ریپ یا ریپ کا ڈرامہ؟


سال 2022 کے آغاز میں گذشتہ سال کے جنسی زیادتی کے واقعات کو دیکھا جائے۔ تو ریپ کیسز کی شرح میں اضافہ ہی ہوا۔ سندھ اور پنجاب میں گذشتہ سال ہونے والے زیادتی کیسز پر ہی نظر ڈالی جائے، تو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال صرف جنوری سے اگست تک سندھ میں 78 ریپ اور 34 گینگ ریپ جبکہ پنجاب میں 443 ریپ اور 130 گینگ کیسز رپورٹ ہوئے۔ جنسی زیادتی کا شکار خواتین کے لیے اپنے اوپر ہونےوالے ظلم کے لیے آواز اٹھانا کسی طور آسان نہیں۔ واقعے کی درخواست سے لیکر میڈیکل،مقدمے کے اندراج اور پھر عدالتی کارروائی تک متاثرہ خاتون کو اُس درندے کی درندگی کی ایک ایک حرکت کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ مقدمے کا اندراج ہی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ریپ کرنے والا درندہ تو عورت کے جسم کو ایک باربھنبھوڑتاہے۔ لیکن زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے اور انصاف کے حصول تک کا سفر متاثرہ کی روح کو روز زخمی کرتا ہے۔ متاثرین کے کرب اور انصاف کے لیے پیش آنے والی اذیت کو لفظوں میں بیان کرنا نہ ممکن ہے۔ یہ ساری صورتحال اُن کیسز کی ہے، جو پولیس رکارڈ میں ہوتے ہیں۔ 

 زیادتی کے وہ واقعات جو متعدد وجوہات کی بنا پرپولیس اور میڈیا کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں، اُن کی شرح کا تو صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات ان واقعات کے خلاف اٹھنی والی آواز یں دباو اور دھمکیوں کے باعث خاموش ہوجاتی ہیں۔ مدمقابل کوئی بااثر شخصیت ہو تو پھر جامشورو کی سلمی بروہی اور لوئر دیر کی عظمی شہزادی کی بے بسی ہمیں نظر آتی ہے۔ 

گذشتہ سال زیادتی کے کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے۔ جس میں زیادتی کا الزام لگانے والوں نے زیادتی کا ڈھونگ رچایا۔ گوجرہ موٹر وے پر لڑکی سے زیادتی کا معاملہ ہی لےلیں۔ جس میں خاتون نے منصوبہ بنا کر زیادتی کا جھوٹا مقدمہ درج کروایا اور مخالفین سے پیسوں کا مطالبہ کیا۔ 24 نومبر کو مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں ایک اور خاتون نے الزام لگایا۔ کہ اے ایس آئی نے گھر میں گھس کر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ کچھ دنوں بعد خاتون نے عدالت میں اے ایس آئی کو پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ جس کو وہ کئی ماہ سے جانتی تھی۔ جنسی زیادتی کو ہتھیار بنا کر کھیلے جانے والا کھیل 50 لاکھ روپے ڈیل پر اختتام پذیر ہوا۔ مظفر گڑھ میں ہی لیڈی سب انسپکٹر اپنے اغوا اور زیادتی کا مقدمہ درج کرواتی ہے۔ اور اغوا بھی کچھ اس طرح سے ہوئی کہ اس کی کار میں اپنی مرضی سے بیٹھنے کی وڈیوز بھی منظرعام پر آگئیں۔ محترمہ پولیس کی حساس معلومات کے ساتھ زیادتی کیس کے متاثرین کی وڈیوز بھی مبینہ ملزم کو واٹس ایپ کرتی تھی۔ یہی نہیں مبینہ ملزم کاشف اور خاتون لیڈی کانسٹیبل کے مبینہ طور پر تعلقات بھی تھے۔ کاشف نے شادی کا کہا تو خاتون نے زیادتی نے اغوا، زیادتی اور تشدد کا مقدمہ درج کروا دیا۔

ان شرمناک واقعات کی حسیاست کو دیکھتے ہوئے جب ان خبروں پر یہ سولات سر اٹھائیں۔ کہ کیا واقعی خاتون کے ساتھ زیاتی ہوئی ہے؟ کیا خاتون کسی کو پھنسانے کے لیے تو ایسا نہیں کر رہی؟ خاتون کے اپنے مفادات تو نہیں؟ تاہم بحیثیت خاتون کسی دوسری خاتون کے حوالے سے ایسےسولات اور خدشات کے ذہن میں آنے پر اکثر اپنی سوچ پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ مگر جب زیادتی کے واقعات کے دوسرے رخ سامنے آتے ہیں۔ تو تب ایسے سوالات مزید شدت کے ساتھ جنم لیتے ہیں۔ اور ان میں وہ واقعات بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ جن میں واقعی خاتون سے زیادتی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر اُن متاثرین کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ ان کے ساتھ جسمانی زیادتی کے گناہ سے بھی بڑا گناہ ہوگا۔ زیادتی کرنے والا سزا کا حقدار ہے تو پھر زیادتی کا جھوٹا الزام لگانے والا بھی سزا کا مستحق ہے۔

قانون سازی کے ساتھ ساتھ اُس پر سختی سے عملدرآمد ہی سے معاشرے میں جرائم کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ ہراسانی اور زیادتی کے ملزم کو سخت سے سخت سزا ہونے کے ساتھ ساتھ تعزیرات پاکستان کی شق 182 پر بھی مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تاکہ کسی صورت حقیقی زیادتی کے کرب کی گونج جعلی زیادتی واقعات کی آواز میں گم نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments