فیصلہ سازوں کو سلام عرض ہے


پاکستان کی تاریخ میں سیاسی جماعتوں نے اپنے پارٹی منشور میں عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسے وعدے کیے جو حقیقت سے دور لگتے رہے ہیں عوام ان وعدوں کے جھانسے میں ہر بار پھنس کر اپنی قسمت کے جاگ جانے کا مسلسل انتظار کر رہے ہیں سیاست کے یہ کھلاڑی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جو ان کو منزل تک لے جائے یہ سیاسی لوگ اتنے با اثر ہیں کہ ان کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رہتے ہیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کس دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں ویسے تو ہماری سیاست میں ایک مخصوص دروازے کا ذکر ہوتا ہے اور سب ایک دوسرے کو اسی دروازے کی پیداوار کا طعنہ دیتے ہیں کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ با اثر طبقہ دروازے کے اندر ہو یا باہر انتظار کی لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہو عوام کے مستقبل کا فیصلے اسی کے اختیار میں ہے اور جو دروازے کے اندر سے فیصلے صادر کرتے ہیں انتظار میں کھڑے تمام کھلاڑی ان کو لبیک کہتے ہیں۔

جو انتظار کی اس لائن میں ایک بار لگ جائے وہ ہمیشہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے اس میں دروازے کے اندر والوں کی خواہش کم اور انتظار کی چکی میں پسنے والوں کی اپنی تمنا زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ اگر انتظار میں بھی ہوں تو عوام کی قسمت کے فیصلوں میں ان کا ہی کردار نمایاں رہتا ہے جیسا کہ ماضی میں پیر صاحب پگاڑو اپنے اس تعلق کا کھلے عام اعتراف کرتے تھے اور آج کے دور میں ایک وفاقی وزیر کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ ان کے بندے ہیں بلکہ وہ اور بھی کئی نام لیتے ہیں جو دروازے کے اندر بھی جاتے ہیں اور باہر انتظار کی لائن میں بھی کھڑے رہتے ہیں۔

دوسرا دروازہ عدلیہ کا ہے جسے سیاست کے کھلاڑی دادرسی کے لیے کھٹکھٹاتے ہیں اور بظاہر انصاف کا سہارا لے کر اقتدار کی سیڑھی پر پاؤں رکھنے کی جسارت کرتے ہیں ایسے دروازوں کے قریب بھٹکنے والے یہ معصوم لوگ عوام کو کیا دیں گے جو اپنی خواہشات کے محتاج ہیں۔ اقتدار کی اس منڈی میں کسی فکر علم یا نظریے پر کاربند ہونا شرط نہیں بس ضمیر کو گھر کے کسی کونے میں دفن کر کے میدان سیاست میں کود جاؤ تو کامیابی اپ کے قدم چومے گی اپ بے شک کہتے رہو کہ یہ سب ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے پر جس طرح اقتدار کے دروازے تک پہنچا جاتا ہے وہ اللہ بھی جانتا ہے اور ماں بھی اس راز سے آشنا ہوتی ہے کہ یہ قوم کی خدمت کا جذبہ کسی نظریہ آشنا سے زیادہ نہیں یہ سیاسی آشنا کبھی کسی ایک کی نہ ہوئی یہ سب سے آشنا ہے کہ کون کتنی بولی لگا سکتا ہے جس نے زیادہ بولی لگائی اور آشا کا دیپ جلایا سیاسی آشنا اسی کے ساتھ ہو لی ان کی سیاست کبھی عوامی مسائل سے آشنا نہیں ہوئی بس مختلف سیاسی دلفریب نعروں میں الجھائے رکھا۔

سیاست کی اس شطرنج میں تیسرا دروازہ بھی وقت ضرورت کھلتا ہے جہاں سرکار کے شاہی افسر اوپر سے مسلط ہونے والے سیاسی دانش وروں کا استقبال کرتے ہیں اور ان کو مقامی سطح پر نامور بنانے کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہیں یہاں سے تھانہ کچری پٹواری اور میونسپل کمیٹی کی سطح پر متعارف کروایا جاتا ہے جو ان کے جوڑ توڑ کو جلد سمجھ جاتا ہے وہ صوبے اور وفاق کی سیاست کی جانب روانہ ہو جاتا ہے اور جو اہلیت نہیں رکھتا وہ مقامی دفاتر میں ہی بھٹکتا زندگی کے دن پورے کرتا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں ٹاؤٹ کے نام سے بھی یاد رکھا جاتا ہے۔

سیاسی کھیل میں چوتھا دروازہ عوام کا ہے اس دروازے کی حالت قابل رحم ہے اس کی نہ چٹخنی ہے اور نہ وہ کنڈی جس پر تالہ لگایا جا سکے اس کا ایک پٹ درمیان سے ایسے انداز میں ٹوٹا ہے کہ اگر اس مٹی میں دھنسے ہوئے گرد میں ڈھکے دروازے کو کھینچ کے بند کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو اس کا متاثرہ حصہ روشن دان جیسی حیثیت رکھتا ہے جس سے آپ اندر جھانک بھی سکتے ہیں عوام کا یہ قدیمی طرز کا دروازہ اول تو بند نہیں ہوتا اور اگر کسی حکمران کے جبر سے بچنے کی کوشش میں بند کیا جائے تو پھر بھی طوفان کے تیز جھونکے عوام کے ارمانوں کو اڑا لے جاتے ہیں۔

اس کو مضمون کی تمہید سمجھ لیں یا پھر تفصیل ہر چند کسی کی عزت نفس کو متاثر کرنا نہیں سب دروازے ہمارے لیے متحرم ہیں لیکن صرف یہ پوچھنا ہمارا حق ہے کہ ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا کئی طرح کے نظام وضع کیے گئے کئی تجربے کیے پھر بھی عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیونکر ہیں ملک کے فیصلہ سازوں سے سوال ہے کہ عوام کا فیصلہ کرنے کا انتخاب درست نہیں یا پھر اپ کی پالیسیوں میں سقم رہ گیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں سے لے کر زمینی سرحدوں کو کس نے سن لگائی۔

ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والوں کو اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ قانون بھی آپ کا پالیسی بھی آپ کی سیاسی گھوڑے بھی آپ کے سوچ بھی آپ کی فیصلے بھی آپ کے پھر بھی ملک ایک مچھلی منڈی کی صورت کیوں لگ رہا ہے آپ سے ہی سوال ہے کہ اور کتنا اختیار چاہیے عوام تو ہمیشہ سے قربانی کا بکرا بن رہے ہیں پھر بھی دن کو تارے کیوں نظر آ رہے ہیں کچھ تو بتا دیں کہ اندھیری راتوں کا سلسلہ کب ختم ہو گا کیا ہمارے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں کیا ایسا ممکن ہے کہ تمام فیصلہ ساز ادارے اس بات کا از سر نو جائزہ لیں کہ کون سی ایسی پالیسی ترتیب دی جائے جو ہمیں آئی سی یو سے نکال کر کم از کم جنرل وارڈ میں ہی منتقل کر دے اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پھر بھی سلام عرض ہے اور ہم اس جنرل وارڈ میں پالیسی سازوں کو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ واجاں ماریاں بلایا کئی وار وے، کسے نے میری گل نہ سنی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments