گنہگار توجہ فرمائیں


جب آخری بندہ بھی مولانا صاحب کے پاس سے فقہی مسائل پوچھ کر باہر چلا گیا تو مولانا صاحب کی نظر ان کے حجرے کے ایک کونے میں سر جھکائے، ایک نوجوان پر پڑی۔ ہاں بھئی برخوردار! ادھر آؤ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ مولانا صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ نوجوان جھجھکتا ہوا مولانا صاحب کے قریب آیا اور ان کے پاؤں چھونے کی کوشش کی کہ مولانا نے اپنے پاؤں پیچھے ہٹا لیے۔
کیا بات ہے؟ اپنا مسئلہ بتاؤ! گنہگار نہ کرو۔
جی مولانا! مجھے دوزخ اپنے سامنے نظر آ رہی ہے۔ میری بخشش کروا دیجیے؟
ہیں؟ یہ کیا کفر بک رہے ہو؟ بخشش کرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات باریٰ ہے۔ ایسا کون سا گناہ تو نے کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے؟
وہ نوجوان بولا! جی بہت بڑا گناہ کرتا رہا ہوں۔ مجھے بس معافی دلوا دیں۔
برخوردار میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ معاف کرنے والی صرف رب کی ذات ہے وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ تم بتاؤ ایسا کون سا گناہ تجھ سے سرزد ہو گیا ہے کہ تم کو اپنی دوزخ کا یقین ہے؟ مولانا نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر پوچھا۔ آخر وہ کون سا گناہ ہے جس نے تمہاری یہ حالت کردی ہے؟
جی جی! مولانا صاحب کیا بتاؤں۔ میں اپنی چھوٹی بہنوں پر جنسی تشدد کرتا رہا ہوں۔
کیا؟ مولانا بے اختیار اچھل پڑے
ناہنجار، تجھے تو زندہ جلا دینا چاہیے۔ دفع ہو جا میری نظروں سے۔ اتنا بڑا گناہ؟ تو واقعی مسلمان بھی ہے؟ تو۔ تو کہیں کافر تو نہیں؟
جی نہیں الحمد للہ میں مسلمان ہوں، میرے والدین نے میرے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ میں نے تھانیدار کو رشوت لگائی تو اس نے میرے والدین سے کہا کہ اس کا جرم بہت بڑا ہے، مگر اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ دنیا کی عدالت اسے صرف زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ سال سزا دے گی اور یہ پھر نہ صرف آزاد ہو جائے گا بلکہ اسے اگلے جہاں میں بھی معافی مل جائے گی۔ تو اگر آپ لوگ اسے یہاں اس دنیا میں معاف کر دیں تو اگلے جہاں یہ لاکھوں سال دوزخ میں جلتا رہے گا۔ تو میرے والدین نے تھانیدار سے کہا کہ اسے اگلے جہان ہی سزا ملنی چاہیے ہمیشہ کے لیے مگر اسے کہہ دیں کہ یہ دوبارہ ہمارے گھر کا رخ نہ کرے۔ تو مولانا صاحب اس طرح میری دنیا کی عدالت سے خلاصی ہو گئی۔ اور میں نے تھانیدار کے کہنے پر اپنا آبائی علاقہ بھی چھوڑ دیا اور دوسرے شہر میں آ کر ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے لگا۔
اس طرح میں سزا سے تو بچ گیا مگر اب میرا ضمیر مجھے سونے نہیں دیتا مجھے روز رات کو اپنی بہن کی چیخیں اور پھر دوزخ کے فرشتے نظر آتے ہیں جو مجھے آگ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میں۔ میں۔ نوجوان ہچکیاں لیتے ہوئے بولا۔ آپ کے پاس بہت امید لے کر آیا ہوں۔ مجھے جنت کا راستہ دکھا دیں۔ مجھے جنت کا راستہ دکھا دیں۔
اب مولانا کے چہرے پر تفکر کے تاثرات ابھرنے لگے۔ سن ناہنجار، تیری بخشش کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ دوزخ تیرا مقدر بن چکی ہے۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے مولانا بولے اب ایک ہی رستہ ہے۔
نوجوان کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ سر اٹھا کر غمگین لہجے میں بولا۔ وہ کیا؟
وہ یہ کہ تو اگر کسی گستاخ مذہب کو واصل جہنم کردے تو تیرا بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف ہو جائے گا۔
یہ سن کر نوجوان کے غمگین چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی چمک پیدا ہو گئی۔
وہ مشینی انداز میں اٹھا! مولانا کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور جھک کر سلام کر کے مولانا کے حجرے سے باہر چلا گیا۔ اب وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اور اس کے من من کے پاؤں اب ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اور منہ سے مذہبی کلمات ادا ہو رہے تھے۔ ابھی وہ اپنے گھر سے چند سو گز کے فاصلے پر تھا کہ اس کے کانوں میں ”سر تن سے جدا“ جیسے نعرے گونجنے لگے۔ وہ فوراً ان نعروں کی طرف متوجہ ہوا اور دیوانہ وار ان نعروں کی سمت چل پڑا جو ساتھ والی بڑی سڑک سے آرہے تھے۔ جیسے ہی وہ اس بڑی سڑک میں داخل ہوا تو اس نے سینکڑوں لوگوں کو ہاتھ میں ڈنڈے پتھر لئے ہوئے، بپھرے ہوئے مجمعے کو پایا جو کسی قریبی فیکٹری کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے اس مجمعے میں موجود ایک باریش جوان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ تو وہ نوجوان غصے اور جذبات سے بھرے لہجے میں بولا۔ ایک غیر مسلم نے ہمارے مذہب کی گستاخی کی ہے ہم اس گستاخ کو سزا دینے جا رہے ہیں۔
نوجوان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے گناہ اتنی جلدی معاف ہوجائیں گے۔ اس کا جسم مذہب کے عشق سے سرشار ہو چکا تھا۔ اس نے فوراً قریب پڑا ہوا ایک لوہے کا پائپ اٹھایا اور جوش سے نعروں کا جواب دیتا ہوا اس مجمعے میں شامل ہو گیا جو مبینہ طور پر گستاخ مذہب کی طرح دیوانہ وار بڑھ رہا تھا۔

(مصنف کے مطابق یہ افسانچہ کچھ حقیقی کہانیوں سے اخذ کیا گیا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments