جنسی صلاحیت پہ کرونا کے اثرات: روحانیت اور لاشعور


روزانہ کی واک کے دوران کبھی کبھی میرے ذہن میں عجیب سوالات اُٹھتے ہیں اور پھر میرے ذہن کا بایاں حصّہ ان سوالات کا تجزیہ کرنا شروع کر دیتا ہے
اور بالآخر لاشعور کے وجدان سے ان کا جواب آ جاتا ہے۔ کہتے ہیں ہر سوال کا جواب انسان کے اپنے اندر موجود ہوتا ہے اور صوفیا ء کا تو ماننا ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے لیے مقرر تمام علوم اس کی روح کے اندر رکھ دیے گئے ہیں جو بابا آدم (ع) سے لے کر آج تک ہزاروں یا لاکھوں سال گزرنے کے باوجود انسانوں کے جینز میں منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ کوانٹم فزکس کے باوا ڈیوڈ ٹونگ کی باتوں کا بھی مفہوم یہ ہے کہ چونکہ کائنات کی بنیاد توانائی ہے تو توانائی اربوں سال سے یہ علوم اپنے اندر لیتی چلی آ رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کائنات کے بلیک ہولز کی بات کرتا ہے جو سب کچھ نگلتے چلے جا رہے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس کہکشاں میں ہماری زمین موجود ہے وہ اس کو بھی نگل جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلیک ہولز کے دوسری طرف اس جنت کا وجود ہو جس کی گواہی الہامی مذاہب دیتے ہیں۔ کارل ژونگ کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کے اذہان کائنات کے مرکزی دماغ کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔اگر آپ ژونگ کی کتاب پڑھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ہے ہر انسان کا انفرادی لاشعور اور ایک ہے کائنات کا اجتماعی لاشعور اور یہ کہ تمام انفرادی لاشعور اس اجتماعی لاشعور کے ساتھ منسلک ہیں۔ ژونگ کی اس بات سے میں کسی حد تک متفق ہوں کیونکہ مجھے خود کبھی کبھی اردگرد کے لوگوں یا آنے والے حالات کے بارے میں کبھی کبھی وجدانی خیالات آ تے ہیں اور کسی وقت وہ سچ بھی ثابت ہو جاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں میری یہ روحانی صلاحیت مجھے قطب، غوث یا ولی کے درجہ پہ فائز نہیں کرتی بلکہ یہ سب میرے ذاتی انفرادی لاشعور کا اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے کائنات کے اجتماعی لاشعور کے سمندر میں غوطہ لگانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔اچھا، ہر انسان کے اندر روحانی صلاحیتیں ہوتی ہیں لیکن قدرت نے ایک عجیب بندوبست کیا ہوا ہے کہ جس فرد میں خواہشات کی فراوانی ہو اُس کے اندر یہ صلاحیتیں سوئی رہتی ہیں اور جس فرد میں روحانیت بیدار ہوتی ہے اس کے اندر خواہشات خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔ آپ مرعوب نہ ہوں روحانیت کو تقدس کے ساتھ جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔روحانیت کی کرامتوں کے پیچھے “حضرت لاشعور” موجود ہوتے ہیں اور لاشعور کی طاقت کے پیچھے اللہ کا امر ہوتا ہے۔
آج  4 جنوری 2022  کو بہاول پور کا موسم ابر آلود تھا کہیں کہیں بوندا باندی بھی ہوئی۔بہنوں کے فون آئے باہر بہت سردی ہے لیکن میں نے کہا میں تو واک کے لیے جاؤں گا۔ میں کیا کروں میرا عجیب مزاج ہے بارش ہو رہی ہو۔ برفباری ہو رہی ہویا انتہائی سرد ہوا چل رہی ہو تو میرے اندر سرائیکی زبان کے الفاظ کے مطابق “باڑ” یا “ہُوک” سی اُٹھتی ہے کہ چل باہر نکل اور طویل واک کر۔ جیسے جیسے سرد ہوا میرے جسم سے ٹکراتی ہے مجھے ایک مدہوشی کا سا احساس دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ مجھ پہ سردی کا اثر بالکل نہیں ہوتا۔ میں بھی ایک عام انسان ہوں لیکن بارش، برفباری اور سرد ہواؤں کے طوفان میں جب درختوں کو دیکھتا ہوں۔ پرندوں کو دیکھتا ہوں اور پھر شام کے وقت ان درختوں کو کراس کرتی روشنی کو دیکھتا ہوں تو عجیب سی فیلنگ ہوتی ہے کہ کیا میں اس کائنات کے وجود کا ایک حصّہ ہوں یا اس سے جُدا ہوں یعنی ہم دونوں ایک ہی اکائی ہیں یا دو مختلف اکائی ہیں۔ اب آپ کہو گے اکبر شیخ اکبر آج تمہیں کیا ہو گیا ہے آج تم کچھ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تو میں کہوں گا کہ انسان کو کبھی کبھی بہکنا بھی چاہیے۔ یہ روٹین کی زندگی یہ روٹین کی لگی بندھی سوچیں زندگی کو بے مزہ کر دیتی ہیں۔
شفاف پانی کا سمندر ہو اُتر جاؤں مَیں
ڈُوبوں اور ڈُوبوں اور مر جاؤں مَیں
مچھلیاں کھا جائیں مجھے کچھ نہ بچے
کچھ بھوکوں کا رزق تو بن جاؤں مَیں
رات کالی سیاہ اور سفر میں اکبر میاں
بھیڑیوں کا جنگل ہے کِدھر جاؤں مَیں
واک کے دوران ایک دوست بھی آ گئے۔ جیسے ان کی عادت ہے حالاتِ حاضرہ پہ بات کرنا۔ “ارے بھائی! ایک مذہبی سیاسی جماعت نے پورے بہاول پور شہر میں اپنے پوسٹرز لگا دیے ہیں کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں صر ف اُسی کو ووٹ دیے جائیں۔ لگ رہا ہے یہ مذہبی سیاسی جماعت اپنا بہت بڑا ووٹ بنک بننے کے بعد بلدیاتی الیکشن میں سویپ کرے گی اور بڑے پیمانے پہ سیٹیں حاصل کرے گی”۔ میں نے کہا اگر جیت بھی گئی تو جب عوام کے بنیادی مسائل حل نہ کر پائے گی تو کیا اپنی مقبولیت کو برقرار رکھ سکے گی؟ پھر کہنے لگے یار! جب سے کرونا آیا ہے لوگ جنسی طور پہ ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ میڈیکل سٹورز پہ جنسی ادویات کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ میں نے کہا پھر تو جو عورت عام حالات میں آٹھ دس بچے پیدا کر سکتی ہے اب وہ تین یا پانچ تک بچے پیدا کر ے گی۔ کہنے لگے وہ کیسے؟ میں نے کہا دیکھو کرونا وائرس ہوا میں موجود تھا تو ظاہر ہے اس نے ہر شخص کو کسی نہ کسی حد تک تو متاثر کیا ہوگا۔نوجوانوں اور بہتر قوتِ مدافعت رکھنے والوں کو کم متاثر کیا ہو گا لیکن اگر کرونا وائرس ہارمون گلینڈز پر بھی اپنا وار کر گیا ہوگا تو ہارمونز کی پیداوار تو کم ہو گئی تو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو گئی۔ ویسے بھی ہائیپو تھیلامس گلینڈ پچوٹری گلینڈ کو حکم دے رہا ہے اور پچوٹری ماسٹر گلینڈ دیگر تمام گلینڈز کو کنٹرول کر رہا ہے لیکن جب ہارمونز کی پیداوار ہی متاثر ہو گئی تو کیا کیا جائے۔ اب اگر گردوں میں موجود ایڈ رینل گلینڈز کو ہی دوبارہ سے ایکٹو کر لیا جائے اور وہ پہلے کی طرح ہارمونز بنانا شروع کر دیں تو مریض کو ڈائلائسز مشین سے واپس نارمل لائف کی طرف لایا جاسکتا ہے۔ اب دیکھو نا خون کی کمی بشمول انیما، تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا وغیرہ کے شکار بچوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جو ہیمو گلوبن ان کے جسم کے ہر خلیہ میں آکسیجن کو لے کر جاتی ہے اس کی پیداوار ہی کم ہو جاتی ہے۔ اب گردوں میں ایک ایسا انزائم بنتا ہے جو ہیمو گلوبن کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس انزائم کی پروڈکشن کو دوبارہ فعال کر لیا جائے تو خون کی کمی کے مرض پہ قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے لیکن کیا کیا جائے پاکستان، انڈیا اور جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پہ ابھرنے والی نئی نئی مڈل کلا س کا جو اپنی دولت کے اظہار کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنے مکانات ہی اس طرز کے بنا رہی ہے کہ کمرہ در کمرہ ایسے کمرے بنائے جاتے ہیں کہ وہاں ائیر کنڈیشنڈ اور ہیٹرز تو لگے ہوتے ہیں لیکن تازہ ہوا براہ راست نہیں پہنچ جاتی۔ اب تھیلیسیمیا او رخون کی کمی کے مریض کو ان کمروں میں رکھا جاتا ہے جہاں تازہ ہوا کی صورت میں ملنے والی آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔ بچے کا رنگ زرد پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اُسے کندھوں پہ اُٹھا کے ہسپتال بھاگ پڑتے ہیں کہ خون کی بوتل لگواؤ نہیں تو مر جائے گا۔ ہمارے ہاں کے ڈاکٹرز بھی تو عجیب ہیں وہ خون کی کمی کا شکار بچوں کا حتمی علاج بس خون کی بوتلیں لگوانے کو سمجھتے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے ہیمو گلوبن کی پیداوار کم ہو گئی لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ بچے میں خون کے ضیاع کی کوئی وجہ تو رہی ہو گی اسے بھی ساتھ ساتھ درست کر لیا جائے اور والدین کو سمجھایا جائے کہ بچے کو ایسے ماحول میں رکھیں جہاں قدرتی آکسیجن کی فراہمی ہوتی رہے تو بھی اس مرض پہ کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ غور کیا جائے تو انیما اورتھیلیسیمیا کے امراض کا شکار زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو گاؤں کے کُھلے ماحول کی بجائے شہروں میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ خیر۔
پھر سوال آیا کہ اگر انڈیا پاکستان میں جنگ ہو گئی تو یہ جنگ تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے گی۔ میں نے کہا انڈیا اور پاکستان کے درمیان کبھی بھی بڑی جنگ نہیں ہو گی۔ بس چھوٹی موٹی جھڑپیں ہو ں گی اور ایسا لگے گا ابھی بڑی جنگ چھڑی ابھی بڑی جنگ شروع ہو ئی لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ کہنے لگے تو پھر کیا ہوگا؟ میں نے کہا ہو سکتا ہے پاکستان، افغانستان اور وسطِ ایشیائی ریاستیں کنفیڈیریشن بنا لیں۔ ہو سکتا ہے سارک ممالک مغرب کی معاشی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے سنگل کرنسی کو اپنا لیں۔ ہو سکتا ہے جنوبی ایشیائی ریاستیں ایک دوسرے کے شہریوں پہ ویزہ کی پابندی ہٹا دیں او ر آمد و رفت کو فری کر دیں۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا  “شیخ! پھر تو مزے ہو جائیں گے ہم جہاں چاہیں گے آزادی سے گھومیں گے” میں نے کہا یہ سارے مزے ہماری آنے والی جنریشن کو ملیں گے ہم تو مر چکے ہو گے۔ ہم تو شہر کے اندر سڑک کے ساتھ ساتھ واک کرنا چاہیں تو وہ نہیں کر سکتے کہ یار لوگوں نے فٹ پاتھ پہ ہی اس قدر تجاوزات قائم کی ہوتی ہیں۔میونسپلٹی والے تجاوزات اُٹھا کے لے جاتے ہیں۔ دکاندار اڑھائی سو روپے جرمانہ بھر کے سامان دوبارہ لا کے اپنی دکان کے سامنے فٹ پاتھ پہ رکھ دیتا ہے۔
سڑک پر چلنا چاہیں تو تیز رفتاری سے موٹر سائیکلز اور کاریں چلاتے آٹھ دس سال کی عمر کے ڈرائیورز کے نشانہ پہ آسکتے ہیں۔ کہنے لگا ان سب کو کون ہٹائے گا۔ میں نے کہا مجھے کیا پتہ کون ہٹائے گا؟ ہو سکتا ہے وہ انگریز قبروں سے اُٹھ کر آئے جس نے برصغیر میں اور نہیں تو کم ازکم عدل تو قائم کیا تھا۔ اس کی حکومت کے کچھ اصول تو ہوتے تھے۔ ہم ایک قوم تھوڑی ہیں بس ایک ہجوم ہیں جو غریب ہے تو اسے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے شام کو چولہا جلانا ہے اور امیر ہے تو اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنا ہے چاہے اس کے لیے “شارٹ کٹس” ہی کیوں نہ اپنانے پڑیں۔ ہمارے ہاں تو مذہب کا استعمال بھی اپنے اثر و رسوخ او ر ذاتی دولت میں اضافہ کرنے یا ذاتی مفادات پورے کرنے یا اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ وہ میرا مُنہ تکنے لگا۔ شام ہو رہی تھی۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ رہی تھی۔ مجھے چائے کی طلب بھی ہو رہی تھی۔ پارک میں بھی اندھیرا چھا رہا تھا۔ انسان کی روح بھی تو ایک پرندہ ہوتی ہے اور اُسے بھی واپس لوٹنا ہوتا ہے۔ چلو اپنے گھر لوٹ چلیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments