑھا تھا کہ وہاں کے ارب پتیوں نے امریکی حکومت سے ”اپیل“ کی ہم سے ہماری زائد دولت لے کر ”غریبوں“ میں تقسیم کی جائے۔

فلاحی مملکتوں میں خاص طور پر نچلے طبقے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس معاملے میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ جیسے جیسے تنخواہ بڑھتی ہے، مراعات میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہونا تو چاہیے کہ مراعات میں اضافہ نہ کیا جائے۔ وجہ صاف ہے کہ تنخواہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسری مراعات حاصل کرنے کی صلاحیت صاحب تنخواہ کی قوت خرید میں اضافے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ اسے اپنی تنخواہ سے یہ سب کچھ حاصل کرنا چاہیے، مگر وہ سرکاری خزانے سے ہی حاصل کرتا ہے کہ اس کا استحقاق پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔

مثال کے طور پر جتنا بڑا افسر، اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کو فری پٹرول، فری فون، فری علاج، بڑی گاڑی، بڑا گھر وغیرہ سب کچھ سرکار سے ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ حالات کا تقاضا تو ہے کہ یہ سب کچھ کم تنخواہ والے بندے کو ملنا چاہیے جس کی قوت خرید کم ہے اور وہ سب کچھ اپنی تنخواہ سے نہیں لے سکتا۔ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے امیر ملازمین امیر سے امیر ہوتے۔ جاتے ہیں اور چھوٹے ملازمین غریب سے غریب تر۔

سی ایس پی اور مینجمنٹ کیڈر کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کو اسی شعبے کے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات سے موازنہ کر کے دیکھ لیں تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ممبران اسمبلی اور وہاں کے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کو دیکھ لیں تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ تقریباً ہر شعبے میں یہی حال ہے۔ محکمہ تعلیم میں ملنے والے مختلف قسم کے وظائف اور گرانٹس کی بھی یہی صورت حال ہے۔

میٹرک، انٹرمیڈیٹ/گریجویشن اور ماسٹرز میں اساتذہ اور دوسرے ملازمین کے بچوں کو بناولنٹ فنڈ میں سے جو تعلیمی وظائف دیے جاتے ہیں، ان کی صورت حال بھی یہی ہے۔ امتحانات کی مندرجہ بالا ترتیب کے اعتبار سے نان گزیٹیڈ (گریڈ 1 تا 15 ) کو 1500، 6000 اور 8000 روپے اور گزیٹیڈ (گریڈ 16 تا 22 ) کو 10000، 28000 اور 32000 روپے ملتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ملازمین کے ان بچوں کو ملتے ہیں جو ان امتحانات میں 60 فی صد یا اس سے زائد نمبر حاصل کرتے ہیں۔

90 فی صد سے زائد نمبر لینے والوں کو 50000 روپے کا سپیشل وظیفہ دیا جاتا ہے۔ شادی گرانٹ نان گزیٹیڈ کے لیے 55000 روپے اور گزیٹیڈ کے لیے 80000 روپے ہے۔ تجہیز و تکفین کی گرانٹ البتہ خوش قسمتی سے دونوں کے لیے ایک جیسی یعنی 35000 روپے ہے۔ گویا مجموعی طور وہی صورت حال کہ بڑے افسر اور زیادہ تنخواہ والے کے لیے مراعات زیادہ اور کم تنخواہ والے کے لیے مراعات کم۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ (یاد رہے کہ حکومت یہ وظائف مفت میں نہیں دے رہی۔

ملازمین ہر مہینے اپنی تنخواہوں سے بناولنٹ فنڈ کٹواتے ہیں۔ یہ اسی میں سے ملتے ہیں۔ اس ملازم کے بھی کٹتے ہیں، جس کے بچے 60 فی صد نمبر نہیں لے سکتے۔ ان کے بھی کٹتے ہیں جن کے بچے نہیں ہیں یا وہ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں نہیں پڑھتے۔ گویا کسی کو ملے نہ ملے، کٹوتی بلا امتیاز سب کی تنخواہ سے ہوتی ہے۔ بچ جانے والے پیسے کسی ملازم کو نہیں ملتے، وہ حکومت کے کھاتے میں ہی جمع ہوتے ہیں۔ گویا ایک ملازم 30 سال تک بناولنٹ فنڈ کٹواتا ہے۔

کسی وجہ سے وہ ان تیس سالوں میں کوئی بھی گرانٹ حاصل نہیں کر سکتا تو ریٹائرمنٹ پر اسے اسی کی تنخواہ سے کاٹے گئے تیس سالوں کے پیسوں میں سے ایک روپے بھی نہیں ملتا۔ یہی حال انشورنس کا ہے کہ ہر مہینے ملازم کی تنخواہ سے اس مد میں پیسے کٹتے ہیں، لیکن اس کے حصول کے لیے اس کے لیے دوران سروس فوت ہونا ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے وہ دوران سروس فوت نہ ہو تو پھر اسی کی تنخواہ میں سے کاٹے گئے ساری سروس کے لاکھوں روپے پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے اب فیصلہ بھی کیا ہے کہ فوت نہ ہونے صورت میں بھی ملازم کو ریٹائرمنٹ پر اس کے انشورنس کے پیسے واپس کیے جائیں مگر حکومت عمل درآمد کرنے کی بجائے اپیل در اپیل کے حربے آزمانے میں مصروف ہے ) ۔ یہ تفریق اس لیے پیدا ہوئی اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کہ افسران نے اپنے آپ کو سامنے رکھ کر بنائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو گڑ پہلے سے ہی میٹھا ہے، اس کو مزید میٹھا کرنے کی بجائے کم میٹھے کو زیادہ کے برابر لایا جائے۔ یہ تفریق کب ختم ہو گی؟ اس دن جس دن حکمرانوں کے دل میں لوگوں کے لیے ہمدردی اور خوف خدا پیدا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments