وسئی کا قلعہ


\"\" برطانیہ کے مشہور میوزک بینڈ کولڈ پلے کا ایک گانا ہے \’ہم فار دی ویکنڈ\’ (Hymn for the weekend )۔ اس میں سبز لباس سے لپٹی ہوئی گہری کالی اور اداس پتھروں والی کچھ دیواریں دکھائی گئی ہیں، پتھریلے فرش پر ناچتے ہوئے مور کو فلمایا گیا ہے۔مگر اس مشہور زمانہ ویڈیو میں جس کو یوٹیوب پر قریب چھیاسٹھ کروڑ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں، وسئی یا بسین کے قلعے کی بس دو تصویریں دکھائی گئی ہیں اور ان کو بھی اتنا مصنوعی طور پر پیش کیا گیا ہے کہ وہ کسی فلمی سٹوڈیو میں بنائے گئے سیٹ کی طرح معلوم ہورہی ہیں۔ویسے بھی کوئی انگریز وسئی کا قلعہ دکھا ہی نہیں سکتا،  اس کی خوبصورتی کو پرتگالیوں نے بھی ایک زمانے میں روندا تھا، جب بہادر شاہ گجرات کو ایسی شکست ہوئی کہ وسئی کے اس پھیلے ہوئے دیو قامت قلعے کی آغوش سے نکل کر گجرات کے اس سلطان کو سمندر میں غرق ہونا پڑا۔مگر آج یہ قلعہ مجھے کیوں یاد آیا، اس کی ایک وجہ ہے۔

دہلی میں آج کل رحیم خانخاناں کے مقبرے کو سجانے بنانے کا کام زوروں پر ہے۔ اپنے دس سال سے زائد عرصے میں ، میں نے اس اجاڑ مقبرے کی جالیوں کو بھی ہمیشہ زنگ آلود دیکھا تھا، مگر اب جب ان دیواروں پر دوسری چمکیلی پرت چڑھانے کی کوشش ہوتے دیکھ رہا ہوں تو تسلی ہورہی ہے،آرٹ کی پرورش کرنے والے اور رحیم کی ایسی دیکھ بھال کرنے والے اگر اس کے دوہے اور ان میں موجود پیغام کو بھی عام کریں تو شاید مذہب و نسل کی سیاست کو کچھ دیر کے لیے گھن لگ جائے۔مگر خیر، ابھی تو ایسا ہونے کی کچھ امید نہیں، بظاہر تو رحیم کا وسئی کے قلعے سے کوئی تعلق نہیں، مگر مجھے لگا کہ دہلی کی زیادہ تر تاریخی عمارتیں اب وہ نہیں رہی ہیں جو اپنے اصل زمانے میں تھیں، شاید  پرانا قلعہ یا یوسف سرائے میں ویران پڑی مسجد موٹھ کچھ ایک ایسی عمارتیں ہونگی، جن پر ابھی حکومتوں کی نظر کرم پڑنا باقی ہے، ورنہ زیادہ تر عمارتوں کو دوبارہ زمین سے اگایا گیا ہے، ہمایوں تو شاید آج اپنے مقبرے کو دیکھ کر دوبارہ مرنے کی خواہش کا اظہار کردیتا۔\"\"

وسئی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، بلکہ مہاراشٹر کی بے پناہ سرسبز زمین میں اس کو تعلقے کی حیثیت حاصل ہے اور وہاں قائم و دائم یہ قلعہ اپنی بغلوں میں تاریخ اور تہذیب کی کائیاں اگائے جوں کا توں کھڑا ہے۔اس کی پتھریلی زمین  تب صاف ہوتی ہے، جب یہاں کسی فلم کی شوٹنگ ہوا کرتی ہے، مگر یہ فلم کی شوٹنگ بہت زیادہ نہیں ہوتی جو کہ اس قلعے کی سکون پسند طبیعت کے لیے ایک خوش کن بات ہے۔میرا بچپن اس قلعے کی کھردری اور سخت دیواروں پر چلتے، اس کی ڈھلوانوں پر پائوں جماکر کھڑی ہوئی بکریوں کا دیدار کرتے اور اس کے پیٹ میں موجود گھاس کے سبز قالینوں پر لیٹتے، کھیلتے اور دوڑتے گزرا ہے۔وسئی کا قلعہ آج بھی اپنی تہذیب میں اتنی ہی جھریوں کو جگہ دینے کا قائل ہے، جس سے اس کا سولھویں صدی والا میک اپ خراب نہ ہو۔ایک چھور پر لمبی ، گھاس میں لپٹی ہوئی سفید اور پتلی سڑک اور دوسرے چھور پر سمندر کے کنارے موجود بڑے بڑے جہازوں اور سینے پر ٹھکے ہوئے لائٹ ہائوس کی لال اور سفید ویرانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔حالانکہ جن دنوں میں وہاں تھا، مشاہدے کے پھیر میں نہیں پڑا کرتا تھا۔سلیپر پہنے، گھاگھرے سی ایک پھیلی پینٹ اور پھٹی ہوئی جیبوں والا سکولی شرٹ پہنے اپنے دوستوں سمیت بھری دوپہریوں اور چمکارتی ہوئی شاموں میں وہاں چکر لگایا کرتا۔

فلمیں لکھنے، بنانے کا بھوت مجھ پر ان دنوں سوار تھا۔میں اپنے دو دوستوں مبشر اور سوہیل کو قلعے میں لے جایا کرتا، ہم وہاں چیخ چیخ کر سناٹوں کی کچی نیندوں پر مستقبل کے خوابوں کے چھینٹے مارا کرتے۔پرتگالیوں کا ایک قبرستان ،چھوٹا سا، اس قلعے میں آباد ہے۔برابر میں ایک اونچی جگہ پر ایک صلیب لگی رہتی تھی، پتہ نہیں اب ہے یا نہیں۔ہم کسی سرنگ کو تہہ خانہ بنالیا کرتے، سین بناتے کہ ایک دوست پھنسا ہے اور دوسرا دوست اسے بچانے جارہا ہے، میں دونوں کو مکالمے یاد کرایا کرتا۔وہ بڑی سنجیدگی سے اس فلم کا پارٹ ادا کرتے اور ہم قبروں  پر لگے ہوئے پتھریلے کتبوں پر \"\"بیٹھ کر ایک دوسرے سے بحث کرتے، الجھتے اور سین کو مزید جاندار بناتے۔بیری، املی، پیپل اور آم کے درختوں سے گھرے ہوئے اس قلعے کی چھتوں پر بھی ہم جاتے، وہاں سے نیچے، قدرتی سبز پتوں کی چادروں میں لپٹا ہوا چھوٹا سا کھپریلوں کا ایک محلہ نظر آتا، میں سوچا کرتا کہ اگر کوئی یہاں سے کود جائے تو اس کا کیا حال ہوگا۔الغرض دن بھر ہم وہاں طرح طرح کی فلموں کے سین شوٹ کیا کرتے، نہ کوئی کیمرہ، نہ کوئی مائک، نہ دوسرا ساز و سامان۔ بس سلیپروں اور لمبی جیبوں والی پتلونوں کا بھی اپنا ایک دور ہوتا ہے۔

کبھی کبھار مختلف سکولوں کی پکنک بھی وہاں جایا کرتی تھی، خود حذیفہ اردو ہائی سکول (جس میں ہم پڑھا کرتے تھے)نے کئی دفعہ ہمیں وہاں کی  سیر کرائی۔خاص طور پر تین دنوں کا سال میں ایک تفریحی پروگرام بنا کرتا تھا۔جس میں صبح سے شام تک کے لیے ہم سب بچوں کو قلعے میں لے جایا جاتا۔تب حذیفہ اردو ہائی سکول میں صرف دسویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی۔ایک کھنڈر نما تین منزلہ رہائشی بلڈنگ کو کسی طرح ایڈجسٹ کرکے سکول بنایا گیا تھا اور اس کا نام بھی عوامی سے حذیفہ شاید کسی سپانسر کے کہنے پر رکھ دیا گیا تھا۔بہرحال ہم صبح سویرے قطار بناتے، ہر جماعت کے بچوں کی ایک الگ قطار ہوتی اور ہم صف بہ صف تقریبا ایک تہذیبی پریڈ کے ساتھ تین چار کلو میٹر کا یہ فاصلہ بچکانہ قسم کے قہقہوں  اور اٹکھیلیوں کے ساتھ طے کرتے۔دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکی جاتیں، کھیل بھی عجیب عجیب قسم کے۔بھاگتے میں سوئی میں دھاگا ڈالو، لگورچا کھیلو، کبڈی، کھوکھو اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔میں نے غالبا ایک دفعہ لنگڑی ریس میں حصہ لیا تھا، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ان تین دنوں تک قلعہ  بچوں کے لیے اپنا دل کشادہ کرلیتا۔مختلف ٹھیلوں والے چاٹ، رگڑا، پیٹس اور نہ جانے کون کون سی دلچسپ چیزیں لیے وہاں کھڑے رہتے، سبھی کو فائدہ ہوتا۔ نہ کبھی کوئی پوچھنے آتا، نہ جاننے کہ ہم سب کون سے سکول سے آئے ہیں۔مجھے لگتا تھا کہ یہ قلعہ ہم سبھی بچوں کی ایک مشترکہ پراپرٹی ہے۔جس کو جب چاہو، جہاں سے چاہو اپنے گھر کی طرح دیکھو، اس میں رہو اور خوب شور مچائو، کھیلو اور اسی کے دامن میں آباد کسی بوڑھے درخت کے سائے میں لیٹ کر سو جائو۔\"\"

وسئی کے قلعے کے آس پاس مراٹھی کولیوں کی جو دراصل مچھوارے ہیں، اچھی خاصی آبادی تھی۔انہوں نے قلعے کے دامن میں ہی خوبصور ت مگر چھوٹے بڑے گھر بنارکھے تھے۔ان کولیوں کا طرز زندگی دو مختلف مذہبی زندگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔مرد سلک کے سفید یا دوسرے رنگوں والے شرٹوں کے ساتھ کالی ٹانگوں پر ایک تکون لنگوٹ باندھتے ہیں، جس میں سے ان کی پنڈلیوں کے بال اور بعضوں کے گھٹنے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔عورتیں چست چولیوں والی ایسی ساڑیاں پہنتی ہیں، جن سے ان کی کمر کا ابلتا ہوا گوشت ساڑی کی نچلی پٹی سے پھسل کر بار بار باہر لٹک جاتا ہے۔آس پاس جدھر دیکھو، مچھلیوں کی ایک ایسی بو ہوا میں رقصاں معلوم ہوتی ہے، جسے یوپی اور بہار والے شاید کھراند ہی سمجھتے ہونگے۔مراٹھیوں کا مزاج ہوہلڑ کا نہیں ہے، ان کے یہاں شور کے انتہائی درجے کو \’مچھی بازار\’ یعنی مچھلی بازار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔لوگ یا تو مچھوارے ہیں یا سرکاری نوکر ہیں۔مراٹھیوں کے لیے سرکاری نوکری اتنی ہی سکون پسندانہ زندگی کا تصور اپنے جلو میں رکھتی ہے، جتنی کہ مچھواروں کے لیے وسئی کا قلعہ۔ان لوگوں کی دوہری مذہبی زندگی کا ذکر میں نے تاریخی حوالے سے کیا ہے۔پرتگالی جب یہاں آئے تو انہوں نے کولیوں کو مار مار کر کرسچین بنایا۔خون کا رنگ جب سمندر میں مچھلیوں کی آنکھوں کو ڈسنے لگا تو آبادی کی آبادی نے تبدیلی مذہب کو ترجیح دی۔آخر زندگی سے زیادہ ضروری ہے بھی کیا چیز۔اسی لیے آج بھی یہ کولی اپنے گھروں میں  ہندو دیوی دیوتائوں کی رنگین تصویریں بھی سجاتے ہیں اور گڈفرائڈے پر چرچ جاکر موم بتیاں بھی روشن کرتے ہیں۔\"\" وسئی کا قلعہ اس تمام تر تہذیبی الٹ پھیر اور مذہب کا خراج دے کر بٹوری گئی زندگیوں کا آخری سہارا ہے۔

اس قلعے میں کئی گول سیڑھیاں ہیں پر جن پر سخت اندھیرا رہتا ہے، ایک دفعہ میں ایسے ہی اندھیرے میں پھنس بھی چکا ہوں، درمیان میں بنی ہوئی طاقوں پر سجانے والی مشعلوں والے ہاتھ خود نہ جانے کب کے بجھ چکے ہیں۔ لوگوں نے طرح طرح کی افواہیں بھی پھیلا رکھی ہیں۔ کہا تو جاتا ہےکہ یہ علاقہ بہت عرصے تک تڑی پار سمجھا جاتا تھا اور یہاں پیشہ ور مجرمین کو لا کر بھوک اور پیاس سے نڈھال ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا، مگر اس پر یقین کرنا کتنا ٹھیک ہے، اس حوالے سے میں کچھ نہیں جانتا۔ البتہ ان موٹی موٹی پتھریلی دیواروں سے میری زندگی کے بہت سے حسین نقش جڑے ہوئے ہیں۔

قلعہ میں سانپ بچھو بھی ہیں، گرگٹ تو اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ ان کا رعب داب ہی ختم ہوگیا ۔یہیں ایک عجیب و غریب قسم کی چھپکلی بھی پائی جاتی ہے، جسے دوست \’پانچ پاولی\’ کہتے ہیں۔وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ اگر یہ چھپکلی کسی کو کاٹ لے تو آدمی پانچ قدم سے زائد نہیں چل سکتا۔ہم بچپن میں اس چھپکلی سے بہت ڈرتے تھے۔ سانپوں کے ڈسنے کے واقعات عام تو نہ تھے، مگر اتنے کم بھی نہیں تھے کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے۔بھوتوں، چڑیلوں، سرکٹوں کے ایسے قصے جن کا گواہ صرف وہ شخص ہوتا تھا، جس پر وہ واقعہ بیتا ہو، قلعے کے تعلق سے بہت زیادہ مشہور تھے۔شام نے اپنا گھونگھٹ ڈالا اور لٹکی ہوئی چمگادڑوں نے اپنے بدن پھڑپھڑا کر الٹنے شروع کردیے۔ سیار بھی تھے، جو تنہائیوں میں غول بنا کر نکلا کرتے، مگر لوگوں نے زیادہ تر ان کی آوازیں ہی سنی تھیں، دیکھا بہت کم نے تھا۔قلعہ کے ساتھ تین ہانڈی کا عجیب و غریب لیکن دلچسپ قصہ بھی منسوب تھا۔اس کی سب سے اونچی دیوار پر تین ہانڈیاں لٹکی تھیں، ہم تو خیر کبھی وہاں پہنچے ہی نہیں، بس نیچے ہی نیچے سے انہیں دیکھا کیے، مگر کئی لوگ بتاتے تھے کہ ان ہانڈیوں میں سے کسی ایک میں خزانہ ہے اور دو میں سانپ، کئی لوگوں نے قسمت آزمائی کے چکر میں خود کو سانپوں سے ڈسوایا مگر اب کی دفعہ وسئی میں مقیم میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ تینوں ہانڈیاں پھوٹ چکی ہیں  ، اب ان کا نام و نشان باقی نہیں، بس یادگار کے طور پر ایک ہانڈی کا چھوٹا سا ٹکڑا کسی اجنبی چھال سے لٹکا ہوا اب بھی جھول رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments