پاکستان میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم۔۔۔۔ایک ٹیبو



پاکستان میں لڑکیوں کی اعلی تعلیم کو ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے اس سلسلے میں لڑکیوں کا اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وقت گزارنا، گھر سے باہر رہنا یا اپنی تعلیم کی تکمیل کو سامنے رکھ کر اپنے زندگی کی ترجیحات کو طے کرنا پاکستانی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔

زیر نظر مضمون میں ہم کچھ ایسے ہی عوامل پر بحث کریں گے کہ جو ہمارے ہاں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو پاکستان میں ممنوع بنا رہے ہیں۔

لڑکیوں کی عمر

تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو سب سے پہلے جس مشکل سے گزرنا پڑتا ہے وہ بڑھتی ہوئی عمر ہے۔ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 20 سال کے درمیان آئیڈیل سمجھی جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ لڑکی جتنی کم عمر ہو گئی وہ سسرال کے ماحول میں اتنی ہی جلدی اپنے آپ کو ڈھال لے گی۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے دوران لڑکیاں اپنی عمر کے ایک بڑے حصے کو گزارتی ہیں نئے تجربات اور شعور و حقوق سے آ گاہی حاصل کرتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی تعلیم کا استعمال کر نے کے لئے نوکری کے سلسلے میں کوششیں کرتی ہیں پھر اس کے بعد کہیں جا کر شادی کا نمبر آتا اس وقت تک لڑکی پچیس سے تیس سال کی عمر تک پہنچ جاتی ہیں ہیں۔ لڑکی کی یہ وہ عمر ہے جو پاکستانی معاشرے میں زیادہ تصور کی جاتی ہے اور اس کے لئے اچھا رشتہ تلاش کرنا ایک ایسا کار داد جو والدین کے لئے کسی ڈراونے خواب کی طرح ہے۔

عورت کا باشعور ہونا

پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کی پختگی سوچ اور فکر کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے یہاں جب لڑکے کی شادی کے لئے خواتین کسی کے گھر لڑکی دیکھنے جاتی ہیں تو ان کا سب سے پہلا خیال لڑکی کی عمر کے بارے میں ہوتا ہے۔ اٹھارہ سے بیس سال تک کے درمیان کی لڑکی بہترین سمجھی جاتی ہے کیوں کہ عام تصور یہ ہی ہے کہ کم عمر لڑکی جلد سسرال کے ماحول میں گھل مل جائے گی اور شعور و علم کی کمی کے باعث اپنے حقوق کی آواز بلند نہیں کرے گی۔ لہذا والدین کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ لڑکی کی کم عمر میں شادی کر دیں تاکہ آنے والے وقت میں رشتوں کی کمی اور عمر گزر جانے کے خوف سے نجات حاصل کر سکیں۔

مالی معاملات

لڑکیوں کی اعلی تعلیم پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے اس کا واپس وصول کیے جانے کا کوئی تصور پاکستان میں نہیں ہے ہے لڑکی شادی کے بعد اپنے سسرال چلی جاتی ہے اور اگر وہاں اپنی تعلیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی کاروبار یا نوکری کرتی ہے تو وہ تمام تر آمدنی اس کے شوہر اور سسرال کا حق بن جاتی ہے۔ والدین جو لڑکی کی اعلی تعلیم پر بہت سی رقم خرچ کر چکے ہوتے ہیں انہیں اس کا کچھ حصہ وصول نہیں ہوتا مزید یہ کہ انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکی کی شادی کے لئے جہیز اور دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ لہذا پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں کی زیادہ تر آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہاں والدین کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ جو رقم لڑکی کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں لڑکی کی شادی پر خرچ کر دیں اور اپنے فرض سے جلد از جلد سبکدوش ہو جائیں۔

کم تعلیم یافتہ لڑکے

لڑکیوں کی اعلی تعلیم کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ رشتے کے متلاشی مرد کا کم تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ ایک لڑکی اعلی تعلیم حاصل کر لیتی ہے تو پھر اس کے جوڑ کا رشتہ تلاش کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ اعلی تعلیم یافتہ لڑکے کے والدین اپنے لڑکے کی شادی کی عمر لڑکی سے کرنا چاہتے ہیں ہیں اور یوں ایک اعلی ٰتعلیم حاصل کرنے والی لڑکی اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے جوڑ کا ہمسفر تلاش نہیں کر پاتی۔ یہ وہ خوف ہے جو والدین کو لڑکیوں کی اعلی تعلیم کی طرف جانے سے روکتا ہے۔

اعلی تعلیم کے لئے سفر

پاکستان کے چھوٹے شہروں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ اعلی ٰتعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات بڑے شہروں باہر غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں۔ اگر ایک لڑکی اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے شہر یا ملک جانا پڑے گا۔ جب کہ ہمارا معاشرہ اکیلی لڑکی کا گھر سے باہر رہنا پسند نہیں کرتا۔ والدین اردگرد کے لوگوں کی باتوں کے خوف سے لڑکیوں کو اعلی تعلیم کے لیے کہیں دور بھیجنے کے روادار نہیں ہوتے ہیں۔

مخلوط تعلیم

لڑکیوں کی اعلی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مخلوط تعلیم بھی ہے۔ ڈراموں اور فلموں میں مخلوط تعلیم کے منفی پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کم پڑھے لکھے والدین ان ڈراموں فلموں سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنی لڑکیوں کو ایسے ماحول سے دور رکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں اور بعد میں پسند کی شادی تک بات جا پہنچے۔

مردانہ انا

ایک عام پاکستانی مرد کی انا اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کی بیوی اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو یا اس سے زیادہ کماتی ہو۔ اس معاملے میں عموماً بہت تنگ ذہن ہے اور اور وہ اپنی بیوی کو اپنے کمتر دیکھنا پسند کرتا ہے لہذا والدین اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے لڑکی اپنے شوہر کی نظروں میں وہ مقام نہ حاصل کر سکے جو ایک کم تعلیم یافتہ عورت حاصل کر لیتی ہے۔

لڑکیوں کی ڈیمانڈ

جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکی اپنے لئے اعلی تعلیم یافتہ شوہر پسند کرتی ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ایک کم تعلیم یافتہ لڑکی کے ساتھ شادی کر کے بہت خوش و خرم زندگی گزار سکتا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت کم تعلیم یافتہ مرد سے شادی پر رضامند نہیں ہوتی اس کے علاوہ جس شعبہ زندگی میں لڑکی کام کرتی ہے وہ یہ چاہتی ہے کہ اسی شعبہ زندگی سے اسے شوہر میسر آئے اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔

زچگی کے مسائل

یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جو پاکستان میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سلسلے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ وہ یہ سوچ ہے کہ اگر لڑکی کی عمر زیادہ ہو گئی تو وہ زچگی کے مسائل کا شکار ہو جائے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی خواتین اپنے بیٹے کے لڑکی تلاش کرتی ہیں تو وہ کم عمر ترین لڑکی کو پسند کرتی ہیں اس کے پیچھے ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ لڑکی جتنی کم عمر ہوگی اتنی ہی جلدی وہ ماں بنے پر آمادہ ہو جائے گی اور نئی نسل کو دنیا میں لے آئے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments