​​پاکستان بارڈر مینجمنٹ سسٹم پائیدار اور مستحکم امن کی مضبوط باڑ


کسی بھی ملک کا اپنی سرزمین کو در اندازی، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی روک تھام کے لئے باڑ، دیوار، خندقیں وغیرہ جیسے اقدامات نئی بات نہیں۔ دنیا کے 70 سے زائد عالمی سرحدوں پر باڑ نصب ہیں۔ سرحدوں پر باڑ، دیوار، رکاوٹ، یا بارودی سرنگیں بچھانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان نے 2017 سے بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے تحت حفاظتی اقدامات کیے ، اس ضمن میں پاک۔ افغان اور ایران سرحدوں کو خار دار تاریں اور سیکورٹی چیک پوسٹ بنانے کے منصوبہ بندی کا 95 فیصد اور ایران کے ساتھ 71 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔

سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے عمل کو روکنے کے لئے اشتعال انگیز کارروائیاں کی جاتی رہیں، جس کا موثر جواب بھی دیا جاتا تاہم اگست 2021 میں افغان طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد سرحدی علاقوں میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں سرحد پر تنصیب کی جانے والی خار دار تاروں کو کئی جگہ سے ہٹانے والے افغان طالبان کے مقامی سطح پر سیکورٹی پر معمور اہلکاروں نے اپنے تئیں اقدامات کیے ، اس کا اعتراف افغان طالبان کے اقوام متحدہ میں نامزد کردہ مستقل مندوب سہیل شاہین نے اپنے بیان میں بھی کیا کہ یہ واقعات مقامی سطح پر ہوئے ہیں، جس کے حل کے لئے کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے، تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس وقت افغان عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کا اثر افغان طالبان کی انتظامیہ پر حاوی ہے، لہذا ان حالات میں سرحدی کشیدگی بڑھنے سے افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ، نقصان سے بچانے کے لئے سفارتی سطح پر برداشت اور برد باری کی پالیسی اپنائی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی شہدا کا خون شامل ہے، یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔ ’اس (باڑ) کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں، انھیں محفوظ بنانا ہے۔ یہ امن کی باڑ ہے، یہ مکمل ہو گی، اور انشا اللہ قائم رہے گی۔‘

افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ کو عالمی برداری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا، ان کی امارات کو افغانستان میں قبضہ قرار دیے جانے کی وجہ سے پڑوس ممالک پر متنوع مسائل کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص مہاجرین کی آمد اور افغانستان میں خوراک کی قلت اور قحط کی تشویش ناک صورت حال ہے۔ افغان عوام کی بیشتر تعداد پڑوس ممالک، بالخصوص پاکستان میں آزادانہ نقل و حرکت کے لئے شمال مغربی سرحدوں پر پاک افغان بارڈر مینجمنٹ حائل ہے، جس کے خاتمے کے لئے تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے پاک۔

افغان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو ریاست کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی سازش کی کوشش پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور کابل میں انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود شر پسند عناصر امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان 2017 سے بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے تحت بین الاقوامی تسلیم شدہ سرحدوں پر باڑ لگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس دوران سب سے بڑی مخالفت سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے ہوئی اور کئی مرتبہ سرحد پار سے پاکستانی فورسز پر حملے کیے گئے۔

حالانکہ موجودہ دور میں بارڈر منیجمنٹ کا تصور سرحدوں کی حفاظت کی انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ان واقعات کو بار بار اچھال کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ترجمان پاکستانی فوج نے واضح کیا کہ پاکستان، پاک، افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن نہیں مانتا، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے اور اپنی سرحد کے اندر پاکستان اپنی مرضی سے اقدامات کر سکتا ہے۔

پاک۔ افغان سرحد قریبا 2679 کلو میٹر پر محیط ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر کی کل لمبائی 1229 کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 792 کلومیٹر بارڈر پر باڑ کا کام مکمل ہو چکا جبکہ باڑ کاکل کام 823 کلومیٹر ہے۔ جبکہ صوبہ بلوچستان میں کل بارڈر 1450 کلومیٹر جس میں سے 1400 کلومیٹر پر باڑ لگانے کے منصوبے میں اب تک 1250 کلومیٹر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاک ایران کل 1100 کلو میٹر بارڈر میں سے 909 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا منصوبے میں 580 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہو گیا ہے۔

پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر پائیں میں 39 کلو میٹر، باجوڑ میں 50، مہمند میں 69 خیبر میں 111، کرم میں 191، شمالی وزیرستان میں 183 اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلو میٹر ہے۔ چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی 493 کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے 471 کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیئروں پر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک۔ افغان سرحد پر پوسٹس کی تعداد 1250 جب کہ افغانستان میں صرف 377 پوسٹس ہیں۔

پاکستان میں کچھ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لیے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر) ، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان) ، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم) ۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ عبداللہ) اور بادینی (قلعہ سیف اللہ) شامل ہے۔ صرف باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ چھوٹے بڑے 26 راستے تھے جہاں سے سرحد پار آباد قبائل آزادانہ تجارت اور آمد و رفت کرتے تھے۔

صرف طورخم بارڈر سے سالانہ 12 سو ٹرک آتے جاتے جب کہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ یہ صرف ایک سرحد سے نقل و حرکت کے اعداد و شمار ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 235 راستوں سے آنے والوں کی تعداد کتنی ہوتی ہوگی۔ جب کہ پاکستان کی پوسٹ کا ایک دوسرے سے فاصلہ سات سے آٹھ کلو میٹر پڑتا ہے ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر 2019 یک کے تخمینے کے مطابق 70 ارب روپے کے اخراجات کیے جانے تھے جو اب تک پاکستان نے کسی بیرونی امداد کے بغیر کم وبیش 50 کروڑ ڈالر خرچ کر کے دونوں ممالک کی بہتری کے لئے کام کیا۔

پاک۔ افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کے نام پر بعض عناصر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں، ڈیورنڈ لائن واحد سرحدی لکیر ہے جسے افغان بادشاہ کی مرضی سے طے کیا گیا اور یکے بعد دیگرے تین بادشاہوں نے 37 برس کے عرصے میں اس بابت پانچ معاہدوں کو تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کی اطلاعات پر 1946 میں کابل نے ڈیورنڈ لائن پر نئے معاہدے کے لئے برطانیہ کو خط لکھا جس پر برطانوی حکومت نے صاف جواب دے دیا اور پھر افغانستان خاموش ہو گیا۔

خیال رہے کہ ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893 ء میں کابل گئے اور تین مہینے رہنے کے بعد امیر عبدالرحمن سے نومبر 1893 میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا۔ تاریخی حقائق کے مطابق 1823 میں کئی افغان علاقوں پر مہاراجہ رنجیت نے قبضہ کر لیا تھا۔ 1846 میں یہ علاقے پنجاب کا حصہ تھے جو انگریزوں نے چھینے، افغان اور پنجابی سکھوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہو چکی تھی۔ افغان حملہ آوروں سے تنگ آنے کی وجہ سے افغان حکمران امیر عبدالرحمن کے ساتھ انگریزوں نے 1893 میں ڈیورنڈ لائن کہلائے جانے والا معاہدہ کر لیا، جس کی تجدید متعدد بار کی جا چکی ہے۔

پاکستان میں شامل علاقے جو پہلے ہی برصغیر پاک و ہند کا حصہ تھے، اور قیام پاکستان کے بعد اگلے 54 برس تک بھی کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کا معاملہ نہیں اٹھایا۔ 2013 میں ہونے والے اجلاس، جس میں پاکستانی سابق صدر آصف زرداری، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون شامل تھے اور اس اجلاس میں پہلی مرتبہ افغانستان نے پاک۔ افغان سرحد پر تعاون کے لئے اتفاق رائے کیا تھا، لیکن آج تک کوئی عملی اقدامات نہیں کیے ۔

پاک۔ افغان سرحد کے تنازع پر مارچ 2017 کو برطانیہ کی میزبانی میں پاک، افغان اور برطانیہ سہ فریقی اجلاس دوبارہ ہوا تھا۔ اجلاس کا مقصد پاکستان، افغانستان کے درمیان پیدا کشیدگی اور سیاسی تناؤ کم کرنے کی ایک کوشش تھی، لیکن افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اطمینان بخش جواب نہ ملنے کے سبب اجلاس کا متفقہ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوسکا۔ اس معاملے کو امریکہ کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے دی جو بھارت کی ایما پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ڈیورنڈ لائن معاملے کو اٹھانے کا واحد مقصد پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا کرنا ہے جس سے اعتماد کی فضا متاثر ہو۔

موجودہ صورت حال میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مغرب میں پاک۔ افغان سرحد کے لئے کڑے سکیورٹی کے انتظامات کر رکھے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے پاکستانی فورسز اور آبادیوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور بارڈر مینجمنٹ سسٹم میں جابجا رکاوٹیں کھڑی کیں جا رہی ہیں۔ گزشتہ دور میں دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان ٹانڈا درہ کے علاقے میں پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے باعث کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور جھڑپ میں افغان فورسز کی فائرنگ سے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہری ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

پاکستانی فوج کو باڑ لگانے میں ’سب سے زیادہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال علاقہ میں مزاحمت کا سامنا رہا اور سب سے زیادہ اس علاقہ میں باڑ لگاتے ہوئے جوانوں کی جانیں قربان ہوئیں۔ ‘ ذرائع نے مزید بتایا شدت پسندوں نے ’شوال میں منگڑیتی کے سامنے تین چار کلومیٹر افغانستان کے اندر بھاری مشین گنیں لگا رکھی تھیں جن کو خاموش کرانے میں مہینوں لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ایک ہی رات میں 35 چوکیوں پہ حملہ کیا گیا اور دو دن جھڑپ جاری رہی۔

اس علاقے میں اتنی مزاحمت کا سامنا رہا کہ دو سال باڑ پہ کام رکا رہا یہی وجہ ہے کہ باڑ دسمبر 2019 میں مکمل نہیں ہو سکی۔‘ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے ضلع ژوب، ضلع قلع سیف اللہ اور چمن کی سرحدی چوکیوں پہ بھی سنائپر اور بھاری گنوں سے حملوں میں کئی فوجی جان سے گئے ہیں۔ خاردار باڑ کے لگانے اور چوکیوں کی تعمیر سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان عسکریت پسندوں کی آمدورفت مکمل طور پر ختم ہونے کے امکانات قریب تر ہیں۔

فروری 2016 سے تاحال پاکستان نے شدت پسندی کی تازہ لہر کے بعد کی جانب سے عدم تعاون پر سرحد بندش کی منصوبہ بندی کی کیونکہ بلوچستان میں بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک پکڑے جا چکے تھے، اس لئے پاکستان سے فرار ہو کر انھوں نے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی طرح افغانستان میں ٹھکانے بنا لے، جس کی وجہ سے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو انھیں پکڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، پھر اصل ٹارگٹ سی پیک کو بھی ان سازش کاروں سے بچانا تھا کیونکہ افغانستان میں عالمی قوتیں داعش کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے سرگرم ہیں تاکہ اس بہانے افغانستان میں موجودگی کا جواز پیدا کر کے سی پیک منصوبے کو محدود کر دیا جائے اور عالمی منڈیوں تک پاکستانی اور چینی مصنوعات کو روکا جا سکے۔

لشکر جھنگوی العالمی، جماعت الاحرار، کالعدم ٹی ٹی پی، سواتی گروپ، باجوڑی گروپ سمیت کئی کالعدم تنظیموں نے افغانستان کی سرزمین میں مستقل ٹھکانے موجود ہیں، موجودہ افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ پاکستان مخالف کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر سکی اور اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں، تاہم اس امر کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ افغان سرزمین، کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ عملی طور پر وہ افغان طالبان اپنے دعوؤں پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے کیونکہ کابل پر قبضے کے بعد کالعدم تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کیا اور اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

بظاہر افغان طالبان کی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن اس کے اثرات پاکستان میں نمایاں نہیں تھے، 2020 کی نسبت 2021 میں بالخصوص کابل پر قبضے کے بعد پاکستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ دہشت گردی کے بڑے واقعات کم ہوئے لیکن پر تشدد واقعات میں اضافہ ماہ ستمبر سے شروع ہوا جو پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ دہشت گردوں کا واحد مقصد پاکستان میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہے۔ پر تشدد واقعات میں اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرون عناصر بھی ملوث ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی پاکستانی افسر و جوان کی شہادت کی خبر نہ آتی ہو۔

پاک۔ افغان سرحد کے لئے افغانستان کو موقع دیتا آ رہا کہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کر کے پاک، افغان عوام دونوں ممالک کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرے۔ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ مل کر بارڈر منیجمنٹ پر کام کرنا چاہیے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں یہ عنصر نمایاں نظر آ رہا ہے کہ پاکستان مخالفت لئے افغان طالبان کے بیشتر اہلکار اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ خار دار تاروں بعض جگہوں کو ہٹانے کے عمل اور امدادی سامان کے ٹرکوں پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات اور ان پر عبوری انتظامیہ کا اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ بالائی سطح پر ایسے کوئی احکامات نہیں دیے جا رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پھیلے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان اور ایران کی سیکورٹی فورسز کے درمیان بھی ایک جھڑپ ہو چکی ہے، جسے دونوں ممالک نے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دے کر رفع دفع کر دیا۔ تاہم سرحدی اہلکاروں کی انفرادی اقدامات کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کا حامی ہے اور پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ افغان عوام کو درپیش مسائل جلد از جلد حل ہوں۔ پاکستان متعدد بار واضح طور اپنا موقف دے چکا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا خطے میں مستحکم و پائدار امن قائم نہیں ہو سکتا ۔

افغانستان میں عبوری انتظامیہ کو تسلیم کرنا عالمی برداری کی جاب سے افغان طالبان کے ویے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی جانب سے اب متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جو ان کے پہلے دور اقتدار میں کیے جاتے رہے تھے، اس سے عالمی برداری میں تحفظات مزید بڑھ چکے ہیں اور اس سے افغان طالبان کا سافٹ امیج ظاہر کرنے کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔

افغانستان کی سابق خفیہ ایجنسی پاکستان دشمن عناصر کو سہولت دینے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ خصوصی ڈیتھ اسکواڈ پاک۔ افغان بارڈر مینجمنٹ سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہتے اور عالم شہریوں سمیت پاکستانی سیکورٹی فورسز کی شہادتوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ نام نہاد علیحدگی پسند قوم پرست جماعتوں کی تربیت اور دہشت گردی کروانے کے لئے این ڈی ایس کے نظریات اور اقدامات نے ہمیشہ پاک۔

افغان تعلقات میں رخنہ ڈالا۔ اور پاکستان کی پر امن کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے دونوں حکومتوں کے درمیان تمام معاملات کو مذاکرات کی میز پر باہمی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہاٹ لائن بھی قائم کی۔ فلیگ میٹنگ بھی ہوئی۔ پاک فوج کے سربراہ سمیت حساس اداروں کے سربراہوں نے بھی افغانستان کے دورے میں سابق کابل حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ایک مربوط میکنزم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستان، افغانستان میں پائدار امن کا خواہاں ہے اور افغانستان کے اسٹیک ہولڈر کو پر امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پاکستان افغانستان کی جنگ سے شدید متاثر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر مینجمنٹ سسٹم سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے روک تھام میں زبردست مدد ملنے کا امکان ہے۔ لیکن اب بھی کئی افسران اور جنگجو ملیشیائیں ایسی ہیں جو پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں چاہتے۔ پاک۔ افغان بارڈر مینجمنٹ سسٹم دونوں ممالک کے درمیان پائدار اور مستحکم امن کے لئے مضبوط باڑ ہے۔ اسے متاثر کرنے سے دونوں ممالک ہی نہیں بلکہ خطے میں قیام امن کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments