مری میں مرنے کے بعد


ایک چرسی مرنے لگا تو کسی نے پوچھا تمہارے مرنے کے بعد تمہاری آنکھیں کسی کو عطیہ کر دیں؟

اس نے جواب دیا کہ ضرور کر دیں لیکن جسے بھی کریں اسے پہلے بتا دیجے گا کہ یہ دو کش لگانے کے بعد کھلتی ہیں۔

یہ لطیفہ پہلی بار 16 دسمبر 2014 کے بعد پڑھنے کو ملا۔ اور پھر ہم نے بہت کم وقت میں اپنے تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے انتظامات کو از سر نو جائزہ لیتے ہوئے بہتر کر لیا۔ اس سے قبل سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کالج اور یونیورسٹی کی حد تک تو تھے لیکن ہمارے بچے اس سے محفوظ تھے۔ خیر

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بحیثیت قوم ہم نے پچھلی دو دہائیوں میں بہت آزمائشیں جھیلیں لیکن شاید ابھی تک ہماری کشتی ڈگمگا رہی ہے۔ ہم آج بھی اپنے مسائل کا حل ایک ٹویٹ میں تلاشتے ہیں یا پھر انشاء اللہ کہ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

پنجابی کا ایک جملہ شاید آپ کی سماعتوں سے بھی ٹکرایا ہو ”کوئی گل نہیں خیر اے“ یعنی کوئی بات نہیں خیر ہے۔

یہ جملہ ہمارے قومی مزاج کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ اور ہم ایک کے بعد ایک آزمائش سے ہنسی خوشی گزر جاتے ہیں۔ اللہ پاک نے انسان کو بھولنے کی عادت دے کر اس سے پرانے غم چھین لیے ہیں۔ اور انسان ہر دم ایک نئے دکھ سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ لیکن کبھی ان سے پوچھیے جو اپنوں کو اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی کے حوالے کرتے ہیں۔ ایک لمبے عرصے تک خود کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ہاں اب وہ ہم میں نہیں رہا۔

مری میں مرنے والوں کو بھلا کیسے کوئی بھلا سکے گا؟ یہ سانحہ نہ صرف ایک گہرا گھاؤ چھوڑ گیا ہے بلکہ حکومتی سطح پر سیاحت کے لئے کیے جانے والے سارے اقدامات کو کلین بولڈ کر گیا۔ اب بھلا دنیا بھر کے سیاحوں کو آپ کیسے یقین دلائیں گے کہ ہم نے اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنا لیا ہے اور سیاحت کے لئے پاکستان ایک خوبصورت اور موزوں ملک ہے جبکہ دوسری جانب جس بے حسی کی فصل کو سینچا تھا وہ اب پک کر قابل کاشت ہو گئی ہے۔ اور اس کا ایک پھل ہم نے مری میں خوب چکھا۔

اس چرسی کے مصداق اب پھر وقت آ گیا ہے کہ اگلے کش سے پہلے آنکھیں کھول لی جائیں۔

میری ناقص رائے کے مطابق مری اور گلیات کے علاقے میں تمام تر ہوٹل یا ریستورانوں کو کسی ایک ایپلی کیشن کے ذریعے سے رجسٹرڈ کر لیا جائے۔ اور ہر ایک کا ایک بینک اکاؤنٹ بھی اس رجسٹریشن کے تحت موجود ہو۔ آنے والے وقتوں میں تمام سیاح ان لائن بکنگ کروائیں اور جتنے دن ٹھہرنا مقصود ہو اتنے دن کا آن لائن بل ادا کر دیں۔ پری بکنگ ایسے ہی ہو جیسے ریلوے یا ڈائیو بس کی ان لائن بکنگ ہوتی ہے۔ اس سے ریٹ کنٹرول میں رہیں گے اور ٹیکس چوری سے بھی بچا جا سکے گا۔ اور ریٹنگ کی بنیاد پر سروس کا معیار بھی بہتر ملے گا۔ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن اس میں کلیدی رول ادا کر کے آنے والے وقت میں ایسے سانحات سے قوم کو محفوظ بنا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ مری میں داخلے سے قبل کسی ایک مقام پر انٹری لازمی قرار دی جائے۔ جہاں پر گاڑی کا نمبر، سیاحوں کی تعداد، موبائل نمبر وغیرہ کا اندراج ہو اور یہ اندراج ڈائریکٹ اسی ایپلی کیشن کے ڈاٹا بیس میں جائے۔ یوں جب بھی ایپلی کیشن کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے گا تو بآسانی یہ معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت کتنی گاڑیاں اور کتنے سیاح موجود ہیں اور یوں کسی بھی طرح کی صورتحال سے نپٹنا قابل عمل اور آسان ہو گا۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments