نہر اب تک پرانے پہرے پہ چل رہی ہے


ڈی جی آئی ایس پی آر  نے اپنی پریس کانفرنس میں کئی اہم امور پر اپنے ادارے کی حقیقی پوزیشن واضح کی ہے، پچھلے کچھ عرصے سے مختلف امور کے بارے میں افواہوں کا طوفان برپا تھا، اور اس بارے میں زیادہ تشویش تب پیدا ہوئی جب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ان ہی افواہوں کی بابت کابینہ کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی کی افواہوں اور کسی مبینہ ڈیل کی خبروں پر غور کیا گیا اور اس بارے میں حکمت عملی طے کی گئی، اس سیاسی ماحول میں آئی ایس پی آر کی طرف سے منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس کا قوم کے لیے خصوصی توجہ کا باعث ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں، اس پریس کانفرنس میں، ہمیشہ کی طرح دفاعی اداروں کی طرف سے حکومت وقت کی، آئین و قانون کے مطابق اطاعت کا واشگاف الفاظ میں اظہار فرمایا گیا، جو ایک خوش آئند امر ہے، اور قوم کے کان عرصہ دراز سے یہ خوش کن الفاظ سننے کو ترس گئے تھے، حالانکہ اکثر حقائق رسمی اظہار کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔

ایک بات واضح ہے کہ اس پریس کانفرنس سے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ضرور ملے گی، اور بہت سے خوش فہم حضرات اپنے تئیں یہ قیاس کئیے بیٹھے تھے، کہ کہ ملک کو درپیش موجودہ شدید معاشی بہتری یا انحطاط اور بحران کی ذمہ داری مکمل طور پر موجودہ حکومت اور ان کی پالیسیوں پر ہی عائد ہوتی ہے، لیکن ایسے خوش فہم اور سادہ لوح حضرات کی یہ غلط فہمی اب ضرور دور ہو جانی چاہیے، ایک پیج پوری طرح سلامت اور برقرار ہے، اس بات کا واشگاف انداز میں ذکر بھی کیا گیا، لہذا موجودہ دور حکومت میں اختیار اور منتخب کی گئیں اندرونی اور بیرونی پالیسیوں اور ورلڈ بینک بیسڈ معاشی پالیسی کے عواقب و نتائج کی روشنی میں بہتری یا ابتری کے ذمہ داروں کا تعین اب بہت آسان اور واضح ہے۔

اسی پریس کانفرنس میں افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر باڑھ کی تنصیب اور افغان حکام اور اہلکاروں کی طرف سے اسے اکھاڑنے کے معاملے کا بھی ذکر ہوا، یہاں ہمیں ایک مثال کے طور پر بھارت کی طرف سے سیز فائر لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر نصب کی گئی تقریباً اسی نوعیت اور قسم کی باڑھ کی مثال اور تکنیکی ساخت مدنظر رکھنی چاہیے، بھارت نے یہ باڑھ سرحدی لکیر سے چند سو میٹر پیچھے نصب کی ہے اور اس کے آگے پاکستان کی طرف والی سمت میں بھی مورچے اور گشت کا موثر نظام قائم کیا ہے اور اس باڑھ کے عقب میں فوجی نگرانی اور پیٹرولنگ کا نظام ہے ہی، لہذا اس باڑھ کو عبور کرنے یا اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے والا دونوں اطراف سے گھیرے میں آ جاتا ہے، لیکن ہماری خطیر سرمائے اور جانی و مالی قربانیوں سے افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر نصب شدہ باڑھ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عین باڈر لائن پر نصب کی گئی ہے، اور اسی وجہ سے افغان اہلکار جب ان کا دل چاہتا ہے، بغیر کسی روک ٹوک کے اس باڑھ تک آزادانہ اور بلا روک ٹوک رسائی حاصل کر لیتے ہیں، بلکہ اپنے ٹرک اور دیگر وہیکلز تک عین اس باڑھ تک لا کر جب ان کا دل چاہتا ہے، اسے اکھاڑ پھینکتے ہیں، اور مٹیریل گاڑیوں میں لوڈ کر کے لے جاتے دیکھے جاتے ہیں، ہو سکتا ہے انگور اڈہ والے معاملے کی طرح درپردہ کوئی مفاہمت یا جذبہ خیر سگالی ہو، لیکن اس تمام معاملے میں بے خبر پاکستانی عوام پر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔

اگر ہم خطے میں مثال دیکھیں تو قریب ترین ماڈل ہمیں بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحدی صورتحال اور اس پر بنگلہ دیش کی افواج کے رد عمل کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں تاریخی احسانات اور پاکستان سے علیحدگی کی جنگ میں بھارتی کردار کے باوجود سرحدی معاملات میں بنگلہ دیش کی افواج کی طرف سے بھارت کے خلاف سخت رد عمل دکھائی دیتا ہے، اور اس سرحد پر سمگلرز اور دیگر سرگرمیوں اور بھارت فوج کی کسی بھی قسم کی مداخلت کے بارے میں بنگلہ دیشی باڈر فورسز کا سخت ردعمل کئی بار مشاہدے میں آیا ہے۔

اہلیت، جذبہ، تربیت اور وسائل کے لحاظ سے پاکستانی افواج نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بہترین تسلیم کی جاتی ہیں، لہذا ایسے معاملات میں رد عمل کے لحاظ سے بھی اعلیٰ سطح پر ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے، جس میں قوم کی عزت و وقار امیدوں، توقعات اور قومی و ملکی مفادات کا بھی پوری طرح لحاظ اور احساس رکھا گیا ہو۔ دوسری طرف ہماری نیک خواہشات، بھائی چارہ، اور خیر سگالی کے جذبہ کے باوجود افغانستان کے معاملے میں بہت سے ایسے تشویشناک امور اور اقدامات سامنے آ رہے ہیں، جن پر ہمیں اپنے قومی اور ملکی مفاد کے تناظر میں غور اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، فی الحال تو یہ صورتحال ہے کہ تمام تر حمایت، بھائی چارے، مدد اور سرپرستی بلکہ ترجمانی کے باوجود ہم خود بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اور اس سلسلے میں دنیا کی دیگر مقتدر طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، جبکہ کچھ ہی عرصہ قبل ہم طالبان کی طرف سے افغانستان پر ”فل سویپ“ قسم کے قبضے کا محتاط انداز میں کریڈٹ لے رہے تھے، اور اب بھی دنیا کے سامنے افغانستان میں شدید امکانی بحران اور عوام کی مشکلات کے خدشے کی ترجمانی افغانستان پر قابض طالبان کی نسبت، ہم زیادہ زور و شور سے کر رہے ہیں، اسی بات سے افغانستان پر قابض طالبان کی اور ہماری یعنی اسلامی جمہوری پاکستان کی ترجیحات کے فرق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ہماری ترجیحات میں بجا طور پر، سب سے پہلے افغانستان میں کسی بحران کی صورت میں اس کے ماضی کی طرح پاکستان پر پڑنے والے ممکنہ اثرات ہیں، لیکن بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے افغانستان کے مسئلے کا ہمہ پہلو جائزہ نہیں لیا اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے اپنی حمایت اور رسوخ صرف افغانستان پر طاقت کے بل پر قابض طالبان کے پلڑے میں ہی ڈال رکھا ہے، جبکہ واضح طور پر افغانستان کے معاملے میں اکثریتی اور قانونی فریق وہاں کے نہتے پرامن عوام کی اکثریت ہے، جن کے حق حکومت سازی کی حمایت میں ہماری طرف سے ابھی تک کوئی کمزور سی آواز تک بلند نہیں کی گئی، حتیٰ کہ طالبان نے افغانستان کے الیکشن کمیشن کو تحلیل کر کے ایک علامتی پیغام دیا، اور ہم نے اس معاملے میں بھی اپنی تشویش ظاہر کرنے سے احتراز کیا۔

اس طرح افغانستان کے عوام کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے لاتعلقی اور ان سے عدم دلچسپی کا واضح پیغام دیا، جبکہ ہم دنیا کے سامنے ان ہی افغان عوام کے ممکنہ مصائب اور آلام کے خدشے کو ظاہر کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور ان کو عالمی برادری کی طرف سے مدد دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں، گویا افغان عوام گن پوائنٹ پر ہیں، اور ہم ان کے جان بخشی کے لیے دنیا سے نشانہ انداز کو مدد دینے اور اس کی ”قانونی“ حیثیت تسلیم کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں، اس حمایت اور وابستگی میں ہمیں وہ کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو ہمارے قومی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا، جس بھارت کی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سدباب کا دعویٰ کیا جاتا رہا اب طالبان کی فرمائش پر اسی بھارت کو پاکستان کے راستے افغانستان تک زمینی رسائی کی پیشکشوں کی شنید ہے، گویا ہم سابقہ اجزاء کے ساتھ، سابقہ طریقے سے ہی سابقہ تجربہ دھرا رہے ہیں، اس امید پر کہ ”اس بار“ نتیجہ مختلف نکلے گا۔

مسئلہ کشمیر کے ضمن میں بھارت کے بڑھتے ہوئے غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات کے ماحول میں ہماری طرف سے ایسی پیش رفت جو ہمارے ہی ماضی کے موقف کے مطابق قومی خطرات و خدشات کا باعث ہو، کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ حالیہ کچھ عرصے سے بھارت سے تعلقات کی بابت میں کچھ غیر واضح اقدامات ہوتے محسوس کئیے جا رہے ہیں، جن کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان کے مشیر معید یوسف بھی قوم کو کچھ واضح طور پر نہیں بتا رہے، اور نہ ہی اس مجوزہ پالیسی کے خدو خال پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جا رہے ہیں لہذا تمام فریقین جو ان معاملات سے براہ راست متاثر ہیں، یعنی کشمیری اور پاکستانی عوام جن کو اس تمام پیش رفت اور اس کے خدو خال سے مکمل طور پر لاعلم رکھا جا رہا ہے، اور یہ رویہ اس ضمن میں بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ فی الحال تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اس اہم ترین قومی مسئلہ یعنی مسئلہ کشمیر کے بارے میں ”اکتفاء“ کی پالیسی کے حصول کی ضمانت کو ہی مقصد بنا لیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments