بارش اور اکلوتی حاضری !


اب، یہ ذہن میں اچھی طرح سے واضح نہیں کہ بارش کتنی تیز تھی مگر کراچی کی ہلکی بار ش بھی ہمیشہ سے تیز ہی کہلاتی ہے کہ جہاں برستی ہے وہاں دنوں تک چھوٹے بڑے تالاب کی صورت، موجود رہتی ہے۔ پھر اس عمر میں، جب یہ قصہ پیش آیا تب شاید چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی پہاڑ دکھائی دیتی ہیں سو یوں سمجھیں کہ بارش زوروں پر تھی۔ محلے کی سڑک پر معمول سے کم لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ موسم کے مزاج کو دیکھتے ہوۓ گھروں میں ہی رہنے کو محفوظ سمجھ رہے ہوں گے۔

صبح کے سات بجے کا وقت ہوگا جو عام حالات میں ہر جگہ چہل پہل کا وقت ہوتا ہے مگر موسم کی انگڑائی نے آج سب کچھ تبدیل کر ڈالا تھا۔ جو دکھائی بھی دیتا تھا، قدرے تیزی میں تھا تاکہ بارش سے جلد از جلد خود کو دور رکھ سکے۔ یہی حال اکا دکا گاڑیوں کا تھا جو زیادہ دیر سڑک پر رہنے کے لۓ رضامند نظر نہیں آتی تھیں اور روز کے غبار اور دھویں کی جگہ پانی کے چھینٹے اڑانے پر بضد تھیں۔

میرے لۓ اس عالم میں چلنا قدرے محال تھا کہ ایک ہاتھ میں کتابوں کے تھیلے کو بھی سنبھا لے رکھنا تھا جو بارش کے سبب باربار ہاتھوں کے قید سے آزاد ہونے کو بے تاب تھیں۔
اُن کی پھسلنے کی صلاحیت اس پولیتھن کی وجہ سے بڑھ چکی تھی جس سے اُنھیں لپیٹ کر ڈھکا گیا تھا کہ کہیں بارش اُنھیں نقصان نہ پہنچاۓ۔ سو ذمہ داری دہری تھی، کتابوں کو بھی قابو میں رکھنا تھا اور پو لیتھین کے نخرے بھی اٹھانے تھے۔ طرہ یہ کہ اس کشمکش میں اپنی رفتار پر بھی نگاہ رکھنی لازم تھی کہ وقت ہر پہنچنا ہی اس وقت اولین ترجیح تھی۔

گھر سے نکلے ابھی بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور جیسے تیسے آگے بڑھنے کی کوششیں جاری تھیں۔ یوں لگتا تھا قدم تب ہی ساتھ دیتے ہیں جب دل اور ذہن بھی اس سفر پر آمادہ ہو۔ یہاں معاملہ الٹ تھا۔ اس بارش میں بوندوں کی جھنکار سننے اور آزادی سے بھیگنے کا موڈ تو ہو سکتا ہے، یہ لکھنے پڑھنے کا بھلا کون سا موسم ہوا۔ مگر بزرگوں کو یہ باتیں کون سمجھاۓ۔ حد ادب اور (حد عمر کی وجہ سے) سر جھکانا ہی پڑتا ہے، یہی آج بھی ہوا اور، بہ حالت تعظیم، اس موسم میں بھی کتابیں ہی تھامنی پڑیں۔

ابھی منزل کے آنے میں کچھ فاصلہ باقی تھا اور جی یہی کہتا تھا کہ کسی طرح واپسی کا سفر ممکن ہوجاۓ۔ یہ ناممکن، نہ، ممکن ہونا تھا، نہ ہوا، اور یہی سوچتے سوچتے بادل نخواستہ پیش قدمی جاری رہی۔ خواہش اور تعمیل کی اسی گومگو میں فاصلے بالاخر تمام ہوۓ اور وہ منظر سامنے تھا، جسے آج دیکھنے کی یکسر طلب نہ تھی۔ جی ہاں اسکول کا مین گیٹ مقابل تھا۔ بارش کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج سارے ذمہ دار گیٹ سے لاپتہ تھے۔

گھر سے چلتے ہوۓ ہماری راۓ یہی تھی کہ آج اسکول جانا کسی طرح مناسب نہیں مگر اماں کا اصرار تھا کہ پڑھائی کے حوالے سے کوئی حیل حجت روا نہیں اور یہ محض گھر بیٹھنے کا بہانہ ہے ورنہ گھر سے اسکول کا فاصلہ ہی کیا ہے۔ ادھر نکلے، اُدھر پہنچے۔ سو آج بھی روز کی طرح اسکول جانے کی پابندی ہوگی۔ موسم کیسا ہی (جارحانہ) ہو، اُسے پڑھائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیۓ۔ اسی نیت اور ارادے سے کتابوں اور کاپیوں کو پولیتھین کی رفاقت میسر آئی اور ہم “مردانہ وار” اسکول کے لۓ کمر بستہ ہوۓ۔

اب جو گیٹ سے اندر قدم رکھا تو اتنی ہی ویرانی دکھائی دی جتنی گیٹ سے باہر تھی۔ بارش اُسی رفتار سے رواں تھی اور اسکول کی راہداریوں میں ہُو کا عالم تھا۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ وہ جگہ ہی نہیں جہاں روز آیا جاتا ہے۔ دوسری کلاسوں کو پیچھے چھوڑتے ہوۓ اپنی چھٹی جماعت کی طرف قدم بڑھایا، تاکہ یہ جتایا جاسکے کہ وقت کی پابندی بھی ہر کسی کے بس میں نہیں۔ یہاں کا منظر بھی باقی کلاسوں سے مختلف نہ تھا۔ کلاس یکسر خالی تھی۔

شاید یہ پہلا موقع تھا کہ ہمیں اماں کی علم دوستی، فرض شناسی اور احساس ذمہ داری، اس لمحے ایک آنکھ نہ بھائی۔ چار و ناچار اپنی بینچ پر بیٹھ کر سوچا کہ چلو اپنے بال اور کپڑے ہی کچھ دیر سُکھا لئے جائیں۔ پولیتھین پر بکھرے پانی کو کسی طرح اس کی اوپری سطح سے بے دخل کیا جاۓ۔ مُبادا، یہ کتابوں اور کاپیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچاۓ۔پھر بارش رکے تو بدھووں کی طرح گھر لوٹنے کا سوچا جاۓ۔

یہ منصوبہ سازی کرتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کلاس کی راہداری میں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ دیکھا، کلاس ٹیچر کاظمی صاحب اپنا حاضری رجسٹر اٹھاۓ چلے آرہے ہیں۔

” ہیں ! صرف تم آۓ ہو ” حیرت سے خالی کلاس ہر نظر ڈالتے ہوۓ بولے۔ کچھ لمحے سوچا، پھر بڑُبڑُاۓ ” چلو جب تم آ ہی گۓ ہو تو میں حاضری بھی لے ہی لیتا ہوں “۔ اب مجھے یاد نہیں کہ اُنھوں نے اس حاضری کے لۓ یس سر یا لبیک کہنے کی بھی مجھے زحمت دی کہ نہیں۔

ہاں بس اتنا یاد ہے کہ، گورنمنٹ ہائی اسکول کلیٹن روڈ کراچی کے ریکارڈ میں ایک شفیق ٹیچر  نے یہ (انوکھی) اکلوتی حاضری، اس دن بہت محبت سے درج کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments