راہ حق کا مسافر: کرنل عبدالخالق


کرنل عبدالخالق کے انتقال پر ملال پر بے حد افسوس ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ کل کی بات لگتی ہے، پچاس سال پہلے عبد الخالق نشتر میڈیکل کالج میں میرا ہم جماعت رہا۔ وہ مشرقی پاکستان میں راجشاہی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا۔ مارچ 1971ء میں وہاں فوجی کارروائی کے رد عمل میں ہونی والی یورش کے دوران غالباً مئی میں ہم سے دوسرے سال میں آن ملا تھا۔ ہر تعلیمی ادارے میں طلباء کی ذاتی پسند ناپسند پر گروہی درجہ بندی اوائل وقت میں ہی ہو جاتی ہے۔

عام طور پر ہماری ذاتی کمزوریاں یا خامیاں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہیں۔ خالق سنجیدہ اور خاموش طبع سا انسان تھا۔ اگر کبھی اس سے بات ہوئی بھی تو اس کی گفتگو میں متانت نظر آئی۔ جب کہ میری طبیعت میں پژمردگی اور قنوطیت تھی۔ شاید مجھے اس میں اپنے جیسی کوئی کمزوری نظر نہ آئی اور بنا بریں، چوں کہ وہ دوسرے ہاسٹل میں رہتا تھا اور میرے گروپ میں بھی نہیں تھا، لہذا اس سے قربت نہ ہو سکی۔

نوجوانی میں ہم میں سے اکثریت باریک بین نہیں ہوتی اور ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا شعور ہوتا ہے نہ صلاحیت نہ ہی فرصت ؛چنانچہ ہمیں اپنی ذات کے حوالے سے سب کچھ اچھا دکھائی پڑتا ہے۔ میں بھی خود بین نہیں تھا۔ عرفان ذات یا عرفان نفس کے معاملے میں بالکل کورا تھا بلکہ الٹا میں نے اپنی ذات کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پال رکھی تھیں۔ میں نے اپنے دل کے صنم خانے میں اپنی ذات کے خوش نما بت کو سجا رکھا تھا اور ہمہ وقت اس کی پوجا کر تا تھا۔ علم کا خانہ خالی ہونے کے باوجود، میں سمجھتا تھا کہ بھرا ہوا ہے۔ اس لئے خالی ٹین میں چند سنگریزے کھنکتے کچھ زیادہ ہی تھے۔ خالق کا خانہ لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس کا ظرف بھی بڑا تھا، اس لئے چھلکتا نہیں تھا۔

کالج سے فراغت کے بعد ہم سبھی عملی زندگی کی ان جان راہوں پر نکل کھڑے ہوئی۔ میری طرح خالق بھی فوج کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ تھا، چناں چہ اسے یہ اسیری راس آ گئی۔ وہ فل کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔ جنرل اسلم، جس کا زیادہ وقت آرمی میڈیکل کالج میں گزرا، کی وساطت سے ہم جماعت دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ 8-2007ء میں چل نکلا۔ زیادہ تر ملاقاتیں راولپنڈی میں ہوئیں۔ مارچ 2012ء ایسی ہی ایک ملاقات میرے گھر منگلا میں ہوئی۔ خالق بھی آیا تھا۔ معلوم نہیں کیوں مجھے اس سے انس سا ہو گیا تھا۔ مجھے اس میں حقیقی زہد و اتقاء اور عاجزی و انکساری کی جھلک نظر آئی۔ میرے اس تاثر کی تصدیق بعد کی ملاقاتوں سے ہوتی چلی گئی۔ وہ کم گو ضرور تھا مگر صاحب نظر تھا۔

انہی دنوں میری کتاب ’میر کے خطوط‘ شائع ہوئی تھی۔ میں نے سبھی دوستوں کو یہ کتاب دی تھی۔ سب نے یہ کتاب پڑھی ہوگی۔ مگر عبدالخالق نے اس کا مطالعہ بالاستعجاب ہی نہیں بالاستیعاب بھی کیا۔ ایک دو ماہ بعد جب میں برطانیہ واپس آ چکا تھا، اس نے میری کتاب پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ لکھا۔ اس نے کتاب کو دلچسپی، باریک بینی بلکہ خاصی محنت سے پڑھنے کے بعد نہ صرف اس میں موجود جلی اور خفی غلطیوں کی نشاندہی کی بلکہ ایک لسٹ بھی مرتب کر کے بھیجی۔ غلطیوں کی تصحیح پر ہمارے درمیان ہلکا سا مناقشہ ہوا۔ اس خط میں عبدالخالق نے ایک فقرہ لکھا تھا ’چوں کہ آپ میرے کلاس فیلو رہے ہیں اور میں پیر پرست بھی نہیں ہوں بصورت دیگر، میں آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر لیتا‘ ۔ میں نے جواباً عرض کیا تھا :

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے کلاس فیلو رہے ہیں لہذا میں آپ کا بزرگ نہیں ہوں اور مزید یہ کہ آپ پیر پرست بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ غلطی سے یا غلط فہمی میں میرے دست شر پرست پر بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیتے، تو میرے لیے بڑی مشکل پیدا ہو جاتی۔ میرے ہاتھوں پر غلاظت کی اتنی دبیز تہیں ہیں کہ ایک تہہ دھوتا ہوں تو نیچے سے ایک اور نکل آتی ہے۔ کبھی کبھی صفائی کے لیے جو پانی استعمال کرتا ہوں وہ خود گنگا کے پانی کی طرح صاف نہیں ہوتا، لہذا کثافت، غلاظت اور تعفن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن جی ہی جی میں، میں یہ خوش فہمی پالتا رہتا ہوں کہ صفائی ہو رہی ہے۔ حضرت باہوؔ نے اس ضمن میں کیا خوب بات کہی ہے۔

جے رب نہاتیاں دھوتیاں ملدا، ملدا ڈڈواں مچھیاں ہو
جے رب مون منایاں ملدا، ملدا بھیڈاں سسیاں ہو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا، ملدا دانداں خصیاں ہو
رب انہاں نوں ملدا باہوؔ، نیتاں جنہاں اچھیاں ہو

(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا (جیسے ہندو گنگا میں اشنان کرتے ہیں ) تو مینڈکوں اور مچھلیوں کو ملتا (جو ہر وقت پانی میں رہتے ہیں ) اگر رب سر کے سارے بال اور بھنویں منڈھوانے سے ملتا (جیسے ہندو جوگی کرتے ہیں ) تو ان بھیڑوں کو ملتا جن کے بال پہلی دفعہ کاٹے جاتے ہیں۔ اگر رب انہیں ملتا جو خواب و خیال میں بھی جنسی رغبت سے اجتناب برتتے ہیں اور جو تا حیات شادی کے بکھیڑے میں نہیں پڑتے (جیسے عیسائی راہب اور راہبائیں بظاہر جنسیت سے پرہیز کرتے ہیں ) تو ایسے بیلوں کو ملتا جن کی جنس بندی کر دی گئی ہو۔ اے باہو ؔ! رب تو انہیں ملتا ہے جن کی نیت صاف ہوتی ہے )

میں عبدالخالق کی تحریر اور اردو زبان کی لغت و الفاظ پر اس کی تفہیم اور گرفت دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گیا تھا اور سوچتا تھا کہ کیسے کیسے گوہر آب دارو تاب دار و نایاب کالج میں ہمارے ہم رکاب رہے، مگر ہماری نگاہیں ان کے ظاہری بھیس سے آگے کچھ نہ دیکھ پائیں۔

عبدالخالق نے غالباً 2020ء کے وسط میں ’ہم سب‘ میں لکھنا شروع کیا۔ میں اس کی تحاریر دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے قلم پکڑنے کا سلیقہ آتا ہے۔ مگر یہ علم نہیں تھا کہ سرجن ہونے کے ناتے، میرا قلم خاصا تیز دھار ہے۔ یہ کسی کی تصغیر، تحقیر اور تضحیک سے بھی نہیں چوکتا۔ عبدالخالق کا قلم ناپ تول کا پابند تھا۔ اسے کسی کی دل آزاری پسند نہیں تھی۔ اسے پڑھ کر احساس ہوتا کہ یہ ایک صاحب قلم کی تحریر ہے۔ وہ بات کو عام فہم الفاظ میں بڑے آسان پیرائے میں بیان کرتا بلکہ اس میں ایسا تسلسل اور دل چسپی پیدا کرتا ہے کہ قاری اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہو جاتا، یعنی اس کی تحریر خود کو پڑھواتی تھی۔ اس کی تحریر میں بے ساختگی، شائستگی، روانی اور سلاست تھی۔ آورد نہیں آمد تھی۔ یعنی قدرتی پن تھا، تصنع نہیں۔ اس کی تحریر میں پہاڑی جھرنے کی طرح شوریدگی نہیں تھی، لہذا یہ ندی اچھلتی تھی، کودتی تھی اور نہ ہی پہاڑوں سے سر پٹختی تھی۔ چناں چہ اس کے بہاؤ میں آبشار آتے نہ بلبلے بنتے اور نہ ہی چھینٹے اڑتے۔ یہ میدانی ندی کی طرح بڑے آرام سے اپنے کناروں کے اندر رہتے ہوئے رواں دواں رہتی اور معلوم نہیں کتنی ہی تشنہ زمینوں کو سیراب کرتے ہوئے ہولے ہولے گزر جاتی۔

عبدالخالق کی زیادہ تر تحریریں یورپ کے مختلف شہروں کی سیاحت پر مشتمل تھیں۔ لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے شہروں اور ان کے نظاروں کی جزیات کو بیان کرنےکا خاص ملکہ عطا فرمایا ہے۔ وہ منظر کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کرتا کہ لگتا تھا جیسے کیمرے سے کچھی ہوئی تصویر کو دیکھ رہے ہوں۔ اس کی تحریر ’سن رسیدگی میں کیا کریں‘ پڑھی تھی، اچھی لگی۔ میرا، زندگی کے فلسفے کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ میں تو ساری عمر اپنی زندگی کے مسائل کو الجبرا، جیومیٹری یعنی میتھمیٹکس کی مدد سے حل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہا، کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جب خالق نے ہمیں خوش وقتی کی خاطر کوئی شغل اپنانے کا مشورہ دیا تو یہ مشورہ بہت اچھا ہے مگر مزار ماضی پر جلتا بجھتا دیا، صرف ٹمٹما سکتا ہے، دائرہ نور (Spotlight) نہیں بن سکتا۔

تجویز بہر حال اچھی تھی۔ ہم سبھی زندگی میں کچھ نہ کچھ بن جانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اپنی قدرتی صلاحیتوں اور رجحانات کو ہم نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم نے اپنے طبعی میلان کو جانے بغیر، وہ بننے کی کو شش کی جو ہم بن ہی نہیں سکتے تھے۔ مغرب میں ہمارے بہت سے ہم کار ساتھی، ڈاکٹر، کوئی نہ کوئی مشغلہ رکھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت اور تجربے سے ہماری ذہنی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے اور سوچ، عقل و شعور اور شخصیت میں ایک نکھار پیدا ہوتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ہم اپنے پیشے کے علاوہ کسی من پسند جز وقتی شعبے میں بھی اچھی کار کردگی دکھا سکتے ہیں۔

عبد الخالق دسمبر کے دوسرے ہفتے میں کرونا میں مبتلا ہوا۔ جب اس کی بیماری کا سنا تو اس کی تکلیف کو اپنے سینے میں محسوس کیا۔ میں ہر روز بڑی عاجزی سے اپنے رب کے حضور اس کی شفایابی کے لئے دعا کرتا رہا۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے یہ احساس تھا اس کی یہ بیماری اسے پاک صاف کر کے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرنے کا بہانہ ہے۔ تین ہفتے مصنوعی تنفس پر رہنے کے بعد وہ آخر سرخرو ہوا۔ وہ ان لوگوں کے زمرے میں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”یدخلون الجنۃ بغیر حسابٍ“ (وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے ) جگہ پاکر فلاح پا گیا۔

کچھ لوگ شمع محفل نہیں ہوتے مگر جب محفل سے اٹھ جاتے ہیں تو محفل سونی سونی سی لگنے لگتی ہے۔ کچھ لوگ بھریا میلہ چھوڑ کر اس طرح چلے جاتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میلہ تو ان کے دم قدم سے آباد تھا۔ کچھ لوگ زندگی کے سفر میں ایسے بھی ہم رکاب ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنا سٹیشن آنے پر سواری سے اتر جاتے ہیں تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش وہ کچھ دیر اور ہمارے ساتھ شریک سفر رہتے۔ لیکن جانے والا تو راہی ملک عدم ہوتا ہے، کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے۔ ایسے دوستوں کی یادیں ہی ہمارا سرمایہ حیات بن جاتی ہیں۔ انہیں یادوں سے کلیاں پھوٹتی اور پھول چٹختے ہیں اور ان کی خوش بو سے یادوں کی بہشت مہک اٹھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔ وہ راہ حق کا مسافر تھا اور حق سے جا ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments