آپ کا ضائع کیا گیا کھانا اور دنیا میں بڑھتا قحط


بچپن سے ہمارے گھرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم رزق ضائع نہ ہونے دینے پہ بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ایک چیز جو ہمیں سکھائی جاتی ہے وہ یہ کہ پلیٹ میں جتنا نکالا ہے پورا ختم کرنا ہے۔ دوسری یہ کہ بچا ہوا کھانا ڈسٹ بن میں نہیں پھینکنا بلکہ کسی بھوکے کو دینا چاہیے۔ کسی فقیر، گھر میں کام کرنے والی یا گائے اور پرندوں وغیرہ کو۔

دانشمندی سے اور بنیادی مسئلے کو سمجھ کر اور بچوں کو سمجھا کر کھانا بچانے پہ توجہ دی جائے تو یہ ایک اچھی عادت ہے۔ جو کہ ایک متوسط اور اس سے بھی نچلے معاشی حالات رکھنے والے گھرانوں میں مددگار بھی ہے لیکن وہ نکتہ جو یہاں سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شکار ہو گیا وہ یہ کہ ہم نے تمام تر توجہ پھینکنے کے قابل کھانے پہ مرکوز کرلی۔ یعنی ہم وہ کھانا جسے ڈسٹ بن میں پھینکنے کے قابل سمجھتے ہیں وہ کسی بھوکے کو دے دیتے ہیں اور اسے ثواب اور نیکی سمجھتے ہیں۔

کئی قسم کے اشتہارات اور اصلاحی تحاریر یہ بتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ یہی دو چار نوالے بچا کے آپ دنیا کی بھوک ختم کر سکتے ہیں۔ یہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ دنیا کی بھوک آپ کے ڈسٹ بن میں ڈالی آدھی پلیٹ سے نہیں ہوئی ہے۔ نہ آپ اپنا بچا ہوا آدھا اور پاؤ کھانا کسی کو دے کر اس کی بھوک ختم کر رہے ہیں۔ آپ صرف اسے اپنے احسان تلے دبا رہے ہیں۔ اور اسے یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ بہرحال آپ سے کمتر ہے اس لیے اسے ہمیشہ بچا ہوا کھانا ہی مل سکتا ہے تازہ نہیں۔

اکثر تقاریب میں یہ چلن بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پلیٹوں میں بچا کھانا جس میں مہمانوں کے منہ کی نچی ہوئی ہڈیاں بوٹیاں اور تھوک تک شامل ہوتا ہے وہ سمیٹ کر کام کرنے والیوں اور فقیروں کو دے دیا جاتا ہے اور انتہائی ثواب ثواب محسوس کیا جاتا ہے۔ جیسے جنت میں مکان کنفرم کرا لیا ہوا۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک بنیادی طور پہ یہ اس کئی ہزار ٹن غذا کی ذخیرہ اندوزی سے ہوئی ہے جس پہ بھوکے اور غریب کا حق ہے جسے اگایا ہی اس نے ہے لیکن اس تک اسی کی رسائی نہیں ہے۔ یا جو دکانوں پہ سجی تو ہے لیکن غریب کی قوت خرید سے باہر ہے۔

یہ سوچ متوسط اور غریب گھرانے کے افراد کو اس احساس جرم میں مبتلا کرتی ہے کہ کسی وجہ سے کھانا پھینکنا پڑ رہا ہے اور دور دراز کسی جگہ کوئی بھوکا ہے تو یہ آپ کی ہی غلطی ہے۔ نظام اور ریاست کا غیر منصفانہ چلن پہلے سے غریب کو ہی مزید احساس گناہ وہ شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے جس کے لیے یہ سب سے مضبوط ہتھیار یعنی مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طبقے کے لیے حکمران طبقے سے برسر پیکار ہونا ہوتا ہے کہ بنیادی ضروریات تک اس کی رسائی ہو، اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو ایک دن میں کم از کم ایک بار پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے۔ اسے ممبر پہ بیٹھ کے یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ تمہاری جیب میں جو دو روپے بچے ہیں وہ بھی خدا کی راہ میں دے دو۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو مینیمم ویجز کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر تین دن بعد ہڑتال کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ جو اپنے حصے کا سیلز ٹیکس بھی کسٹمر سے وصول کرتا ہے اور وہ بھی حکومت کو ادا نہیں کرتا۔ لیکن آپ شاذ و نادر ہی کسی مذہبی رہنما کے منہ سے ان کے لیے کوئی نصیحت سنیں گے۔ اور سنیں گے بھی تو وہ صدقہ و خیرات سے متعلق ہوگی محنت کش کو اس کا حق دینے کے حوالے سے نہیں ہوگی۔

یہ بات ذہن میں رکھیے اگر آپ خود نوکری پیشہ ہیں اور اپنے گھر کے خرچے بمشکل تمام پورے کر پاتے ہیں تو سڑک کنارے بیٹھے ہر بوڑھے سے چند روپے کا سامان لے لینے سے، بچا ہوا کھانا کام والی کو دے دینے سے، پرانے کپڑے غریب رشتہ دار کو دے دینے سے ان کی غربت ختم نہیں کر سکتے۔ صرف انہیں ایک مثبت جذباتی سہارا دے سکتے ہیں جس میں عزت کا عنصر ہونا بنیادی شرط ہے۔ کام والی کو کھانا دینا ہی ہے تو اپنے ساتھ تازہ کھانا ہی کھلا دیجیے۔ غریب ٹھیلے والے سے دو روپے کی کمی بیشی پہ اس کی بے عزتی مت کیجیے۔ یا کسی کی غربت کا خیال کر کے اس سے کچھ خرید رہے ہیں یا مدد کر رہے ہیں تو جتایے مت اور وڈیوز بنا کے تشہیر نہ کیجیے۔

یہاں بات ختم کرتے کرتے ایک نکتہ ذہن میں آیا تو سوچا اس پہ بھی بات ہو ہی جائے اکثر افراد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آپ کو نہیں پتا یہ ٹھیلے والے بہت چالاک ہوتے ہیں غلط منافع کماتے ہیں آپ کی نظر بچا کے خراب سامان دے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ واقعی صرف ان چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں کا مسئلہ ہے۔ آپ جو چار ہزار کی نائٹ کریم خرید کے لاتے ہیں اور بڑے سے ڈبے میں سے ننھی سے ڈبیا نکلتی ہے جس میں چائے کے چمچ برابر کریم چپکی ہوتی ہے کیا وہ منافع خوری نہیں؟ ٹھیلے والے کی چالاکی سے آپ کا زیادہ میں زیادہ بیس تیس کا نقصان ہوا۔ جب کہ برانڈڈ پراڈکٹس پہ آپ ہزاروں کا نقصان سہتے ہیں۔

لیکن پھر بھی یہ اگر کہا جائے کہ روز کی بنیاد پہ یہ دھوکہ بہت ناگوار گزرتا ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ چند چالاک ٹھیلے والوں سے روز لڑ جھگڑ کے برا سامان لینے سے بہتر ہے کہ اردگرد نظر دوڑائیں کئی ایماندار لوگ ملیں گے سامان ان سے خریدیے۔ اور سامان لیتے ہوئے کچھ نظر خود بھی رکھیے۔ لیکن ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ ایسا سیدھا اور ایمان دار ٹھیلے والا مل جائے تو وہ تو آپ کو کیا ٹھگے گا۔ وہ بچارا مفت کا ہرا مصالحہ دیتے دیتے لٹ جاتا ہے۔ اور یہ ہمیں اپنا حق لگتا ہے۔ جیسے ہرا دھنیا اور ہری مرچیں اس کے ابا کے کھیت کی تھیں یا آپ کے ابا کے کھیت کی تھیں اور آپ نے واپس لے لیں۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments