برفباری کے دوران موت کا ”رقص“


نصف صدی مری میں برفباری نہیں دیکھی۔

کم و بیش نصف صدی کا واقعہ ہے ایوب خان کا دور حکومت تھا مری میں 7، 8 فٹ تک برفباری ہوئی تو آزاد جموں کشمیر کے دار الحکومت مظفر آباد اور راولپنڈی کا رابطہ منقطع ہو گیا برف پگھلنے تک آمد و رفت بند رہی اس دور میں مری اور گرد و نواح میں برف ہٹانے کے لئے بھاری مشنری تھی اور نہ ہی وسائل۔ لیکن جوں ہی برفباری کا آغاز ہوا مری کی انتظامیہ حرکت میں آ گئی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں بی ڈی ممبرز کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں میں راشن فراہم کیا جاتا رہا جب لیکن اتنی بھاری برفباری کے دوران نہ تو ایک شخص کی موت ہوئی اور نہ ہی کوئی شخص خوراک کی کمی کی بھوکا مرا۔

7 جنوری 2022 ء کو مری میں تین چار فٹ سے زائد برفباری بھی نہ ہوئی لیکن شاہراہ سرینگر پر موت کا رقص جاری رہا برف میں پھنسے لوگوں کی پکار پر کوئی ان کی مدد کو آیا اور نہ کسی نے ان کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھولے 22 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جہاں 100 روپے سے 500 روپے میں انڈا بکتا رہا ہو دو اڑھائی ہزار روپے والے کمرے میں ایک رات گزارنے کے لئے 50، 50 ہزار روپے کا تقاضا کیا جاتا رہا وہاں اللہ تعالی کا قہر نازل نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟

اس جانکاہ حادثہ نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیا حکومت پنجاب سوئی ہوئی تھی؟ مری اور گرد و نواح کی سڑکیں سیاحوں کے قبرستان بن گئیں مری انتظامیہ ان کی موت کی منتظر رہی اس وقت تک حرکت میں نہ آئی جب تک 22 افراد جن میں بچے بھی شامل تھے موت کی نیند سو گئے میں ایک اخبار نویس ہوں ایسے واقعات دیکھ کر دل نہیں ڈوبتا لیکن جب میں ٹی وی پر مری میں پیش آنے واقعات کی تفصیلات سن رہا تھا اور موت کی نیند سو جانے والوں کی وڈیوز دیکھ رہا تھا تو میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکا بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے خداوند کریم یہ قیامت کا منظر تھا جب بے بس افراد دم توڑ رہے تھے۔

میں نے مری کے سینئر سٹیزن اور نامور اخبار نویس امتیاز الحق (جو نصف صدی سے پیشہ صحافت سے وا بستہ ہیں انہیں ملکہ کوہسار مری کا بابائے صحافت کہا جاتا ہے ) کو ٹیلی فون کیا اور اس واقعہ کی اصل وجوہات معلوم کرنے کی کو شش کی تو وہ اس سانحہ پر بڑے دل گرفتہ تھے انہوں نے کہا کہ ان کی عمر 75 سال سے زائد ہے انہوں نے اپنی زندگی میں اس دور حکومت میں شدید ترین برفباری دیکھی ہے لیکن 7 جنوری 2022 ء کو شروع ہونے والی برفباری کی طرح جانی نقصان پہلے نہیں دیکھا 31 دسمبر 2021 کو محکمہ موسمیات نے 7 جنوری 2022 ء کو برفانی طوفان کی پیشگوئی کر دی تھی جس کے بعد مری انتظامیہ اور دیگر محکموں کی جانب سے بروقت امدادی کارروائیاں کرنے کے بلند بانگ دعوؤں پر مشتمل اعلامیے جاری کیے گئے اور کہا گیا کہ انتظامیہ نے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے بروقت اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے لیکن جب برفباری شروع ہوئی پوری انتظامیہ بلوں میں گھس گئی کوئی بلڈوزر باہر نکلا اور نہ ہی کوئی امدادی ٹیم نظر آئی۔

انتظامیہ برفباری بند ہونے کا انتظار کرتی رہی اس وقت تک موت اپنا کھیل کھیل چکی تھی 23 افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے مری انتظامیہ، ہائی وے اتھارٹی اور دیگر محکموں کے پاس برف ہٹانے کے لئے بلڈوزر اور دیگر مشنری موجود ہونے کے باوجود بروقت امدادی کارروائی کیوں شروع نہ کی گئی؟ ایسے مواقع پر امدادی کارروائی کے لئے انتظامیہ کے پاس نہ صرف راشن، پٹرول اور سڑکوں پر برف پگھلانے کے لئے وافر مقدار میں نمک ہوتا ہے لیکن تمام تر وسائل ہونے کے باوجود مری انتظامیہ سوئی رہی سیاح موت کی گہری وادی میں جاتے رہے کوئی ان کی مدد کو نہ آیا اگلی صبح انتظامیہ کو سیاحوں کی اموات کا علم ہو تو پھر وہ حرکت میں آ گئی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ 60 ہزار زائد گاڑیوں میں لوگوں کے آ جانے سے مری کی تمام سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گئی جب کہ مری میں 23 ہزار سے زائد گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہی نہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے بروقت گاڑیوں کو مری جانے سے کیوں نہیں روکا گیا آخر اس کوتاہی کا کوئی تو ذمہ دار ہو گا؟

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سوئے ہوئے تو نہیں تھے لیکن مری میں موت کے کھیل بارے میں آگاہ بھی نہیں تھے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق وہ اڑھائی گھنٹے تک پارٹی کی ایک میٹنگ میں مصروف رہے جب انہیں مری میں ہونے والی تباہی سے آگاہ کیا گیا تو وہ میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے اور لاہور سے بیٹھ کر احکامات جاری کرنے شروع کر دیے مجھے یاد ہے جب میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے کوئی انتظامی افسر اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک اسے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا ٹیلی فون آپریٹر میاں صاحب کے سو جانے کی تصدیق نہ کر دے۔

یہ بات کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو گی میں نصف صدی گزر جانے کے باوجود کبھی مری میں برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں گیا اسے آپ میری کمزوری کہیں یا کچھ اور۔ صرف زمانہ طالبعلمی میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال روڈ راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری ہونے کی حیثیت سے 1968۔ 69 میں طلبہ کا ایک ٹرپ لے کر مری گیا وفاقی دار الحکومت اسلام آباد سے مری 64 کلومیٹر کے فاصلہ پر جو ڈیڑھ گھنٹہ سے بھی کم وقت میں طے ہو سکتا ہے برفباری دیکھنا تو دور کی بات ہے سیر سپاٹے کے لئے بھی سالوں مری نہیں گیا اب جب کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وسائل بھی ہیں لیکن پیشہ وارانہ مصروفیات آڑے آتی رہیں اب کی بار شاید میں بھی مری کا رخ کروں اور وہاں کی صورت حال سے آگاہی حاصل کروں

اصل ایشو سیاحتی مقام مری میں پھنسی ایک ہزار سے زائد گاڑیوں کو ریسکیو کرنے کا تھا جب تباہی و بربادی ہو گئی تو پھر وہ تمام ادارے سب سے زیادہ متحرک نظر آئے جن سے ایسے مواقع پر عوام کو سب سے زیادہ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں سوال یہ ہے کہ یہ ادارے امدادی کارروائیاں کر نے کے لئے دن کے اجالے کا انتظار کیوں کرتے رہے کاش ً اس وقت ہی اپنے ”کیل کانٹے“ لے سڑکوں پر برف ہٹانے میں مصروف نظر آتے تو کم از کم مرنے والوں کے لواحقین کو ان کی ”بے بسی“ کی موت پر رونا تو نہ آتا اللہ تعالی کی رضا پر صبر کر لیتے۔

عوام کے ٹیکسوں سے ان اداروں کو قیمتی مشنری اور تربیت دی گئی ہے انہیں معلوم ہے کہ برفباری میں کس طرح راستے بنائے جاتے ہیں اگر آج دبی زبان میں اس ادارے کی کار کردگی پر تنقید کر رہے ہیں تو ان کی تنقید غور طلب ہے جن اداروں کا اپنا احتساب کا نظام موجود ہے ان کو تو پوچھنا چاہیے کہ امدادی کام شروع کرنے میں اتنی تاخیر کیوں گئی؟

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی سانحہ کے اگلے روز مری پہنچے فضائی جائزہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ان کو واقعہ کے فوراً بعد مری پہنچ جانا چاہیے تھا ان کو سانحہ مری کی ابتدائی رپورٹ پیش کردی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مری میں 4 روز میں ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں، اموات ”کاربن مونو آکسائیڈ“ کی زیادتی سے ہوئیں۔ 7 جنوری کو 16 گھنٹے میں چار فٹ برف پڑی، ۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ٹریفک لوڈ مینجمنٹ نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ٹریفک کی روانی کو کنٹرول کرنا کس کا کام تھا؟ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 16 مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی، 21 ہزار گاڑیاں واپس بھجوائی گئیں، 4 سے 5 گاڑیوں میں 22 افراد جاں بحق ہوئے۔

حکومت پنجاب نے سانحہ مری کی جامع تحقیقات اور سانحے کی وجوہات قوم کے سامنے لانے کے لئے اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے، چار رکنی کمیٹی کا کنوینیئر ایڈیشنل چیف سیکرٹری ظفر نصر اللہ کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں دو صوبائی سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس شامل ہیں، کمیٹی کو ایک ہفتے میں سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کمیٹی اموات کی وجوہات اور غفلت برتنے والے متعلقہ محکموں کے افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گی، کمیٹی کے سربراہ کو مزید ایک رکن بھی شامل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، کمیٹی کے ٹی او آرز کے مطابق سانحہ مری کی آٹھ پہلوؤں سے انکوائری کی جائے گی، جس میں دیکھا جائے گا کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری کردہ وارننگ کے باوجود جوائنٹ ایکشن پلان کیوں نہیں تیار کیا گیا؟

کیا تمام سیاحوں کے لئے ایڈوائزری جاری کی گئی تھی یا کوئی وارننگ دی گئی تھی؟ مری کی ٹریفک کو کو کنٹرول کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے؟ کیا گاڑیوں کی تعداد کو گنا گیا اور جب گاڑیاں بڑھ گئی تو ان کو روکا کیوں نہیں گیا؟ کیا کرائسس کے لیے پلان ترتیب دیا گیا تھا؟ کیا کوئی کنٹرول روم بنایا گیا تھا؟ کیا لوکل ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسز کے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے رابطہ قائم کیا گیا؟ ریسکیو آپریشن کس حد تک کامیاب رہا؟ کتنی گاڑیوں کو نکالا گیا؟ اس سارے کرائسس میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب افسران کون ہیں؟

سیاحتی مقام مری کو ”آفت زدہ“ علاقہ تو قرار دے دیا گیا شدید برفباری میں پھنسے سیاحوں کو نکالنے کے لئے آپریشن مکمل ہو گیا ہے تمام راستے کھول دیے گئے ہیں یہ سانحہ ہمیں سبق دے گیا ہے موسمی پیشگوئی کو نظر انداز کر کے سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کرنا چاہیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پہاڑی علاقوں کا سفر کرنا چاہیے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے جب کبھی مری میں سیاحوں کا رش ہوتا ہے وہاں ہوٹلوں کے مالکان ”بھیڑیوں“ کی طرح سیاحوں کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں

مری کی مقامی آبادی کا کم عمل دخل ہے جب کہ بیشتر ہوٹل ٹھیکیداروں نے حاصل کر رکھے ہوتے ہیں اور وہ اپنا سیزن لگاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مری کے لوگوں سے ہونے والی کوتاہی کو نظر انداز کر دیا جائے مری کے کچھ لوگوں کے بارے میں شکایات ملی ہیں جنہوں نے سیاحوں کو گرم پانی تک دینے سے انکار کر دیا مری انتظامیہ کی بھی غفلت اور نالائقی ہے اس نے بر وقت امدادی آپریشن شروع نہیں کیا بلکہ بروقت اسلام آباد اور راولپنڈی انتظامیہ سے جڑواں شہروں سے مری جانے والے راستے بند کرنے کی درخواست نہیں کی۔

مری انتظامیہ ہر سیزن میں ہوٹل مالکان کو کھلی لوٹ مار کی اجازت دے دیتی ہے ان ہوٹلوں کے مالکان کو من مانے کرائے وصول کرنے سے روکنے کے لئے گرمی اور سردی کے موسم کے کرائے مقرر کر دینے چاہیں، اس سانحہ کے بعد سیاحوں اور شہریوں کی سہولت و رہنمائی کے لئے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی آفس میں میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا یہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کا بڑا کارنامہ بتایا جا رہا ہے، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور سی پی او تمام اتنظامی کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں، جبکہ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے 15 سے 20 سال بعد سیاح اتنی بڑی تعداد میں مری آئے ہیں پہلے روز تمام تر کوشش کے باوجود مری کی ٹریفک بحال نہیں کی جا سکی ہزاروں کی تعداد میں لوگ مری، گلیات کی سڑکوں پر پھنسے رہے وزیر اعظم عمران خان نے گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کے مری داخلہ پر نوٹس تو لے لیا ہے اور ’تحقیقات کا حکم دیا ہے کاش ً ملک کا وزیر اعظم خود امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا بس حکومت نے بڑا تیر مارا ہے پھنسے ہوئے سیاحوں کو نکالنے کے لئے آپریشن کی نگرانی کی ”تہمت“ کو اپنے سر سجانے کے لئے وزیر داخلہ شیخ رشید مری میں موجود رہے

مجھے معلوم ہے کس طرح ایک وزیر اپنی کارکردگی کی خبر خبر اخبارات میں شائع کراتے رہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جن کا حلقہ انتخاب مری ہے نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات کئی دنوں سے لگاتار پیشگوئی کر رہا تھا کہ مری، گلیات سمیت ملحقہ علاقوں میں شدید برف باری ہو گی، اس کے لئے اسی وقت سے تیاریاں کر لی جاتیں تو اتنا جانی نقصان نہ ہو تا، لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے اس طرف توجہ دی اور نہ ہی مری سے چند فٹ کے فاصلے پر ڈمی وزیر اعلی کو چلانے والے وزیراعظم نے کوئی توجہ دی، ہم نے برفباری میں پھنسے ہوئے لوگوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر جاری کیں، مری، گلیات کے عوام نے حسب سابق اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے برفباری میں پھنسے ہوئے لوگوں کو گاڑیوں سے نکالا، اپنے گھروں میں لے گئے اور ان کی مدد کی لیکن مری، گلیات، باڑیاں اور ایبٹ آباد میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں پھنسی رہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا یہ بیان بڑا تکلیف دہ ہے کہ ”لوگ سیلفیاں بنانے میں لگے ہوئے سانحہ مری میں اہلخانہ کے ساتھ جاں بحق ہونے والے اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اقبال آخری وقت تک مدد کے لئے پکارتا رہا۔ پولیس اہلکار نوید اقبال کے کزن طیب گوندل نے بتایا کہ نوید اقبال اپنی تین بیٹیوں، ایک بیٹے، بہن، بھانجی اور بھتیجے کے ساتھ تھے، میں اس لئے بچ گیا کہ میں نے لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کی جب کہ نوید اپنی گاڑی سے گیا، نوید نے شام 6 بجے کال کی کہ ہم برف میں پھنس گئے ہیں وہاں گاڑیاں 24 گھنٹے سے پھنسی ہوئی تھیں، انتظامیہ نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا، نتھیا گلی میں 2 سے 4 ہزار گاڑیاں موجود تھیں، نوید سے میرا رابطہ آخری بار صبح 4 بجے ہوا جس پر نوید نے سی پی او کا نمبر مانگا، میری ان سے بھی بات ہوئی۔

طیب گوندل نے کہا کہ جی ٹی روڈ اور موٹروے نیچے سے کلیئر تھی مگر جہاں سے برفباری شروع ہوئی وہاں شدید ٹریفک کا سامنا کرنا پڑا جہاں سے کسی صورت واپسی ممکن نہیں تھی، ہمیں انتظامیہ نے آگے جانے سے نہیں روکا، اگر مجھے پتا چلتا تو نوید کو واپس بلا لیتا۔ نوید اقبال کے کزن نے مزید بتایا کہ میں نے ایس ایس پی ٹریفک سے بھی رابطہ کیا، سوشل میڈیا پر خبریں دیں، بطور صحافی وزیراعظم عمران خان، عثمان بزدار، شیخ رشید اور فواد چوہدری کے ذاتی واٹس ایپ پر میسج کیے مگر کوئی جواب نہیں آیا، صرف شیخ رشید نے پریس ریلیز جاری کی کہ اقدامات کیے جا رہے ہیں ہیں“ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ محکمہ موسمیات چار دن سے شدید برف باری کی پیشگوئی کر رہا تھا لیکن وفاقی و صوبائی حکومت سوئی رہی، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ مری میں اموات انتظامی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کا دردناک واقعہ ہے۔

عمران نیازی میں تو اخلاقی جرات نہیں، کم ازکم اس سنگین مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار وزیر اور ماتحتوں کو ہی برخاست کر دیا جائے، اس خون ناحق پر کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرایا جائے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کے لیے پیشگی انتظامات اور حفاظتی اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف کے بوٹوں اور خدمت کا مذاق اڑانے والا اپنے محل میں بیٹھا اپنی گرتی ہوئی حکومت بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سیاحوں کو سنگین صورتحال سے پہلے آگاہ کر دیا جاتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ امیر جماعت سراج الحق نے الخدمت فاؤنڈیشن اور جماعت اسلامی کے رضاکاروں کو ایمرجنسی اقدامات میں بھرپور حصہ لینے اور پھنسے ہوئے افراد کو فوری خوراک پہنچانے کی ہدایت کی مری میں ریسکیو سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔ دختران اسلام اکیڈمی مری بلڈنگ میں کھانا، ہیٹرز، گرم بستر اور رہائش کا بندوبست کیا گیا جماعت اسلامی، الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے ریلیف سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments