مری میں انسانی جانوں کے ضیاع کا اصل سبب کیا تھا؟ نا اہلی، کرپشن، یا کچھ اور؟

مری میں لوگ بے بسی کی موت مر گئے۔ ذمہ داروں میں انتظامیہ ہی نہیں، اور بہت سے لوگ ملوث ہیں۔ وہ تاجر بھی جنہوں نے موت کے اس کھیل کو کاروبار بنا دیا۔ ایک خاتون نے زیور گروی رکھ کر اہل خانہ کے لیے ہوٹل کا کمرہ لیا۔ ایک رات کا کرایہ 70 ہزار روپے، کیا کوئی انسانیت باقی ہے یا نہیں۔ علاقے کی وہ مکین بھی ذمہ دار ہیں جو اس المیے سے بے خبر رہے۔ اور اگر مجھے معاف رکھا جائے تو وہ کم نگاہی بھی جو لوگوں کو خود کشی پر آمادہ کرتی ہے۔ منیر نیازی کی وہ لافانی نظم یاد کیجیے

”کچھ شہر کے لوگ ظالم تھے اور کچھ مجھے بھی مرنے کا شوق تھا“ ۔ سب سے اہم سبب مگر کیا ہے؟

موت یوں بھی ایک المیہ ہے لیکن بے بسی اسے ایک ایسی کسک میں بدل دیتی ہے جو تادیر مضطرب رکھتی ہیں۔ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ عظمت ہمیشہ کی یونہی وابستہ نہیں ہو گئی۔ انہیں تو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ وہ حکمران ہوں اور فرات کے کنارے ایک کتا بھوکا مر جائے۔ ہمارا حکمران طبقہ ہر دور میں ابن خطابؓ کی مثالیں دیتا ہے اور ہر دور میں ہر روز ان گنت شہری بے بسی کی موت مرتے ہیں۔

سیاحت کو ہم آمدن کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایک کاروبار ’تاکہ قومی خزانے میں پیسہ آئے جیسے ٹیکسٹائل سے آتا ہے۔ جیسے دوسری برآمدات سے۔ سیاحت کب کاروبار بن سکتی ہے؟ جب سیاحتی علاقے انسانوں سے اٹ جائیں۔ جب دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق ایسے مقامات کا رخ کریں۔ جتنے زیادہ لوگ‘ اتنا اچھا کاروبار۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ سیاحتی مقامات پر زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی۔ انہیں ممکن حد تک حادثات سے محفوظ بنانا۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ مسرت کی تلاش میں آئیں اور موت ان کی منتظر ہو۔

ان امور کوایک پالیسی میں ڈھالنے کے لیے اہلیت چاہیے۔ وہ اہلیت جو سیاحت کو کاروبار میں بدل دے۔ اگر یہ کام دنیا کے سب سے متقی آدمی کو سونپ دیا جائے جو اہلیت نہیں رکھتا تو ایک نتیجہ یقینی ہے۔ ایسے ملک میں سیاحت کا کوئی مستقبل نہیں۔ امور جہاں بانی کے لیے اہلیت کو دین داری یا دیانت پر ترجیح حاصل ہے۔ ذمہ داری سونپتے وقت سب سے پہلے اہلیت دیکھی جائے گی۔ اس کے بعد دیانت داری اور دوسری خوبیاں۔ جب لوگ کسی ملازم کے لیے درخواست دیتے ہیں تو سب سے پہلے اہلیت کو دیکھا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر کے منصب کے لیے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ طب کی کوئی سند رکھتا ہے یا نہیں۔ آپ ایک ہسپتال کے مالک ہیں۔ آپ کو ایک ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ ایک درخواست گزار طب کی ڈگری تو نہیں رکھتا مگر ایک زمانہ ان کی دیانت کا گواہ ہے۔ کیا آپ اسے یہ ذمہ داری سونپ دیں گے؟

قومی امراض کی تشخیص کرتے وقت، ہمیشہ ہم غلطی کرتے ہیں۔ ہمارا قومی وجود نا اہلیت، بدعنوانی، لاقانونیت، فحاشی، بداخلاقی، سود خوری سمیت ان گنت امراض کی آماجگاہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری معیشت بیمار ہے۔ سیاست زخم خوردہ ہے۔ سماج کو تکالیف نے گھیر رکھا ہے۔ ہم ان کا علاج چاہتے ہیں مگر ہم کبھی یہ طے نہیں کر سکے کہ آغاز کہاں سے کرنا ہے۔

چند سال پیشتر ہمیں بتایا گیا کہ کرپشن سب سے بڑا مرض ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس کا علاج ہونا چاہیے۔ تین سال بعد وزیراعظم صاحب اسے اپنی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہیں کہ وہ کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں کر سکے۔ اس کے بعد لازم تھا کہ وہ اس کے اسباب پر غور کرتے۔ ماہرین سے مشورہ کرتے کہ حکومت کو اس میں ناکامی کیوں ہوئی؟ پھر یہ کہ حکومت کو ہدف کیا ہونا چاہیے تھا؟ پہلے احتساب یا ایسے ماحول کی فراہمی جس میں معاشی سرگرمیوں کو عروج ملے اور عام آدمی کی معیشت بہتر ہو؟ عام پاکستانی کی امید میں اضافہ یا مجرموں کی سزا؟

اگر ہم چاہتے ہیں کہ سیاحت کی معیشت کو فروغ دیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ مری جیسے مقامات پر زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب یہاں زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر ہوں گی۔ اگر ہماری ترجیح یہ ہو کہ یہاں کم سے کم لوگ آئیں تو اس سے حادثات تو کم ہوں گے، سیاحت معیشت کا ستون نہیں بن سکے گی۔ ایک اچھی سیاحت پالیسی اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ کام ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس کے اہل ہوں۔

سانحہ مری جیسے واقعات ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی ترجیحات کی درست سمت متعین کریں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ کرپشن اس ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تین سالہ تجربہ مگر یہ بتا رہا ہے کہ یہ سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ہے اچھی حکومت کی فراہمی۔ اچھی حکومت اس وقت بنتی ہے جب معاملات اہل لوگوں کے سپرد کیے جائیں۔ حکومت پنجاب ان گنت سیکرٹریز کو تبدیل کر چکی۔ کیوں؟ اس لیے کہ سیکرٹری وزیراعلیٰ کے بعد حکومتی مشینری کا سب سے اہم پرزہ ہے۔ اگر وہ اہل نہ ہو گا تو حکومت نہیں چل سکے گی۔ جس جس کو اس منصب سے ہٹایا گیا ’ان میں سے کسی پر کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ پھر ہٹانے کا سبب کیا تھا؟ کیا اہلیت، کے علاوہ اس کا کوئی جواب ممکن ہے؟

حکومت نے کرپشن اور فحاشی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ یہ دونوں اخلاقی مسائل ہیں جس کا حل عام طور پر حکومتوں کے پاس نہیں ہوتا۔ حکومت کی مداخلت اس وقت ہوتی ہے جب یہ اخلاقی امراض جرم بنتے ہیں۔ اگر عوام کسی مجرم کو اپنا لیڈر مان لیں تو قانون اس کو غیر موثر نہیں بنا سکتا۔ حکومت کا اصل کام لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور ان کے لیے ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ مالی کرپشن اسی وقت جرم بنتی ہے جب عوام کے مال پر ڈاکا ڈالا جائے۔ اس کو اگر اس مقام پر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ اصل کی فرع ہے نہ کہ خود اصل ہے۔

مری کا حادثہ بتا رہا ہے کہ یہ سرکاری محکموں کی اجتماعی نا اہلیت کا نتیجہ ہے۔ مری کی انتظامیہ اور سب متعلقہ شعبوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ شدید موسم میں حکومتی نظام کتنے سیاحوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ یہ ثابت ہے کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا۔ اسی کا نام نا اہلیت ہے اور یہی اس سانحے کا اصل سبب ہے، نہ کرپشن نہ فحاشی۔

وزیراعظم صاحب نے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ لیکن امید تو یہی ہے کہ اس کمیٹی کا حال بھی سابقہ تحقیقات کمیٹیوں سے مختلف نہ ہو گا۔ جس ملک میں شاہ رخ جتوئی جیسے مجرم نجی ہسپتالوں میں عیاشی کرتے رہے۔ خلیل، ذیشان، سرفراز، مقصود کے قاتل بری ہوجائیں۔ سانحہ بلدیہ کے ملزمان شک کی بنیاد پر رہا کر دیے جائیں وہاں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کے ملزمان آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ اگر پکڑ بھی لیے جائیں تو ہمارا عدالتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ کسی کو اپنی سزاؤں کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

سانحہ مری کا واقعہ نہ پہلا ہے اور نہ آخری۔ جب تک احتساب اور کڑی سزائیں نہیں ملتی ایسے واقعات کی روک تھام خام خیال ہی ہے!